ACTION RESEARCH FORUM, 37000 DEAD BODIES LOST AND BURIED MOTHERS ARE SEARCHING FARMS WITH ORDINARY TOOLS COLLECTIVELY, WHAT A CRIMINALITY BEATING BARBARIANISM, UNBELIEVABLE. WHY AND WHEN. SHAMEFUL.
Source: https://www.bbc.com/urdu/world-46601966
میکسیکو میں لاپتہ افراد کی لاشیں ڈھونڈتی مائیں
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق میکسکو میں 2006 سے اب تک تقریباً 37000 افراد لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کئی کی گمشدگی کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں ہیں اور ان کے لواحقین یہ جاننے کو بےتاب ہیں کہ ان کے پیاروں کے ساتھ کیا ہوا؟
شمالی ریاست سنالوا میں ایک ماں سے تو بالکل مزید صبر نہ ہو سکا اور انھوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ جب بھی انھیں خفیہ قبروں کی کوئی اطلاع ملتی ہے وہ بیلچہ پکڑ کر خود کھدائی کرنے پہنچ جاتی ہیں۔
فوٹو جرنلسٹ آلیحانڈرو کاگارا نے اس خاتون اور اس کے ساتھ مل جانے والی 30 مزید خواتین کے سفر کو عکس بند کیا ہے۔
میرنا نریدا میدینا ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہیں۔ وہ اس گروپ ’سرچرز آف اِل فیورٹے‘ کی بانی ہیں۔ جولائی 2014 میں ان کا بیٹا روبرٹو شمالی میکسکو کے ایک گاؤں سے لاپتہ ہو گیا تھا۔
روبرٹو گاؤں کے ایک پٹرول پمپ پر سی ڈیز بیچتا تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ 14 جولائی 2014 کو ایک کالا پک اپ ٹرک آیا اور اس میں بیٹھے لوگوں نے روبرٹو کو گاڑی میں بیٹھایا۔ اس کے بعد وہ کبھی نہیں ملا۔
میرنا کا یہ کیس کوئی انوکھا نہیں۔ سنالوا میں تقریباً 2700 افراد لاپتہ رپورٹ کیے جا چکے ہیں اور یہ صرف وہ کیسز ہیں جو کہ پولیس کو بتائے جا چکے ہیں۔
لاپتہ افراد میں سے زیادہ تر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ ’سرچرز آف اِل فیورٹے‘ کی اراکین ان اعداد و شمار سے واقف ہیں مگر بہت سے کیسز میں وہ صرف یقین کے لیے یہ تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مریئم رائز سر پر ٹوپی پہننے سنالوا کے کڑکتے سورج کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ وہ اپنے سابق شوہر کو دھونڈ رہی ہیں جو کہ 2015 سے لاپتہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’میرے بیٹے کو باپ چاہیے یا کم از کم اس کی لاش جسے وہ دفنا سکے۔‘
ان کے اوزار سادہ ہیں۔ بیلچہ، کلہاڑی اور کبھی کبھی ایک ٹرک جو انھیں مبینہ اجتماعی قبروں پر لے جاتا ہے۔
ان خواتین کو اطلاعات مقامی لوگ ہی دیتے ہیں۔ کسی کسان نے اگر کھیت کاشت کرتے ہوئے کوئی کھوپڑی دیکھ لی یا کسی نے مال ومویشی چراتے کوئی ہڈیاں دیکھ لیں۔
جب اس گروپ کو ایسی معلومات ملتی ہیں تو گرمی ہو یا سردی وہ اُس مقام کا رخ کر لیتی ہیں۔
یوہانا ایسکلانتے (مندرجہ ذیل تصویر میں بائیں کھڑی) سخت گرمی ایک مقامی پر تلاش کے لیے تیار ہیں۔ وہ اپنے 28 سالہ بیٹے ایڈریئن کو ڈھونڈ رہی ہیں جو کہ ان کے خیال میں اغوا کیا گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں ’پانچ منٹ میں انھوں نے میری زندگی تباہ کر دی۔ انھیں معلوم نہیں کہ ماؤں کے ساتھ وہ کیا کر جاتے ہیں۔‘
سنالوا ریاست منشیات کے گینگز کے حوالے سے مشہور ہے اور یہاں لوگوں کی گمشدگی کوئی اتنی غیر معمولی بات نہیں۔
پیسے والے لوگوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا جاتا ہے۔ نوجوان مردوں کو کبھی کبھی زبردستی مجرمانہ گینگز میں شامل کیا جاتا ہے یا مخالف گینگ انھیں مار دیتا ہے جبکہ نوجوان لڑکیوں کو انسانی سمگلنگ کے لیے اغوا کیا جاتا ہے۔
زیادہ تر کیسز میں فیملی کو پتا ہی چلتا کہ ان کے پیارے کو کیا ہوا۔
اس گروپ کا مقصد اسی چیز کو تبدیل کرنا ہے۔ انھیں پتا ہے کہ انھیں جو بھی خبر ملے گی اس کے انتہائی برے ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ مگر 2014 سے اب تک وہ 200 لاشیں ڈھونڈ چکے ہیں۔
جب انھیں کوئی لاش ملتی ہے تو وہ اسے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے بھیجتے ہیں۔ اگر یہ ڈی این اے ان کے ڈیٹا بیس میں موجود 700 لاپتہ افراد کے ساتھ میچ کر جائے تو وہ پھر خاندان والوں کو اطلاع کر دیتی ہیں۔
اب تک ان کو جتنی لاشیں ملی ہیں وہ ان میں سے آدھی کی شناخت کروا سکی ہیں۔
اس تصویر میں میرنا ایک ایسی ماں کو گلے لگائے ہوئے ہے جس نے چار ماہ پہلے اپنا بیٹا کھویا اور آج اس کی لاش مل گئی ہے۔
لوئس الفریڈو شاویز 31 جنوری کو لاپتہ ہوئے تھے اور 30 مارچ کو ان کی لاش ملی۔ اس تصویر میں ان کی فیملی ان کی آخری رسومات انجام دے رہی ہے۔
لاشوں کی تلاش کا طریقہ کار قدرے بنیادی ہے۔ وہ بیلچوں سے کھودتی ہیں اور پھر لاشوں کے گلنے سڑنے کی بو سونگھنے کی کوشش کرتی ہیں۔
میرنا کو اپنا بیٹا ڈھونڈنے میں تین سال لگے تھے۔
14 جولائی 2017 کو یعنی پٹرول پمپ سے لاپتہ ہونے کے پورے تین سال بعد میرنا کو ایک خبر ملی اور وہ قریبی پہاڑی علاقے میں گئی جہاں ایک قبر میں انھیں ہڈیاں ملیں۔ بعد میں تصدیق ہوئی کہ یہ ان کا بیٹا ہے۔
کچھ خواتین اپنے بیٹوں یا شوہروں کی گمشدگی کے بارے میں اطلاع یا رپورٹ نہیں کرتیں۔
ایک ایسی ہی خاتون جس نے چھ سال تک رپورٹ نہیں درج کروائی، کہتی ہیں کہ ’میں نے رپورٹ اس لیے فائل نہیں کی کیونکہ میں اسے زندہ ڈھونڈ لینا چاہتی تھی۔‘
اس گروپ میں زیادہ تر مائیں ہیں مگر کچھ مرد بھی اس کا حصہ ہیں۔ ڈان پانچو گذشتہ چار سال سے اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہے ہیں۔
اور اس سے صرف والدین ہی متاثر نہیں۔ جانے والے پیچھے بچے بھی چھوڑ جاتے ہیں جن کو ساری عمر یہ نہیں پتا چلتا کہ ان کے والدین کے ساتھ کیا ہوا۔
تمام تصاویر الیہاندرو کگیرا کی ہیں اور ان کے کے جملہ حقوق ان کے نام محفوظ ہیں
No comments:
Post a Comment