Wednesday, 19 December 2018

MEXICO: MOTHERS OF 37000 DEAD BODIES ARE SCANNING / SEARCHING ALL OVER MAXICO


ACTION RESEARCH FORUM, 37000 DEAD BODIES LOST AND BURIED MOTHERS ARE SEARCHING FARMS WITH ORDINARY TOOLS COLLECTIVELY, WHAT A CRIMINALITY BEATING  BARBARIANISM, UNBELIEVABLE. WHY AND WHEN. SHAMEFUL.

Source: https://www.bbc.com/urdu/world-46601966

میکسیکو میں لاپتہ افراد کی لاشیں ڈھونڈتی مائیں


A family holds signs of a missing loved one during a march in el Fuerte, Sinaloaتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق میکسکو میں 2006 سے اب تک تقریباً 37000 افراد لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کئی کی گمشدگی کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں ہیں اور ان کے لواحقین یہ جاننے کو بےتاب ہیں کہ ان کے پیاروں کے ساتھ کیا ہوا؟
شمالی ریاست سنالوا میں ایک ماں سے تو بالکل مزید صبر نہ ہو سکا اور انھوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ جب بھی انھیں خفیہ قبروں کی کوئی اطلاع ملتی ہے وہ بیلچہ پکڑ کر خود کھدائی کرنے پہنچ جاتی ہیں۔
فوٹو جرنلسٹ آلیحانڈرو کاگارا نے اس خاتون اور اس کے ساتھ مل جانے والی 30 مزید خواتین کے سفر کو عکس بند کیا ہے۔

Mirna Medina smells an iron stick after piercing the ground with it, hoping she can detect the smell of decompositionتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

میرنا نریدا میدینا ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہیں۔ وہ اس گروپ ’سرچرز آف اِل فیورٹے‘ کی بانی ہیں۔ جولائی 2014 میں ان کا بیٹا روبرٹو شمالی میکسکو کے ایک گاؤں سے لاپتہ ہو گیا تھا۔
روبرٹو گاؤں کے ایک پٹرول پمپ پر سی ڈیز بیچتا تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ 14 جولائی 2014 کو ایک کالا پک اپ ٹرک آیا اور اس میں بیٹھے لوگوں نے روبرٹو کو گاڑی میں بیٹھایا۔ اس کے بعد وہ کبھی نہیں ملا۔

A member of the Searchers walks into some bushes to look for remainsتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

میرنا کا یہ کیس کوئی انوکھا نہیں۔ سنالوا میں تقریباً 2700 افراد لاپتہ رپورٹ کیے جا چکے ہیں اور یہ صرف وہ کیسز ہیں جو کہ پولیس کو بتائے جا چکے ہیں۔
لاپتہ افراد میں سے زیادہ تر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ ’سرچرز آف اِل فیورٹے‘ کی اراکین ان اعداد و شمار سے واقف ہیں مگر بہت سے کیسز میں وہ صرف یقین کے لیے یہ تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مریئم رائز سر پر ٹوپی پہننے سنالوا کے کڑکتے سورج کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ وہ اپنے سابق شوہر کو دھونڈ رہی ہیں جو کہ 2015 سے لاپتہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’میرے بیٹے کو باپ چاہیے یا کم از کم اس کی لاش جسے وہ دفنا سکے۔‘

Miriam Reyes is looking for her ex-husband, who has been missing since 2015تصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

ان کے اوزار سادہ ہیں۔ بیلچہ، کلہاڑی اور کبھی کبھی ایک ٹرک جو انھیں مبینہ اجتماعی قبروں پر لے جاتا ہے۔

Shovels used by the woman in their searchesتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

ان خواتین کو اطلاعات مقامی لوگ ہی دیتے ہیں۔ کسی کسان نے اگر کھیت کاشت کرتے ہوئے کوئی کھوپڑی دیکھ لی یا کسی نے مال ومویشی چراتے کوئی ہڈیاں دیکھ لیں۔

A cowboy helps to locate human remains during a searchتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

جب اس گروپ کو ایسی معلومات ملتی ہیں تو گرمی ہو یا سردی وہ اُس مقام کا رخ کر لیتی ہیں۔
یوہانا ایسکلانتے (مندرجہ ذیل تصویر میں بائیں کھڑی) سخت گرمی ایک مقامی پر تلاش کے لیے تیار ہیں۔ وہ اپنے 28 سالہ بیٹے ایڈریئن کو ڈھونڈ رہی ہیں جو کہ ان کے خیال میں اغوا کیا گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں ’پانچ منٹ میں انھوں نے میری زندگی تباہ کر دی۔ انھیں معلوم نہیں کہ ماؤں کے ساتھ وہ کیا کر جاتے ہیں۔‘

Juana Escalante, left, gets ready for a search near a farm where a horseman reported the smell of decompositionتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

سنالوا ریاست منشیات کے گینگز کے حوالے سے مشہور ہے اور یہاں لوگوں کی گمشدگی کوئی اتنی غیر معمولی بات نہیں۔
پیسے والے لوگوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا جاتا ہے۔ نوجوان مردوں کو کبھی کبھی زبردستی مجرمانہ گینگز میں شامل کیا جاتا ہے یا مخالف گینگ انھیں مار دیتا ہے جبکہ نوجوان لڑکیوں کو انسانی سمگلنگ کے لیے اغوا کیا جاتا ہے۔
زیادہ تر کیسز میں فیملی کو پتا ہی چلتا کہ ان کے پیارے کو کیا ہوا۔

An unidentified skull of a suspected murder victim, found by the Searchersتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

اس گروپ کا مقصد اسی چیز کو تبدیل کرنا ہے۔ انھیں پتا ہے کہ انھیں جو بھی خبر ملے گی اس کے انتہائی برے ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ مگر 2014 سے اب تک وہ 200 لاشیں ڈھونڈ چکے ہیں۔
جب انھیں کوئی لاش ملتی ہے تو وہ اسے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے بھیجتے ہیں۔ اگر یہ ڈی این اے ان کے ڈیٹا بیس میں موجود 700 لاپتہ افراد کے ساتھ میچ کر جائے تو وہ پھر خاندان والوں کو اطلاع کر دیتی ہیں۔
اب تک ان کو جتنی لاشیں ملی ہیں وہ ان میں سے آدھی کی شناخت کروا سکی ہیں۔
اس تصویر میں میرنا ایک ایسی ماں کو گلے لگائے ہوئے ہے جس نے چار ماہ پہلے اپنا بیٹا کھویا اور آج اس کی لاش مل گئی ہے۔

Mirna Nereyda hugs a mother who found the remains of her son four months after he went missingتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

لوئس الفریڈو شاویز 31 جنوری کو لاپتہ ہوئے تھے اور 30 مارچ کو ان کی لاش ملی۔ اس تصویر میں ان کی فیملی ان کی آخری رسومات انجام دے رہی ہے۔

Family and friends at the burial of Luis Alfredo Chávez in Los Mochisتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

لاشوں کی تلاش کا طریقہ کار قدرے بنیادی ہے۔ وہ بیلچوں سے کھودتی ہیں اور پھر لاشوں کے گلنے سڑنے کی بو سونگھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

A searcher smells a shovelتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

میرنا کو اپنا بیٹا ڈھونڈنے میں تین سال لگے تھے۔
14 جولائی 2017 کو یعنی پٹرول پمپ سے لاپتہ ہونے کے پورے تین سال بعد میرنا کو ایک خبر ملی اور وہ قریبی پہاڑی علاقے میں گئی جہاں ایک قبر میں انھیں ہڈیاں ملیں۔ بعد میں تصدیق ہوئی کہ یہ ان کا بیٹا ہے۔

Searchers rest in the shadow of a treeتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

کچھ خواتین اپنے بیٹوں یا شوہروں کی گمشدگی کے بارے میں اطلاع یا رپورٹ نہیں کرتیں۔
ایک ایسی ہی خاتون جس نے چھ سال تک رپورٹ نہیں درج کروائی، کہتی ہیں کہ ’میں نے رپورٹ اس لیے فائل نہیں کی کیونکہ میں اسے زندہ ڈھونڈ لینا چاہتی تھی۔‘

A woman (who asked to not be named) cries when she make the report of her missing sonتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

اس گروپ میں زیادہ تر مائیں ہیں مگر کچھ مرد بھی اس کا حصہ ہیں۔ ڈان پانچو گذشتہ چار سال سے اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہے ہیں۔

Don Pancho is seen looking through the notices of missing peopleتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

اور اس سے صرف والدین ہی متاثر نہیں۔ جانے والے پیچھے بچے بھی چھوڑ جاتے ہیں جن کو ساری عمر یہ نہیں پتا چلتا کہ ان کے والدین کے ساتھ کیا ہوا۔

Lucia Guadalupe brushes the hair of her granddaughterتصویر کے کاپی رائٹALEJANDRO CEGARRA

تمام تصاویر الیہاندرو کگیرا کی ہیں اور ان کے کے جملہ حقوق ان کے نام محفوظ ہیں

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment