Sunday 1 October 2017

CHINA, SINKING: OGAR MUSLIM COMMUNITY UNDER MILITANT SUPPRESSION, WHY?

ACTION RESEARCH FORUM: OGARS ARE SUBMISSIVE & DISCIPLINED CONSERVATIVE  ISLAMIC COMMUNITY, THEIR RIGHT OF PILGRIMAGE AND COLLECTIVE PRAYERS ARE RESTRICTED BY LOCAL ADMINISTRATION  A STEP TO ANNIHILATE THEIR COMMUNITY IDENTITY. 

THUS, CHINA EARNING BAD GUY NAME. 

SOME MEMBERS OF ACTION RESEARCH HAVE VISTED  CHINA MUSLIM COMMUNIUTY AREAS AND CULTURAL TIES ON STUDY AS MEMBERS OF PEOPLE TO PEOPLE EDUCATION EISEN HOUVER CLUB OF US. THE THAN DATA FACTS ARE NOT INCLUSIVE HERE BEING OUTDATED DUE TO CULTURAL REVOLOUTION AND STATE OF THE ART AMULGAMATION. 

NEVERTHELESS, LARGER INTEGRATION OF MODERN CHINA IS NOT PROPERLY MODELED FOR THE WORLD AND COMMUNITIES, WHICH COULD BE UNDER INFLUENCE  IN CHINESE HALOW-IN.

Source: http://www.bbc.com/urdu/world-41460023

اوغر مسلمانوں اور چین کے درمیان جھگڑا کیا ہے

اویغرتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionچینی حکومت کا کہنا ہے کہ سنکیانک میں سب ٹھیک ہے
چین کے سنکیانگ صوبے سے متعلق رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ وہاں اقلیت مسلم کمیونٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ قران اور نماز میں استعمال ہونے والی دیگر اشیا کو جمع کرایں کرائیں۔
چینی حکومت نے کہا ہے کہ یہ محض افواہیں ہیں اور سنکیانگ میں سب کچھ ٹھیک ہے۔
اس سے قبل، اپریل کے آغاز میں، سنکیانگ میں حکومت نے اسلامی شدت پسندوں کے خلاف مہم کے تحت اوغرمسلمانوں پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔
ان میں 'غیر معمولی لمبی داڑھی، عوامی جگہوں پر نقاب پہننے اور سرکاری ٹی وی چینلز دیکھنے سے منع کرنا شامل ہے۔
چینی فوجیتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionکمیونسٹ چین نے 1949 میں اس علاقے کو مکمل طور پر کنٹرول کر لیا تھا
سنکیانک میں اس طرح کی پابندیاں نئی بات نہیں ہیں۔ 2014 کے رمضان میں مسلمانوں کے روزے رکھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
سوال یہ ہے کہ سنکیانگ میں رہنے والے مسلمان کون ہیں اور چین کی حکومت کے ساتھ انکا کیا جھگڑا ہے۔
چین کے مغربی صوبہ سنکیانگ میں چینی انتظامیہ ہے اور اس کے مقامی اوغر قبائلی برادری کے درمیان تنازعہ کی ایک طویل تاریخ ہے۔
اوغر دراصل مسلمان ہیں ثقافتی اور مذہبی کے لحاظ سے وہ خود کو وسطی ایشیائی ممالک کے قریب سمجھتے ہیں۔
اوغرتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionثقافتی اعتبار سے اوغیر خود کو وسطی ایشیا کے قریب سمجھتے ہیں
صدیوں سے، اس علاقے کی معیشت زراعت اور کاروبار پر مرکوز ہے۔ یہاں کاشغر جیسے قصبے مشہور سِلک روٹ کے بہت معروف مرکز ہیں۔
بیسوی صدی کے آغاز میں کچھ عرصے کے لیے اوغروں نے خود کو آزاد قرار دیدیا تھا۔ کمیونسٹ چین نے 1949 میں اس علاقے کو مکمل طور پر کنٹرول کر لیا تھا۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں نے آہستہ آہستہ کسانوں کی مذہبی، اقتصادی اور ثقافتی سرگرمیاں ختم کردی ہیں۔
بیجنگ نے یہ الزام لگایا ہے کہ 1990 میں سنکیانگ میں مظاہروں اور 2008 میں بیجنگ اولمپکس کے دوران، حکومت نی کاروائیوں میں شدت آگئی ہے۔
سنکیانگ مارکیٹتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionسنکیانگ کو مشہور سِلک روٹ پر بیرونی چوکی کے طور پرشہرت حاصل ہے
گزشتہ ایک دہائی کے دوران، زیادہ تراہم اوغر رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔
سنکیانگ میں، چین نے بڑے پیمانے پر ہان کمیونٹی کو بسانا شروع کر دیا جس سے اوغر اقلیت میں آ گئے ہیں۔
بیجنگ پر یہ بھی الزام ہے کہ اس علاقے میں اس کے اپنے مبینہ مظالم کو صحیح ٹھرانے کے لیے وہ اوغر علیحدگی پسندوں کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
چینی حکومت کا کہنا ہے کہ اوغر علیحدگی پسند الگ ہونے کے لیے بم حملے ، بدامنی اور توڑ پھوڑ کی کارروائیوں کی مہم چلا رہے ہیں۔
امریکہ میں 9/11 کے سے جوڑنے کی کوشش کی ۔
چین کہتا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں تربیت حاصل کی ہے. تاہم، چین اپنے اس دعوی کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر پایا۔
افغانستان پر امریکی حملے کے دوران امریکی فوج نے بیس سے زیادہ اوغر مسلمانوں کو پکڑا تھا اور ان پر الزام ثابت ہوئے بغیر سالوں تک گوانتانامو بے جیل میں رکھا گیا بعد میں ان میں سے زیادہ تر کو ادھر ادھر بسایا گیا۔
اوغر رہنما رابعہ قدیرتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionچینی حکومت جِلا وطن اوغیر رہنما رابعہ قدیر پر مسئلے کو الجھانے کا الزآم لگاتی ہے

بڑا حملہ

جولائی 2009 میں، سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی میں نسلی فسادات میں تقریباً 200 افراد ہلاک ہوئے۔
خیال ہے کہ ایک فیکٹری میں ہان چینیوں کے ساتھ جھگڑے میں دو اوغروں کی موت کے بعد یہ تشدد پھیلا تھا۔
چینی انتظامیہ نے اس بدامنی کے لیے ملک سے باہر سنکیانگ علیحدگی پسندوں کو ذمہ دار ٹھرایا تھا اور جلا وطن رہنما رابعہ قدیر کو قصور مانا جاتا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ رابعہ نے تشدد بھڑکایا تھا۔ رابعہ نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
اوغر پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے پر امن مظاہرہ کرنے والے لوگوں پر اندھا دھن فائرنگ کی تھی جس کے سبب تشدد اور اموات ہوئیں۔
موجودہ صورتحال
سنکیانگ کو مشہور سِلک روٹ پر بیرونی چوکی کے طور پرشہرت حاصل ہے اور چین کے سیاحوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔
سنکیانگ میں صنعتی اور توانائی کے منصوبوں میں بہت بڑی سرکاری سرمایہ کاری ہوئی ہے اور چین ان کو ہی اپنی بڑی کامیابیوں کے طور پر گنوانے کی کوشش کرتا ہے۔
لیکن بہت سےاوغروں کی شکایت کی ہے کہ ہان ان کی ملازمتوں پر قبضہ کررہے ہیں اور ان کی زرعی زمینوں پر اصلاحات کے نام پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔
حکومت مقامی اور غیر ملکی صحافیوں کی سرگرمیوں سے پر کڑی نظر رکھتی ہے اور علاقے کی خبروں کی تصدیق کے لیے بہت کم آزاد ذرائع موجود ہیں۔

No comments:

Post a Comment