ACTION RESEARCH FORUM: IS THIS HINDUATA, PROMOTED BY PRE-PARTITON WISDOM, VISION DEFICIT, FOCUS WAS FAITH POLARIZATION, ON THE COST OF HATE AND MASSES AND HUMANITY, AS HERITAGE NOW MODI AND RSS, EXECUTE HUMAN NOT ERADICATE MISERY. EVEN 70 YERS INDIA WHAT IT WAS, MORE SUFFERINGS AND RESOURCE HUNGRY.
Source: http://www.bbc.com/urdu/india-43279016
انڈیا: ’لڑکیوں کو اغوا کر کے قحبہ خانوں کو دیا جاتا ہے‘
کہا جاتا ہے کہ انڈیا میں ہر سال پانچ لاکھ بچے لاپتہ ہوجاتے ہیں۔ ہماری ساتھی سونیا فالیورہ ایک ایسی 13 سالہ بچی کے والدین سے ملنے گئیں جو سڑک پر چل رہی تھی اور اس کی ماں نے دیکھا کہ ایک گاڑی آ کر رکی اور اس میں بیٹھے لوگ بچی کو پکڑ کر لے گئے۔
ایک صبح میں شمالی انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے ایک دور دراز گاؤں میں اینٹیں بنانے والے ایک مزدور رام برہن سے اس وقت ملنے گئی جب اس کے گھر والے ایک شادی کی تیاری کر رہے تھے۔
دلہن برہن کی 15 سالہ بیٹی تھی۔ اس بچی کے چہرے کے تاثرات بہت معصوم اور وہ مٹی کے اس گھر کے فرش پر ہلدی میں لپٹی ہوئی تھی۔ مگر دیگر شادیوں کے برعکس اس میں نہ موسیقی تھی، نہ رقص، اور نہ ہی خوشی۔ بلکہ ماحول سوگوار تھا۔
یہ بھی پڑھیے
رام برہن کا اپنی بیٹی کی اتنی جلدی شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ ان پڑھ دھاڑی دار مزدور ہے مگر ہر باپ کے لیے اپنے بچوں کے لیے وہ بہترین زندگی چاہتا تھا۔ انڈیا میں بچیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال ہے اور وہ چاہتا تھا کہ اس کی بیٹی تعلیم مکمل کر لے۔
مگر گذشتہ سال اپریل میں ان کی سب سے چوٹھی بچی اغوا ہوگئی تھی۔ مجھے رام برہن نے بتایا کہ بچی کی عمر 13 سال، نو ماہ، اور تین دن تھی۔
ہر صبح ساوتری اپنے باپ کے لیے چائے کی تھرموس لیے اپنی ماں کے ساتھ اینٹوں کی بھٹی پر جایا کرتی تھی۔ اینٹوں کی بھٹی ان کے گھر سے جانے والی ایک کچی سڑک پر 20 منٹ دور تھی۔ مگر اس صبح کچھ لوگوں ایک کھلی جیپ میں آئے اور گاڑی رکے بغیر ہی اسے اٹھا کر لے گئے۔ اس کی خوفزدہ ماں چیخیں مارتی رہ گئی۔ 13 سالہ ساوتری ابھی بھی لاپتہ ہے اور اغوا ہونے والی وہ نہ تو پہلی بچی ہے اور نہ ہی آخری۔
سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں ہر سال تقریباً پانچ لاکھ بچے لاپتہ ہو جاتے ہیں۔
اتر پردیش خاص طور پر لاقانونیت کی لپیٹ میں ہے اور دیگر ریاستوں کے مقابلے میں یہاں خواتین اور بچوں کے خلاف سب سے زیادہ جرائم کا اندراج ہوتا ہے۔ اغوا کے بعد رام برہن نے سوچا کہ وہ اپنی بچیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے اور بہتری اسی میں ہے کہ وہ جو بھی راضی ہو جائے اس سے جلد از جلد باقی چھ بچیوں کی شادیاں کر دیں۔
میں رام برہن کے سامنے ایک چار پائی پر بیٹھی تھی۔ اس پتلے دبلے شخص کے بال سفید ہو رہے تھے اور سردی سے بچنے کے لیے اس کے پاس صرف ایک پورے بازو کی قمیض ہی تھی۔
اس نے درست لہجے میں اپنی ذات بتائی اور کہا ہم شکیہ ہیں۔ میں نے اس سے اس کی ذات پوچھی بھی نہیں تھی۔ مگر ان علاقوں میں ذات آپ کا تعارف ہوتی ہے۔ شکیہ نیچلے درجے کی ذات ہے اور وہ اس قدر پسماندہ ہیں کہ حکومت نے ان کے لیے خصوصی پالیسیاں بنا رکھی ہیں۔ مگر پسماندہ ذات سے تعلق کا مطلب ہے کہ آپ خوف اور عدم تحفظ میں ہی زندگی گزارتے ہیں۔ اس اغوا کے ساتھ رام برہن کا خوف حقیقی شکل اختیار کر گیا تھا۔
اس نے مجھے بتایا کہ اغوا کے اگلے روز وہ پولیس کے پاس گیا تھا۔
ان کے پاس بس کا کرایہ نہیں تھا اس لیے وہ پیدل تھانے گیا۔ اس کو وہاں پہنچنے میں دو گھنٹے لگ گئے۔ اس نے پولیس کو تمام معلومات دیں۔ اسے پتا چلا تھا کہ اغوا کاروں میں سے ایک اس کا پڑوسی تھا۔ پولیس اس شخص کو ڈھونڈنے گاؤں آئی مگر انھیں وہ نہ ملا۔ اس مبینہ اغوا کار کو سبق سکھانے کے لیے پولیس نے اُس کی جھونپڑی مسمار کر دی۔ اس کے بعد پولیس واپس نہ آئی۔
جب میں تھانے گئی تو رام برہن کی شکایت کا کوئی اندراج ہی نہ تھا۔ ایک پولیس اہلکار نے مجھے کہا ’لڑکیاں تو بھاگ جاتی ہیں۔‘
میں اس پولیس اہلکار کے جواب پر حیران نہیں تھی۔ گم شدہ بچوں کو ڈھونڈنے کے لیے وقت، افرادی قوت، اور وسائل لگتے ہیں اور انڈیا میں پولیس کے پاس ان سب کی کمی ہے۔ تفتیش سے بچنے کے لیے وہ ایسا تاثر دیتے ہیں کہ کوئی جرم ہوا ہی نہیں۔
ساوتری پہلی بچی نہیں جو اس علاقے میں لاپتہ ہوئی ہو۔ گاؤں والوں کی قیاس آرائیوں کے مطابق جس پڑوسی نے بچی کو اغوا کیا تھا وہ ایک ایسے جرائم پیشہ گروہ کا حصہ تھا جو کہ دلی اور ممبئی میں قحبہ خانوں کو لڑکیوں فراہم کرتا ہے۔ انڈیا میں بچوں کے اغوا کے پیچھے سب سے بڑی وجہ ان کی سمگلنگ ہوتی ہے۔
مگر کچھ بچے بہتر زندگی کی آس میں بھاگ بھی جاتے ہیں۔ انڈیا میں بچوں کی تقریباً نصف آبادی شدید غربت میں زندگی گزارتی ہے۔ ان کے پاس گھر میں کھانے کو خوراک ناکافی ہوتی ہے، اور پینے کا صاف پانی نہیں ہوتا۔ کچھ کے سروں پر تو چھت تک نہیں ہوتی۔ کچھ بچوں کو ان کے والدین بیچ دیتے ہیں۔ کچھ بچیوں کو جان بوجھ کر مصروف بازاروں یا گلیوں میں گم ہو جانے دیا جاتا ہے۔
حکومت اس حوالے سے جو کچھ کر سکتی ہے، نہیں کر رہی۔ اگر وہ پولیس کو بچوں کو تلاش کرنے کے وسائل اور اختیارات دے بھی دیں، تو معاملہ حل نہیں ہوتا۔ معاملہ یہ ہے کہ بچوں کو ضرورت ہے تحفظ کی۔
انڈئا کی عدالتوں نے کئی بار بچوں کی گمشدگیوں کے حوالے سے سخت احکامات دیے ہیں۔ عدالتوں کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ دہشتگردی جتنا سنگین ہے۔
جو کچھ مجھے تھانے میں معلوم ہوا تھا، جب میں یہ سب رام برہن کو بتانے کے لیے اس کے پاس لوٹی تو اسے کچھ اور بھی یاد آیا۔
پولیس نے اس سے اس کی بیٹی کی تصویر مانگی تھی۔ مگر اس کے پاس کبھی اتنے پیسے ہی نہیں تھے کہ وہ گاؤں کے بازار کے عارضی سے فوٹو بوتھ سے تصویر بنوا سکتا۔
اس نے ٹھنڈی آہ بھری کہ اب اس کی بچی چلی گئی ہے اور اس کے پاس بچی کو یاد کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment