Source: http://www.bbc.com/urdu/science-41480301
کیا ’برفانی سٹوپا‘ ہمالیہ میں پانی کے مسئلے کا حل ہے؟
شیوانی کوہوکانو ویٹیرز، بی بی سی ورلڈ سروس
اس وقت رات کے بارہ بج رہے ہیں اور سطح سمندر سے 11000 فٹ کی بلندی پر دنیا کے سرد ترین مقامات میں سے ایک مقام پر یہ دن کا سرد ترین وقت ہے۔ سردیوں کے موسم میں یہاں اکثر درجہ حرارت منفی 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔
دس رضا کاروں کا ایک گروپ وہاں جمع ہے اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع انڈیا کے سب سے شمالی علاقے لداخ میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
یہ رضا کار انسانی ہاتھوں سے بنائے ہوئے 30 میٹر اونچے برفانی ڈھانچے تعمیر کر رہے اور ان کو امید ہے کہ موسم بہار میں یہ پگھل کر لداخ کے رہائشیوں اور ان کے باغات کے لیے پانی کی ضروریات کو پورا کر سکیں گے۔
لداخ کے رہائشیوں کو کافی سخت زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ ماہ سرما میں سڑکیں بند ہو جانے کی وجہ سے وہ باقی ملک سے کٹ جاتے ہیں۔
سونم وانگ چک کہتے ہیں کہ موسم کے بدلتے حالات ان مسائل میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ ہمالیہ اور ہندو کش کے پہاڑی سلسلوں میں حساس موسم اور پانی کی دستیابی پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
'ہمیں نظر آرہا ہے کہ گلیشیئر کم ہوتے جا رہے ہیں اور موسم بہار میں بھی پانی کم ہوتا ہے لیکن موسم سرما میں ہم خطرناک سیلابی حالات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر لداخ کی وادی میں پانی کی آمد و رفت غیر مستقل ہو گئی ہے۔'
سونم وانگ چک لداخ کے خطے میں کام کرنے والے ایک اور انجینیئر چی وانگ نورفیل سے متاثر ہیں۔ چی وانگ نورفیل نے ماضی میں 13000 سے زائد بلندی پر چپٹے گلیشیئر تخلیق کیے تھے۔
سونم وانگ چک نے بتایا کہ وہ ایک پل عبور کر رہے تھے جب ان کے ذہن میں برفانی ڈھانچے کا خیال آیا۔
'مئی کے مہینے کے موسم گرم ہوتا ہے اور براہ راست دھوپ برف پگھلاتی ہے لیکن میں نے پل کے نیچے برف دیکھی تو مجھے خیال آیا کہ اگر ہم برف کو سورج کی شعاعوں سے بچا سکیں تو وہاں پر ہم برف سٹور کر سکیں گے۔'
اس خیال کے بعد 2013 میں انھوں نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ لداخ کے گاؤں فیانگ میں اپنے منصوبے پر کام شروع کیا۔
ان برفانی ڈھانچوں کو انھوں نے 'سٹوپا' کا نام دیا کیونکہ ان کی شکل تبت کے بودھ راہبووں کی عبادت گاہ کی مخصوص شکل جیسی ہے۔
ان 'سٹوپا' کو تعمیر کرنے میں نہایت سادی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ پائپ کو زمین میں دفنایا جاتا ہے اور ان کا آخری سرا زمین سے اوپر رہتا ہے۔
اونچائی، درجہ حرارت اور کشش ثقل کی قوت میں فرق کی وجہ سے پائپوں میں دباؤ بڑھ جاتا ہے اور زیر زمین پانی ان پائپ سے سطح زمین سے اوپر کی جانب بڑھتا ہے اور فوارے کی طرح باہر نکلتا ہے۔
لیکن منفی درجہ حرارت کی وجہ سے پانی جم جاتا ہے اور اہرام مصر جیسی تکونی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
'ہم اس پانی کو جما رہے ہیں جو عام طور پر سردیوں میں استعمال نہیں ہوتا اور اس کی ساخت اس قسم کی ہوتی ہے کہ وہ موسم بہار تک پگھلتا نہیں ہے، اور بہار شروع ہونے کے بعد ہم اسے اپنی فصلوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔'
سونم وانگ چک کا خیال ہے کیونکہ اس برفانی ڈھانچے کی شکل بودھ عبادت گاہ جیسی ہے تو مقامی آبادی اس سے زیادہ مانوس بھی ہیں اور اس خیال کرتے ہیں۔
سال 2014 میں اس 'سٹوپا' کی کامیابی کے بعد فیانگ کی بودہ خانقاہ نے سونم وانگ چک سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ ایسے 20 اور برفانی سٹوپا تعمیر کریں جس کے لیے 125200 ڈالر چندہ کر کے جمع کیے گئے۔
اس جمع کی گئی رقم سے تقریباً ڈھائی کلو میٹر لمبی پائپ لائن بنائی گئی جس کے بارے میں سونم وانگ چک کہتے ہیں کہ اس کی مدد سے 50 برفانی سٹوپا تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔
لداخ کے بعد وانگ چک اپ سوئٹزرلینڈ کے قصبے سینٹ موریٹز میں بھی ایسا سٹوپا تعمیر کر رہے ہیں۔
'سوئس حکام سے یہ طے ہوا ہے کہ وہ سٹوپا کی تعمیر کے بدلے وہ فیانگ کے لوگوں سیاحتی کاروبار کے بارے میں اپنے تجربے سے آگاہ کریں گے تاکہ موسمی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے لداخ میں سیاحت کے فروخ کے لیے کام کیا جائے اور گاؤں کی ابتر معاشی حالت کو بہتر بنایا جا سکے۔'
سونم وانگ چک مستقبل کے بارے میں کافی پر امید ہیں۔
'ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل تعلیم و تربیت حاصل کرے اور مستقبل میں برف اور گلیشیئر کے ذریعے کاروبار کریں۔'
بی بی سی انو ویٹرز جنوبی ایشیا میں مختلف مسائل اور چیلینجز کو حل کرنے کے انوکھے ذرائع کے بارے میں سیریز ہے۔
کیا آپ نے کبھی ہندی زبان کا لفظ 'جگاڑ' سنا ہے؟ اس کا مطلب ہے سستا حل۔
اگر آپ نے کوئی ایسی انوکھا حل تخلیق کیا ہو تو ہمیں yourpics@bbc.co.uk پر تصویر بھیجیں اور ہمارے ٹوئٹر ہینڈل @BBCWorldService پر ہیش ٹیگ #BBCInnovators اور #Jugaad کے ساتھ ہمیں ٹویٹ کریں۔
.
No comments:
Post a Comment