Wednesday, 22 March 2017

FIVE MEGA ISSUES OF PAKISTAN AIR ALINE (PIA)


http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39352832


پی آئی اے کے پانچ بڑے مسائل


پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کارپوریشن لیمیٹڈ کے معاملات ان دنوں بہت سارے فورمز پر موضوعِ بحث ہیں مگر گذشتہ دنوں سینیٹ کی پی آئی اے پر قائم کی گئی خصوصی ذیلی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔
اس رپورٹ میں کیمیٹی کے اراکین نے پی آئی اے مسائل کا ایک جائزہ پیش کیا اور اس کے حل کے لیے اقدامات بھی تجویز کیے۔
سینیٹ کی اس خصوصی ذیلی کمیٹی کے کنوینر سینیٹر سید مظفر حسین شاہ تھے جبکہ اس کے اراکین میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر، مسلم لیگ نواز کے سینیٹر ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم شامل تھے۔
اس ذیلی کمیٹی نے پی آئی اے کی انتظامیہ سے دو دن تک معاملات پر بریفنگ لی، پی آئی اے کے مختلف شعبوں کا دورہ کیا، اور کمپنی کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹرز اور چیئرمین سے بھی بات کی۔ اس کے علاوہ کمیٹی نے سول ایوی ایشن کے سابق ڈائریکٹرز اور سیکرٹری ایوی ایشن سے بھی بات کی۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں پی آئی اے میں اس وقت پائی جانے والی بڑی خرابیوں کا ذکر کیا جن میں سے پانچ نمایاں خرابیاں درج ذیل ہیں۔
1: سیاسی مداخلت اور سیاست دانوں کی ناکامی
ماضی کی حکومتوں نے اس کمپنی پر درکار توجہ نہیں دی اور اس کی انتظامیہ میں سیاسی بنیادوں پر تیزی سے تبدیلیاں کی گئیں۔ من پسند افراد کو بھرتی کیا گیا جن میں نہ تو کوئی سٹریٹیجک سوچ تھی اور نہ ہی ایسی صلاحیت کہ وہ منافع بخش منصوبہ بنا سکیں۔
تباہی کی ایک اہم وجہ ادارے کو سیاست کی نذر کرنا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں غیر مناسب افراد کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا۔ یہ سب اب تک پی آئی اے پر ایک بہت بڑا بوجھ بن چکے ہیں۔
2: اعتماد اور لیڈرشپ کا بحران
پی آئی اے قیادت اور اعتماد کے بحران سے دوچار ہے۔ آج بھی پی آئی اے کا مستقل سی ای او یا سربراہ نہیں ہے اور قائم مقام سی ای او دراصل چیف آپریٹنگ آفسر ہیں۔ موجودہ قائم مقام سی ای او نے نے حکومت اور بورڈ کی جانب سے انتظامی اور آپریشنل معاملات میں ناجائز مداخلت کا شکوہ کیا جو کام صرف سی ای او اور مینیجنگ ڈائریکٹر کا ہونا چاہیے۔
3: عہدوں کے لیے غیر موزوں ڈائریکٹرز
کمیٹی کا کہنا ہے کہ عہدوں پر فائض کچھ ڈائریکٹر ان عہدوں کے لیے غیر موزوں ہیں۔ کمیٹی نے یہ بات لکھی ہے کہ تین ایسے ڈائریکٹرز ہیں جو تین لاکھ سے زیادہ ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں اور اب تک انہیں کوئی کام نہیں سونپا گیا اور وہ بغیر کام کیے ایک سال سے تنخواہ لے رہے ہیں۔
4: یونینز اور ایسوسی ایشنز کی سیاسی پشت پناہی
کمیٹی نے لکھا ہے کہ بدقسمتی سے یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان کی تمام سٹیٹ اونڈ ایٹرپرائزز میں ہر یونین کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ یونینز اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے اپنے استعداد کا غلط استمعال کرتی ہیں اور انتظامیہ کو بلیک میل کرتی ہیں اور تبادلوں اور تقرریوں میں اپنی من مرضی ٹھونستی ہیں۔ حتیٰ کہ آپریشنل تعیناتیوں میں بھی انتظامیہ پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ کمیٹی کو پتا چلا کہ سی بی اے کے علاوہ سات دوسری ایسوسی ایشنز ہیں جو پی آئی اے کے آپریشنز کو غیر قانونی طور پر مفلوج کرنے میں ماضی میں بھی ملوث رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ یہاں تک کے وہ اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کس روٹ پر کون سا عملہ جائے گا جو کہ ایک انتظامی معاملہ ہے۔
5: کرپشن
طیاروں کے فاضل پرزوں کی خریداری سے لے کر فریٹ یعنی سامان لے جانے کے لیے جگہ کی الاٹمنٹ، بھرتیوں اور تبادلوں اور انجنیئرنگ اور کیٹرنگ شعبوں میں کرپشن بھرپور ہے۔ عہدوں کی تنخواہ ان کے کام کے مقابلے میں بعض جگہوں پر غیر متوازن ہے۔

آج بھی پی آئی اے کا مستقل سی ای او یا سربراہ نہیں ہے اور قائم مقام سی ای او دراصل چیف آپریٹنگ آفسر ہیں۔
کمیٹی کی سفارشات
پی آئی اے کے بورڈ کو فی الفور تحلیل کر دیا جائے اور نئے بورڈ میں ہوابازی اور متعلقہ شعبوں کے ماہرین کو تعینات کیا جائے۔ بورڈ اپنا چیئرمین خود منتخب کرے۔ بورڈ صرف وسیع پالیسی معاملات، نئے منصوبوں پر غور کرے اور تمام انتظامی اور آپریشنل معاملات کو انتظامیہ کے سپرد کر دے۔ سی ای او کو اپنی ماہرین کی ٹیم تعینات کرنے کا پورا اختیار دیا جائے۔ تنخواہوں اور مراعات کو معقول بنایا جائے اورحکومت فوری طور پر چیف آپریٹنگ آفیسر تعینات کرے۔
بورڈ اور سی ای او سیاسی مداخلت کو کبھی خاطر میں نہ لائیں اور بھرتی اور برخاست کرنے کا اختیار سی ای او کو دیا جائے جو وہ میرٹ اور کارکردگی کی بنیاد پر کرے۔
سی بی اے اپنی سرگرمیوں کو گریڈ ایک سے چار کے عملے کی فلاح و بہبود تک محدود رکھے اور ایسی ایسوسی ایشنز جنھوں نے غیر قانونی طور پر سی بی اے کا کردار اپنا لیا ہے کو ان کے مقام پر رکھا جائے اور انتظامیہ کو بلیک میل کرنے کی بالکل اجازت نہ دی جائے۔


No comments:

Post a Comment