Source: http://www.bbc.com/urdu/science-41479942
جسم کے اوقات یعنی ’باڈی کلاک‘ کا اسرار کھولنے والے سائنسدانوں کے لیے نوبیل انعام
تین سائنسدانوں کو ہمارے جسم اور وقت کے متعلق اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے سنہ 2017 کے میڈیسن کے شعبے میں نوبیل انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔
جسمانی گھڑی یا باڈی کلاک یا یومیہ تبدیلی کے سبب ہمیں رات میں سونے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جبکہ اس کی وجہ سے ہمارے جسم کی کارکردگی اور ہمارے برتاؤ میں بڑی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں۔
امریکی سائنسداں جیفری ہال، مائیکل روسباش اور مائیکل ینگ کو مشترکہ طور پر نوبیل انعام کا حقدار قرار دیا گيا ہے۔
نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی نے کہا کہ 'ان کی دریافت سے ہماری صحت اور بہتری پر وسیع اثرات مرتب ہوں گے۔'
انسانی جسم ہو، پودے یا پھر جانور ہوں یا پھپھوند سب میں ایک گھڑی ہوتی ہے۔ انسان کے جسم کے تقریبا تمام خلیوں میں ایک گھڑی چل رہی ہوتی ہے۔
ہمارا موڈ، ہارمون کی سطح، جسم کا درجۂ حرارت اور میٹابولزم (انسانی جسم میں کیمیائی اور شکست ریخت کا عمل) سب ایک لے میں اوپر نیچے جاتے ہیں۔
یہاں تک کہ ہر صبح دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ ہمارے جسم کا انجن ایک نئے دن کے لیے سٹارٹ ہوتا ہے۔
یعنی ہمارے جسم کی گھڑی دن اور رات کے حساب سے ہمارے جسم کو کنٹرول کرتی ہے اور اس میں رخنہ پڑنے پر اس کے بہت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
جیٹ لیگ اس کی ایک مثال ہے جس میں جسم دنیا کے دوسرے حصے کے رات دن سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتا ہے۔
اس کا وقتی اثر یادداشت پر پڑتا ہے لیکن طویل مدت میں اس کے سب درجہ دو کی ذیابیطس، کینسر اور دل کی بیماریاں تک ہو سکتی ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں باڈی کلاک کے سائنسداں پروفیسر رسل فوسٹر کا کہنا ہے کہ 'اگر ہم اپنے سسٹم کے پینچ کو درست کر سکے تو اس کا ہمارے میٹابولزم پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔'
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں بہت 'خوشی ہے کہ تین امریکی سائنسدانوں کو یہ انعام دیا گیا ہے۔' وہ اس کے مستحق تھے کیونکہ انھوں نے پہلی بار وضاحت کی تھی کہ ہمارا نظام کیسے کام کرتا ہے۔
'انھوں نے ہمیں بتایا کہ جانداروں میں کس طرح سالماتی گھڑیاں کام کرتی ہیں۔'
ان تینوں کی تحقیق پھلوں پر بیٹھنے والی مکھیوں پر تھی لیکن ان کی دریافت نے بتایا کہ کس طرح یہ تمام جانداروں میں سرگرم عمل ہے۔
جیفری ہال اور مائیکل روسباش نے 'پیریئد' نامی جین کو ڈی این سے علیحدہ کیا تھا جسے یومیہ تبدیلی کہا گیا۔
پیریئد جین میں ایک پروٹین 'پی ایی آر' کے بننے کے احکام ہوتا تھا اور جب پی ایی آر کی سطح بڑھ جاتی تو یہ اپنے احکام کو بند از خود بند کر دیتا۔
اس کے نتیجے میں پی ایی آر پروٹین کی سطح 24 گھنٹے میں اوپر نیچے ہوتی ہے یعنی یہ رات میں بڑھ جاتی ہے اور دن میں کم ہوتی جاتی ہے۔
جبکہ مائیکل ینگ نے 'ٹائم لیس' نامی ایک جین کے ساتھ ایک دوسری جین 'ڈبل ٹائم' کی دریافت کی اور یہ دونوں پی ایی آر کے استحکام پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اگر پی ایی آر متوازن ہوتا تو گھڑی سست رفتاری سے چلتی اور یہ غیر متوازن ہوتا تو گھڑی بہت زیادہ تیز چلتی ہے۔ پی ایی آر کا متوازن ہونا ہم میں سے کسی کے سحر خیز ہونے اور کسی کے شب بیدار ہونے کی ایک وجہ ہے۔
No comments:
Post a Comment