Monday 3 December 2018

BURRIED HISTORY OF ERA OF LORD MOOSA- UNEARTHED WITH ANCESTRY WITNESS


Source: https://www.bbc.com/urdu/resources/idt-sh/isis_tunnels_urdu

دولتِ اسلامیہ کی سرنگوں میں

شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے ہاتھوں تباہ ہونے والے ایک تاریخی مقبرے کے نیچے سے کیسے ایک تین ہزار سال پرانا محل دریافت ہوا

پہاڑی پر مسجد

شمالی عراق کے شہر موصل کی ایک پہاڑی کو نبی حضرت یونس کی پہاڑی کہا جاتا ہے۔
یہ جگہ صدیوں سے عبادت کا مقام رہی ہے۔ ابتدائی مسیحی دور میں یہاں ایک خانقاہ قائم ہوئی اور پھر 600 بعد اسے حضرت یونس کے مقبرے میں تبدیل کر دیا گیا۔
رابرٹ براؤن کی کنٹریز آف دی ورلڈ (1876) میں موجود تصویر کا عکس

رابرٹ براؤن کی کنٹریز آف دی ورلڈ (1876) میں موجود تصویر کا عکس
جولائی 2014 میں اس مقبرے کو شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے دھماکے سے اڑا دیا۔
شدت پسندوں کا دعویٰ تھا کہ حضرت یونس کا یہ مقبرہ عبادت گاہ نہیں بلکہ مشرکین کا اڈہ بن گیا تھا۔
اس مقبرے کی تباہی کی فوٹیج دنیا بھر میں دکھائی گئی۔ پیغام واضح تھا: کوئی بھی مقدس مقام دولت اسلامیہ کی شدت پسندی سے محفوظ نہیں ہے۔
لیکن حضرت یونس کے مقبرے کی تباہی سے اس تاریخی پہاڑی کی کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ اسے ایک نیا رخ مل گیا۔ تباہی کے بعد یہ سوالات پیدا ہوئے کہ اس کی بنیادوں کی نیچے کیا دفن ہے۔
سنہ 2018 کے موسم بہار میں بی بی سی عربی کی ایک ٹیم ان گردآلود مگر شاندار سرنگوں میں گئی جو اس پہاڑی میں دریافت ہوئی تھیں۔
اس ٹیم نے فوٹوگرامیٹری تکنیک کی مدد سے وہاں موجود اشیا کی ہائی ریزولوشن تصاویر اتاریں اور جاننے کی کوشش کی کہ اس تباہی کے نتیجے میں سامنے آنے والے آثار کی حقیقت کیا ہے۔

حضرت یونس

حضرت یونس کا نام قرآن اور عبرانی انجیل دونوں میں ملتا ہے۔ ان دونوں الہامی کتابوں کے مطابق حضرت یونس نے نینوا کا سفر کیا جو کہ اشوریہ سلطنت کا دارالحکومت تھا۔
حضرت یونس کے اس سفر کا مقصد نینوا کے شہریوں کو خبردار کرنا تھا کہ اگر انھوں نے گناہوں سے توبہ نہ کی تو وہ تباہ ہو جائیں گے۔
بہت سے مسلمانوں کو یقین ہے کہ حضرت یونس کی ہڈیاں اس مقام پر رکھی گئی تھیں اور بعد میں اس پر مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں پر اس وہیل مچھلی کا دانت بھی ہے جس کے پیٹ میں روایت کے مطابق حضرت یونس تین دن تک رہے تھے۔
گستاو دورے کی تصویری بائبل (1886) سے لی گئی تصویر

گستاو دورے کی تصویری بائبل (1886) سے لی گئی تصویر
موصل یونیورسٹی کے آسیرین سٹڈیز کے ڈائریکٹر علی الجبوری کا کہنا ہے
کہ ’حضرت یونس کا مقبرہ ہمیشہ سے ہمارے اہم ترین مذہبی اور ثقافتی مقامات میں شامل رہا ہے‘۔
ان کے مطابق ’جب لوگ اس پہاڑی پر جاتے تھے تو وہ جدید اور قدیم موصل کے بہترین حصوں کو دیکھ پاتے تھے‘۔

تباہی

چوبیس جولائی 2014 کو دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں نے مسجد کی اندرونی اور بیرونی دیواروں کے ساتھ دھماکہ خیز مواد نصب کیا۔ شدت پسندوں نے نمازیوں سے کہا کہ وہ مسجد سے چلے جائیں اور مقامی آبادی سے کہا گیا کہ وہ عمارت سے کم از کم پانچ سو میٹر دور کھڑے ہوں۔
بٹن دباتے ہی چند لمحوں میں حضرت یونس کا مقبرہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں نے مسیحیوں کو شہر بدر کر دیا۔ اس کوشش کا مقصد اس کی تاریخ میں پہلی بار صرف ایک مذہب کا شہر بنانے کی تھی۔
جولائی 2014 میں حضرت یونس کے مقبرے کی تباہی کی ویڈیو
جولائی 2014 میں حضرت یونس کے مقبرے کی تباہی کی ویڈیو
مقبرے کی تباہی موصل میں مذہبی مقامات اور آثار کی تباہی کی مہم کا حصہ تھی۔
دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں نے نینوا شہر کے داخلی دروازے پر موجود لاماسو کے قدیمی مجسمے کو بھی مسخ کر ڈالا۔ یہ مجسمہ قدیم اشوریہ محلات کے باہر بطور محافظ کھڑا ہوتا تھا اور اس کے بعد شدت پسندوں نے اس پورے دروازے کو ہی تباہ کر دیا۔
انھوں نے اس مجسمے کے مسکراتے ہوئے چہرے میں سوراخ کرنے کے لیے مشینی ہتھوڑا استعمال کیا۔
دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کے ہاتھوں شمالی عراق میں لاماسو کی تباہی کی ویڈیو
دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کے ہاتھوں شمالی عراق میں لاماسو کی تباہی کی ویڈیو
دولت اسلامیہ نے حضرت یونس کے مقبرے کی تباہی کی توجیہ پیش کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ تنظیم کے ایک شدت پسند نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ مسیحیوں کے راہب کی قبر تھی اور ایک جعلی مقبرے پر مسجد بنانا منع ہے‘۔
تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت یونس واقعی وہاں پر دفن نہیں تھے۔ درحقیقت حضرت یونس کی قبریں دنیا بھر میں مختلف مقامات پر بتائی جاتی ہیں۔
اوکلاہوما سٹیٹ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور پندرہویں صدی کے عراق میں عیسائیت کی نامی کتاب کے مصنف ڈاکٹر ٹامس کارلسن کا کہنا ہے کہ ’ازمنہ وسطی میں جب طویل فاصلے تک رابطے ممکن نہیں تھے تو بہت سے مشہور لوگوں کی قبریں مختلف مقامات پر بنا لی گئیں‘۔
درحقیقت وہ ہڈیاں جنھیں حضرت یونس کی ہڈیاں کہا جاتا ہے ممکنہ طور پر ایک مسیحی پادری حنانی شو اول کی تھیں جن کا تعلق چرچ آف ایسٹ سے تھا۔ انھیں اس خانقاہ میں 701 میں دفن کیا گیا تھا۔
ماہرین آثار قدیمہ یہ نہیں جانتے کہ دھماکے سے ان کی ہڈیاں بچی کہ نہیں تاہم انہیں ایسے نوادرات ملے ہیں جو انسانی آنکھوں سے صدیوں تک اوجھل رہے۔.

مدفن محل

حضرت یونس کے مقبرے کے نیچے ایک محل بھی دفن ہے جو کہ نہ صرف اشوریہ بادشاہوں کی رہائش گاہ تھا بلکہ فوج کا کیمپ بھی تھا۔ یہ محل ساتویں صدی قبل مسیح کا ہے۔
اس بات کا ثبوت کہ حضرت یونس کے مقبرے کی نیچے کوئی محل دفن ہو سکتا ہے 1850 میں کھدائیوں کے دوران دو ماہرین آثار قدیمہ آسٹن ہنری لایارڈ اور ان موصل میں پیدا ہونے والے ساتھی ہرمزد رسام نے تلاش کیا تھا۔
آسٹن ہنری لایارڈ 1851
آسٹن ہنری لایارڈ 1851
دریا کے دوسری جانب کویونجک میں ایک محل کے کھنڈرات ڈھونڈنے کے بعد لایارڈ اور سایام نے اپنی توجہ نبی یونس کے مقبرے پر مرکوز کی۔
تاہم اس مقام کے تقدس نے انھیں مزید کھدائی سے روک دیا۔ لایارڈ نے لکھا کہ موصل کے لوگوں کے تعصب کی وجہ سے اس مقام کو مزید جاننے کی کوشش ناکام رہی۔
سنہ 1989 اور 1990 کے دوران عراقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی کھدائی بھی اس پہاڑی ٹیلے کے زیادہ قریب نہیں گئی کیونکہ خطرہ تھا کہ اس سے مسجد کی بنیادوں کو نقصان پہنچے گا۔ 1850 کی طرح اس مرتبہ پھر امام نے متنبہ کیا کہ مقبرے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تاہم جب جنوری 2017 میں موصل دولت اسلامیہ کے چنگل سے آزاد ہوا تو ماہرین آثارِ قدیمہ کو مسجد کے ملبے کے نیچے سے کچھ شاندار چیزیں ملیں۔ وہاں ان سے کہیں زیادہ سرنگیں موجود تھیں جن کا ریکارڈ رکھا گیا تھا۔
درحقیقت وہاں 50 سے زیادہ نئی سرنگیں تھیں۔ ان میں سے کچھ چند میٹر لمبی تھی تو کچھ 20 میٹر تک طویل تھیں۔
ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر پیٹر میکلر جنھوں نے ان سرنگوں پر ابتدائی تحقیق کی انھیں مسجد کی نیچے کی زمین میں اتنے سوراخ ملے کہ انھوں نے اسے سوئس پنیر سے تشبیہ دی تھی۔
ان میں سے زیادہ تر سرنگیں کدالوں کی مدد سے کھودی گئیں لیکن اس بات کی نشانیاں بھی ملیں کہ کہیں کوئی مشین بھی استعمال ہوئی۔ سب سے بڑی سرنگ ساڑھے تین میٹر اونچی اور سب سے چھوٹی ایک میٹر سے بھی کم اونچی تھی۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ سرنگیں شدت پسندوں نے خود کھودی تھیں تاہم مشرقی موصل کے رہائشیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ دولت اسلامیہ نے مقامی آبادی کو یہ سرنگیں کھودنے پر لگایا تھا۔ وہ یہاں موجود اشوریہ آثار قدیمہ کو لوٹنا چاہتے تھے۔ آثارِ قدیمہ کی غیرقانونی فروخت دولت اسلامیہ جیسی شدت پسند تنظیم کی آمدن کا دوسرا بڑا ذریعہ تصور کی جاتی ہے۔
لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر لمیا ال گیلانی کا کہنا ہے کہ ’یہ موصل میوزیم جیسی صورتحال ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے حضرت یونس کے مقبرے سے نیچے سے وہ سب کچھ چرا لیا جو وہ بیچنا چاہتے تھے‘۔
مقبرے کے نیچے موجود پہاڑی میں موجود سامان کو انتہائی مہارت سے لوٹا گیا۔ اس بات کا خیال رکھا گیا ہے جو دریافتیں ہیں وہ خراب نہ ہوں لیکن کچھ ایسی چیزیں تھیں جو بظاہر اتنی پڑی تھی کہ شدت پسند انھیں لے جانے میں ناکام رہے۔
یہ بڑی چیزیں جن میں سے کچھ محل کی دیواروں پر کندہ ہیں نکالی نہیں جا سکیں کیونکہ انھیں بظاہر پہاڑی کے نیچے کھودی گئی سرنگوں کو نقصان پہنچائے بغیر نکالا نہیں جا سکتا تھا۔

تین خواتین

جب بی بی سی کے صحافیوں کو مارچ 2018 میں نبی یونس کے نیچے موجود سرنگوں میں اتارا گیا تو ماہرین نے جو چیزیں دریافت کی تھیں ان میں سے کئی وہیں موجود تھیں۔
چونے کے پتھروں کے ٹکڑوں اور چھوٹے مرتبانوں کے علاوہ چونے کے پتھر کی تقریباً 30 سلیں تھیں جن پر اسوری بادشاہوں اسوراہادین اور اسوربنیپال کے نام کندہ تھے۔ اس کے علاوہ ایسی اینٹیں بھی تھیں جن پر ایک بادشاہ ثناشریب کا نام بھی لکھا ہوا تھا۔
لیکن سب سے حیران کن دریافت پتھر میں بنے وہ مجسمے تھے جن میں خواتین کی ایک قطار دکھائی گئی تھی۔
یہ ایک ایسی دریافت تھی جس نے جوابات سے زیادہ سوالات کو جنم دیا۔
ڈاکٹر پال کولنز کا کہنا ہے کہ یہ ایسی دریافت ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔
ان کے مطابق ’پتھر میں تراشے گئے یہ مجسمے ایسے ہیں کہ ان جیسا کہیں اور کوئی موجود نہیں‘۔
اسوری محلوں سے اب تک ملنے والی تصاویر مردانہ رہی ہیں۔ جس کی مثالوں میں بادشاہ کے شیر کی شکار کی تصویر یا شکار کے بعد فوج کی محل واپسی کی تصاویر شامل ہیں۔
اتنے بڑے پیمانے پر خواتین کی تصاویر ملنا بہت غیرمعمولی ہے۔ اگر خواتین دکھائی بھی جاتی تھیں تو وہ قیدی ہوتی تھیں اور وہ تصاویر بھی بہت چھوٹی ہوتی تھیں۔
ڈاکٹر کولنز کا کہنا ہے کہ ’مہروں اور دھاتی کام کے علاوہ ہمیں اسوری دور کی تصاویر شاہی محلوں سے باہر دکھائی نہیں دیتیں اور جو ہیں بھی ان کی توجہ کا مرکز عسکری فتوحات ہیں‘۔
انھوں نے کہا کہ ’ان کی مذہبی دنیا کے بارے میں تصاویر اگر یہاں ان کا یہی مطلب ہے تو وہ ان کے خداؤں کو بادشاہ کے تعلق سے دکھاتی ہیں جو کہ نادر ہے‘۔
اسوری فن کے ماہرین کو جس بات نے چکرایا وہ یہ تھی کہ ان مجسموں میں خواتین کے چہرے نمایاں ہیں۔
نیویارک کی سینٹ جان یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ایمی گینسل کا کہنا ہے کہ ’انھیں تلاش کیا جانا ہی بہت شاندار ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسی کوئی چیز دیکھی ہے‘۔
اگرچہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جیسے ڈیزائن کے دہرائے جانے سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہ خواتین دیویاں ہیں ڈاکٹر گینسل اس خیال سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سینگوں یا مخصوص تاج کی عدم موجودگی جو کہ اسوری فن میں دیویوں کی نشانیاں ہیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ مجسمے عام اسوری خواتین کے ہیں۔
ڈاکٹر گینسل کا خیال ہے کہ یہ خواتین ممکنہ طور پر شاہی خاندان یا امیر طبقے سے تعلق رکھتی ہوں گی جنھیں کسی تقریب میں دیوتا کے سامنے بھینٹ لے جاتے دکھایا گیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’یہ کہیں زیادہ دلچسپ ہے۔ ان کے مجسموں کی یہاں موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ نبی یونس خواتین کی عبادت گاہ تھی۔ یہ اسوری تہذیب اور مذہب میں خواتین کے کردار کے بارے میں نئے ثبوت فراہم کرتا ہے۔ یہ بالکل نادرہے‘۔
ابھی تک اس بارے میں کوئی عالمانہ تحقیق نہیں کی گئی کہ ان مجسموں کا مطلب کیا ہے۔ ابھی ان سرنگوں سے ملنے والے آثار سے ٹھوس نتائج اخذ کرنا قبل از وقت ہو گا۔ کچھ مجسمے ان سرنگوں میں سر کے بل بھی ملے ہیں جن سے لگتا ہے کہ وہ یہاں کہیں اور سے لائے گئے ہیں۔

لاماسو

خواتین کے پتھر میں تراشیدہ مجسموں کے علاوہ ایک اساطیری مخلوق لاماسو کی تصویر بھی ان سرنگوں میں ملی۔ پتھریلی دیواروں میں تراشے گئے لاماسو کے چار مجسمے دریافت ہوئے جبکہ پانچویں کی باقیات ملیں۔
چونے کے پتھر سے لاماسو کے دیوقامت مجسمے اسوری محلات کے دروازوں پر بنائے جاتے تھے جن کا مقصد دشمنوں کو خوفزدہ کرنا اور بدروحوں کو بھگانا ہوتا تھا۔
اکادیان زبان میں لاماسو کا مطلب حفاظت کرنے والی روح ہے۔ اس مخلوق کا جسم بیل کا، پر عقاب کے اور سر انسان کا تھا۔ یہ جوڑی میں اس راستے پر نظر گاڑے کھڑے رہتے تھے جس جانب سے لوگ شہر کی طرف آتے تھے۔
Illustration of a lamassu (circa 1850)
Illustration of a lamassu (circa 1850)
نبی یونس کے نیچے لاماسو کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ وہاں ایسی چیزیں یا مقامات تھے جنھیں بدروحوں یا دشمنوں سے بچانے کی ضرورت تھی۔ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہ کھنڈرات کبھی شاہی محل یا کوئی عبادت گاہ ہوا کرتے تھے۔
فروری 2015 میں دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کے ہاتھوں لاماسو کی تباہی کو کسی حد تک قدیم نینوا کی تباہی سے متماثل قرار دیا جا سکتا ہے جب دشمن افواج نے اس شہر کو تاراج کر دیا تھا اور شہر سے بادشاہ کی ہر شبیہ اس لیے مٹا دی تھی کہ تاریخ میں اس کا نشان ہی باقی نہ رہے۔
لیکن عوامی سطح پر لاماسو کی شکل خراب کرنے کے باوجود دولتِ اسلامیہ اپنے مقصد میں ناکام رہی۔
کچھ ہی دور نبی یونس میں حضرت یونس کے مقبرے کے ملبے تلے لاماسو کے پتھریلے مجسمے ان چھوئے موجود ہیں اور ان میں سے کچھ کو تو انسانی آنکھ نے ہزاروں برس سے نہیں دیکھا۔
یہ حالیہ دریافتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ نبی یونس کو تباہ کرنے کی کوششوں کے باوجود اس کی کہانی کس طرح پرت در پرت کھلتی جا رہی ہے۔

No comments:

Post a Comment