Tuesday 3 October 2017

SCIENCTISTS : METABOLISM CLOCK OF LIVING ANIMALS- AWARDED NOBEL PRIZE TO 3 SCIENTISTST

Source: http://www.bbc.com/urdu/science-41479942

جسم کے اوقات یعنی ’باڈی کلاک‘ کا اسرار کھولنے والے سائنسدانوں کے لیے نوبیل انعام


باڈی کلاکتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسائنسدانوں نے پتہ چلایا کہ ہمارے تقریبا تمام خلیوں میں ایک گھڑی ہے جو مختلف اوقات میں جسم کو مختلف پیغامات دیتی ہیں

تین سائنسدانوں کو ہمارے جسم اور وقت کے متعلق اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے سنہ 2017 کے میڈیسن کے شعبے میں نوبیل انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔
جسمانی گھڑی یا باڈی کلاک یا یومیہ تبدیلی کے سبب ہمیں رات میں سونے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جبکہ اس کی وجہ سے ہمارے جسم کی کارکردگی اور ہمارے برتاؤ میں بڑی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں۔
امریکی سائنسداں جیفری ہال، مائیکل روسباش اور مائیکل ینگ کو مشترکہ طور پر نوبیل انعام کا حقدار قرار دیا گيا ہے۔
نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی نے کہا کہ 'ان کی دریافت سے ہماری صحت اور بہتری پر وسیع اثرات مرتب ہوں گے۔'
انسانی جسم ہو، پودے یا پھر جانور ہوں یا پھپھوند سب میں ایک گھڑی ہوتی ہے۔ انسان کے جسم کے تقریبا تمام خلیوں میں ایک گھڑی چل رہی ہوتی ہے۔
ہمارا موڈ، ہارمون کی سطح، جسم کا درجۂ حرارت اور میٹابولزم (انسانی جسم میں کیمیائی اور شکست ریخت کا عمل) سب ایک لے میں اوپر نیچے جاتے ہیں۔
یہاں تک کہ ہر صبح دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ ہمارے جسم کا انجن ایک نئے دن کے لیے سٹارٹ ہوتا ہے۔

جیفری ہال، مائیکل روسباش اور مائیکل ینگتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionامریکی سائنسداں جیفری ہال، مائیکل روسباش اور مائیکل ینگ کو مشترکہ طور پر نوبیل انعام کا حقدار قرار دیا گيا ہے

یعنی ہمارے جسم کی گھڑی دن اور رات کے حساب سے ہمارے جسم کو کنٹرول کرتی ہے اور اس میں رخنہ پڑنے پر اس کے بہت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
جیٹ لیگ اس کی ایک مثال ہے جس میں جسم دنیا کے دوسرے حصے کے رات دن سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتا ہے۔
اس کا وقتی اثر یادداشت پر پڑتا ہے لیکن طویل مدت میں اس کے سب درجہ دو کی ذیابیطس، کینسر اور دل کی بیماریاں تک ہو سکتی ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں باڈی کلاک کے سائنسداں پروفیسر رسل فوسٹر کا کہنا ہے کہ 'اگر ہم اپنے سسٹم کے پینچ کو درست کر سکے تو اس کا ہمارے میٹابولزم پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔'
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں بہت 'خوشی ہے کہ تین امریکی سائنسدانوں کو یہ انعام دیا گیا ہے۔' وہ اس کے مستحق تھے کیونکہ انھوں نے پہلی بار وضاحت کی تھی کہ ہمارا نظام کیسے کام کرتا ہے۔
'انھوں نے ہمیں بتایا کہ جانداروں میں کس طرح سالماتی گھڑیاں کام کرتی ہیں۔'

باڈی کلاک
Image captionباڈی کلاک میں توازن برقرار رہنے سے اچھی صحت کی امید کی جاسکتی ہے

ان تینوں کی تحقیق پھلوں پر بیٹھنے والی مکھیوں پر تھی لیکن ان کی دریافت نے بتایا کہ کس طرح یہ تمام جانداروں میں سرگرم عمل ہے۔
جیفری ہال اور مائیکل روسباش نے 'پیریئد' نامی جین کو ڈی این سے علیحدہ کیا تھا جسے یومیہ تبدیلی کہا گیا۔
پیریئد جین میں ایک پروٹین 'پی ایی آر' کے بننے کے احکام ہوتا تھا اور جب پی ایی آر کی سطح بڑھ جاتی تو یہ اپنے احکام کو بند از خود بند کر دیتا۔
اس کے نتیجے میں پی ایی آر پروٹین کی سطح 24 گھنٹے میں اوپر نیچے ہوتی ہے یعنی یہ رات میں بڑھ جاتی ہے اور دن میں کم ہوتی جاتی ہے۔
جبکہ مائیکل ینگ نے 'ٹائم لیس' نامی ایک جین کے ساتھ ایک دوسری جین 'ڈبل ٹائم' کی دریافت کی اور یہ دونوں پی ایی آر کے استحکام پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اگر پی ایی آر متوازن ہوتا تو گھڑی سست رفتاری سے چلتی اور یہ غیر متوازن ہوتا تو گھڑی بہت زیادہ تیز چلتی ہے۔ پی ایی آر کا متوازن ہونا ہم میں سے کسی کے سحر خیز ہونے اور کسی کے شب بیدار ہونے کی ایک وجہ ہے۔

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment