ACTION RESEARCH FORUM: CORRUPTIONS PREVAILS IN ALL KIND OF EVERY THING IN KARACHI, RIGHT FROM PRIMEMINISTER, CHIEF MINISTER, POLICE, JUDICIAL SYSTEM, EDUCATION, FAKE CURRENCY, BILLING EDIBLES PAKISTANI OR CHINESE, NOISE POLUUTION, NAWAZ SHRIEF FAMILY, ZARDARI ENJOYING BLOOD MONEY OF BB MURDER, WHICH FABRICATED BY BENEFIARIES, INHERITED SINDH LANLORDS, EVEN FAITH GROUPS;PAGRIS: KALI, BLACK, WHITE, BROWN, MANY MORE, E:ECTRICITY STEALING, MEASUREMENT. THE SOCIETY IS FAKE UNDER STAMP OF FAITH; BEGGERS, CHEATERS, ALL FOCUS ON POCKETS OF OTHERS, HOW TO SNATCH, FAKE FAITH.
GOD FORBID WEAKER IS DOWNTRODDEN!
Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-43343260
GOD FORBID WEAKER IS DOWNTRODDEN!
Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-43343260
بدعنوانی اور سیاسی عدم استحکام کراچی کے کاروبار میں بڑی رکاوٹ: عالمی بینک
عالمی بینک نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بدعنوانی کو کاروبار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔
عالمی بینک نے اپنی ایک جائزہ رپورٹ میں کرپشن کا دوسرے ممالک اور جنوبی ایشیا کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی میں بدعنوانی کاروبار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
عالمی بینک نے حکومت سندھ کی درخواست پر یہ جائزہ رپورٹ تیار کی ہے۔
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق عالمی بینک کی جائزہ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کرپشن اور سیاسی عدم استحکام صوبہ پنجاب اور خیبر خیبر پختونخوا کے شہروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے تاہم کراچی میں دونوں صوبوں کے مقابلے میں بجلی کی صورت حال بہتر ہے۔
سروے میں 35 فیصد جواب دہندہ اداروں نے کرپشن کو کاروبار کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔
عالمی طور پر یہ شرح چھ فیصد جبکہ جنوبی ایشیا میں نو فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیے
عالمی بینک کی رپورٹ میں 22 فیصد جواب دہندگان نے سیاسی عدم استحکام کو کاروبار کی راہ میں دوسری بڑی رکاروٹ قرار دیا، جبکہ بین الاقوامی طور پر یہ شرح سات فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق عدم استحکام کی اس شرح میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ سنہ 2007 میں یہ شرح صرف دو فیصد تھی۔ عدم استحکام میں اضافے کی وجہ پالیسی سازی میں ناکامی جبکہ سیاست کی بنیاد لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونا ہے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری میں مندی کے رجحان کی وجوہات پالیسی اور قواعد و ضوابط بھی ہیں جن میں امن و امان کا مسئلہ، سیاسی عدم استحکام، کرپشن، افسر شاہی کے تاخیری حربے اور ادارتی کوتاہی شامل ہیں جس کے لیے حکومت کے ساتھ بات چیت کی ضرورت ہے۔
اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کراچی میں کاروبار کے لیے کم از کم 19 دن درکار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیا کے مقابلے میں زیادہ ہے جہاں کاروبار کے لیے زیادہ سے زیادہ 15 دن ہوتے ہیں۔
پاکستان کے دیگر شہروں کے موازنے کے مطابق کراچی تجارت میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے جس کی وجہ یہاں بندرگاہ کی موجودگی کو قرار دیا گیا ہے۔
اس جائزے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ پر کنٹینر کا قیام سات روز ہوتا ہے جو ترقی پذیر ممالک اور مشرقی ایشیا کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، اسی طرح یہاں ٹیکس 27000 امریکی ڈالر ہے جو دبئی اور سنگارپور کی بندرگاہوں کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔
کاروباری سرگرمیوں اور معاشی ترقی کی راہ میں مہنگی زمین اور اس تک رسائی بھی رکاوٹ قرار دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ متعدد وفاقی اور صوبائی ادارے زمین کے معاملات کے نگران ہیں، یہاں صرف ڈیڑھ فیصد زمین کمرشل سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
زمین کے غیر واضح حقوق، عدم شفافیت اور زمین کی رجسٹریشن میں ایک ہی اتھارٹی کا فقدان کمرشل سرگرمیاں بھی رکاوٹ بن رہی ہیں۔
اس رپورٹ میں زمین، ماحول، پانی کی فراہمی و نکاسی، سالڈ ویسٹ اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے اور ان میں بہتری کے لیے آئندہ دس برسوں میں نو سے دس ارب ڈالرز کے سرمائے کی ضرورت ہے۔
عالمی بینک کے مطابق کراچی میں سنہ 2005 کے مقابلے میں سنہ 2015 میں غربت میں کمی آئی ہے، غربت کی موجودہ شرح نو فیصد جبکہ سنہ 2004 میں یہ شرح 23 فیصد تھی۔
کراچی کو چھ اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے جہاں طرز رہائش اور سہولیات تک رسائی میں واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے۔
ملیر اور غربی اضلاع میں آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے جہاں بڑے پیمانے پر رہائشی منصوبے بن رہے ہیں جبکہ غریب آبادیاں مزید گنجان ہو رہی ہیں۔
No comments:
Post a Comment