Sunday, 30 December 2018

PAK AFGHAN SECURITY CHECKPOST IS STATE OF THE ART THAN MEXICO US BORDER


ACTION RESEARCH FORUM: SECURITY CHECK POSTS  VS MEXICO AND US SECURITY IN DURABILITY EFFECTIVENESS AND EVER LASTING. THE PRECEDENCE IS SET LIKE GREAT WALL OF CHINA, TO PROTECT FOR SECURITY GAPS OF DEVELOPED AND UNDERDEVELOPED NATIONS. 

THE PROTECTIONS IS NOT A NATURAL COURSE OF HAVE AND HAVENOT. 

Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46715696

پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑیں اور چوکیاں

پاکستان افغانستان سرحدتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionباڑ پاکستان کی جانب سے 11 فٹ اور افغانستان کی طرف سے 13 فٹ بلند ہے
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل سرحد کے ساتھ ساتھ 233 سرحدی چوکیوں کی تعمیر کا کام مکمل کر لیا ہے جبکہ 144 مزید چوکیوں کی تعمیر پر کام ہو رہا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق ان چوکیوں کی تعمیر کے علاوہ پاکستان افغانستان کی سرحد کے تقریباً پانچ سو کلومیٹر سے زیادہ طویل حصے پر باڑ لگانے کا کام بھی مکمل کر چکا ہے۔
اے پی پی کے مطابق صحافیوں کے ایک وفد نے جمعے کو طورخم کی سرحد کا دورہ کیا جہاں انھیں سکیورٹی فورسز کی طرف سے شدت پسندوں اور دہشت پسند عناضر کی بیخ کنی کرنے کی مہم کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد جسے ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے، اس لحاظ سے متنازع ہے کہ افغانستان کی طرف سے تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لیا جاتا رہا ہے۔
پاکستان افغانستان سرحدتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionپر روز بارہ سو ٹرک سرحد عبور کرتے ہیں
پاکستان کے سکیورٹی اداروں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والی شدت پسند کارروائیاں اکثر سرحد پار سے کی جاتی ہیں اور ان کو روکنے کے لیے اس سرحد پر کڑئی نگرانی کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان کی سرحد پاکستان میں منشیات اور دیگر اشیا کی سمگلنگ کا بھی بڑا راستہ ہے۔
پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا سے متصل افغانستان کی سرحد تقریباً 1403 کلو میٹر طویل ہے اور انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقوں سے گزرتی ہے۔
پاکستان افغانستان سرحدتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionطورخم کا شمار دنیا کی مصروف ترین سرحدوں میں ہونے لگا ہے
ان علاقوں میں باڑ لگانے کے کام کو ناممکن تصور کیا جا رہا تھا۔ اس انتہائی دشوار گزار علاقے میں باڑ لگانے کا کام فروری سنہ 2017 میں شروع کیا گیا تھا۔
اے پی پی نے ایک سرکاری اہلکار کے حوالے سے کہا ہے کہ باڑ لگانے کے منصوبے کے پہلے مرحلے میں اس سال دسمبر تک 539 کلو میٹر تک باڑ لگانی تھی جس کو وقت پر مکمل کر لیا گیا ہے۔
اس منصوبے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے میں اگلے دو برس میں بالترتیب 349 اور 459 کلو میٹر حصے پر باڑ لگائی جائے گی۔
پاکستان افغانستان سرحدتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionاس دشوا گزار پہاڑی علاقے میں باڑ لگانے انتہائی مشکل تصور کیا جا رہا تھا
حکام کے مطابق طورخم کے راستے سرحد کے آر پار غیر قانونی نقل و حرکت کو ناممکن بنا دیا گیا ہے اور صرف قانونی سفری دستاویزات کے حامل افراد ہی سرحد کے آر پار آ جا سکتے ہیں۔
سرحد پر لگائی جانے والی خار دار تاروں سے بنائی گئی باڑ پاکستان کی جانب سے 11 فٹ بلند ہے جبکہ افغانستان کی جانب سے اس کی اونچائی 13 فٹ ہے۔ ان دونوں باڑوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ ہے جس میں خار دار تاروں کا جال ڈال دیا گیا ہے۔
پاکستان افغانستان سرحدتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionاسی راستے سے وسطی ایشیا کی ریاستوں تک رسائی ممکن ہے
اس سرحد کی مستقل نگرانی کے لیے سرحد کے ساتھ ساتھ چوکیوں کی تعمیر کے علاوہ جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ ان میں نگرانی کا الیکٹرانک نظام، کلوز سرکٹ کیمرے اور ڈرونز کیمروں کی مدد بھی لی جاتی ہے۔
پاک افغان سرحدتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionسرحد کے پار سے دہشت گردوں کے حملوں کا خطرہ رہتا ہے
حکام کے مطابق سرحد پر باڑ لگانے کے کام کے آغاز سے اب تک 1900 افغان شہریوں کو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے واپس سرحد پار بھیجا جا چکا ہے جبکہ چھ سو پاکستانیوں کو غیر قانونی طور سرحد پار جانے سے روکا گیا ہے۔
باڑ کا کام مکمل ہونے کے بعد حکام کے مطابق قانونی طور پر سرحد پار آمد و رفت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں اعداد د شمار دیتے ہوئے سیکورٹی حکام کا کہنا تھا کہ روزانہ تقریباً 12000 سرحد کے آر پار جاتے ہیں جبکہ 1200 ٹرک بھی تجارتی مال لے کر افغانستان جاتے یا آتے ہیں۔

متعلقہ عنوانات

اسی بارے میں