ACTION RESEARCH FORUM BY ANOYMOUS COMBATANT OF KNOWLEDGE
A CONCEPT BUILDS UP IN MIND ON STREET IN COMMON SENSE, MAY BE MODE AND ROLES OF PARTICIPANTS DIRECT OR INDIRECT, IN ANY FORM WHAT SO EVER, INDEED.
The term second generation warfare was created by the U.S. military in 1989. Third-generation warfarefocuses on using Late modern technology-derived tactics of leveraging speed, stealth and surprise to bypass the enemy's lines and collapse their forces from the rear.
Fourth-generation warfare is conflict characterized by a blurring of the lines between war and politics, combatants and civilians. The term was first used in 1989 by a team of United States analysts, including paleoconservative William S. Lind, to describe warfare's return to a decentralized form. Wikipedia
Fourth-generation warfare is conflict characterized by a blurring of the lines between war and politics, combatants and civilians. The term was first used in 1989 by a team of United States analysts, including paleoconservative William S. Lind, to describe warfare's return to a decentralized form. Wikipedia
Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46456252
A CONCEPT BUILDS UP IN MIND ON STREET IN COMMON SENSE, MAY BE MODE AND ROLES OF PARTICIPANTS DIRECT OR INDIRECT, IN ANY FORM WHAT SO EVER, INDEED.
The term second generation warfare was created by the U.S. military in 1989. Third-generation warfarefocuses on using Late modern technology-derived tactics of leveraging speed, stealth and surprise to bypass the enemy's lines and collapse their forces from the rear.
Fourth-generation warfare is conflict characterized by a blurring of the lines between war and politics, combatants and civilians. The term was first used in 1989 by a team of United States analysts, including paleoconservative William S. Lind, to describe warfare's return to a decentralized form. Wikipedia
Fourth-generation warfare is conflict characterized by a blurring of the lines between war and politics, combatants and civilians. The term was first used in 1989 by a team of United States analysts, including paleoconservative William S. Lind, to describe warfare's return to a decentralized form. Wikipedia
Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46456252
کیا پاکستان میں واقعی 'ففتھ جنریشن وار فئیر' جاری ہے؟
پاکستان میں آج کل 'ففتھ جنریشن وار فئیر' کی اصطلاح کا استعمال کافی عام ہو گیا ہے۔ حکومت کے وزرا ہوں یا پاکستانی فوج کے ترجمان یا سوشل میڈیا پر صارفین، سب نے مخلتف مواقع پر اس بات کو دہرایا ہے کہ ہمیں ففتھ جنریشن وار فئیر کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
حال ہی میں وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی پولیس افسر طاہر داوڑ کی ہلاکت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ یہ ففتھ جنریشن وار فئیر ہے۔
ہم نے اس مضمون میں اسی بیانیے کو پرکھا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ففتھ جنریشن وار فئیر کیا بلا ہے اور کیا واقعی پاکستان میں ایسی کوئی جنگ لڑی جا رہی ہے۔
اس بارے میں مزید پڑھیے
وار فئیر ماڈل کا استعمال سنہ 1648 میں معاہدہ امن ویسفالیہ ( Treaty of Westphalia ) کے بعد شروع ہوا۔ یہ معاہدہ اس 30 سالہ جنگ کے بعد ہوا تھا جو اُس وقت کی جرمن سلطنت اور دوسرے ممالک کے درمیان مذہبی بنیاد پر شروع ہوئی تھی۔
تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ اس جنگ میں تقریباً 80 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ یہ جنگ کیتھولک عیسائیوں اور پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان مذہبی منافرت کی بنیاد پر شروع ہوئی تھی۔
جنگوں کے ماڈل یعنی وار فئیر ماڈل کی اصطلاح اسی معاہدے کے بعد سے شروع ہوئی اور اس 30 سالہ جنگی دور کو 'فرسٹ جنریشن وار فئیر' کہا گیا۔
اس جنگ اور اس کے خاتمے کے بعد دنیا بھر میں آج کل کا رائج خود مختار ریاستوں کے نظام کا آغاز ہوا۔
'فرسٹ جنریشن وار فئیر' کیا ہے؟
ہنگری کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق فرسٹ جنریشن وار فیئر جنگوں کی وہ شکل ہے جس میں بڑی سلطنتیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں۔ ان جنگوں کو 'فری انڈسٹریل وارز' بھی کہا گیا ہے۔
اس جنریشن میں انفنٹری یا فوج کے دستے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں اور انسانی قوت کو کامیابی کا منبہ سمجھا جاتا ہے یعنی جتنی بڑی فوج ہوگی اتنی ہی زیادہ کامیابی ہوگی۔
یہ پہلی جنریشن17 ویں صدی کے وسط سے لے کر 19 ویں صدی کے آخر تک چلتی رہیں اور انھی اصولوں پر دنیا بھر میں مخلتف جنگیں لڑی گئیں۔
'سیکنڈ جنیریشن وار فئیر'
امریکی پروفیسر رابرٹ جے بنکر کی لکھی ہوئی ایک تحقیق کے مطابق سیکنڈ جنریشن وار فیئر ٹیکنالوجی کی جنگیں تھیں جس میں فوج کے دستوں کی جگہ طاقتور ہتھیاروں نے لے لی اور جنگوں میں بڑا اسلحہ جیسا کہ مشین گن، میگزین رائفلز، توپوں نے لے لی۔ پروفیسر رابرٹ نے ان جنگوں کو ٹیکنالوجی کی جنگیں قرار دیا۔
جنگوں کا یہ دور 19ویں صدی کے وسط سے شروع ہوا اور ابھی تک کچھ جنگیں انہی اصولوں پر لڑی جاتی ہیں۔
'تھرڈ جنیریشن وار فئیر'
پروفیسر رابرٹ کے اسی تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ تھرڈ جنریشن وار فیئر میں جنگیں آئیڈیاز یعنی خیالات کی بنیاد پر شروع ہوگئیں۔
پروفیسر رابرٹ کے مطابق اس دور میں جنگی چالوں کا استعمال عام ہوا۔ ان کے مطابق ان جنگوں میں مختلف چالوں سے دشمن قوتوں کی جنگی طاقت کو کمزور کیا جاتا ہے اور یا ایسی جگہوں سے حملہ کیا جاتا ہے جس میں مخالف فریق کو پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے حملہ ہوا ہے۔
ایک اور تحقیقی مقالے میں تھرڈ جنریشن وار فیئر کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ اس جنریشن کی جنگوں میں ائیر کرافٹس یعنی جنگی طیاروں کا استعمال بھی شروع ہوگیا۔
فورتھ جنریشن وار فئیر
جدید دور کی جنگوں کو فورتھ جنریشن وار فیئر کا نام دیا گیا ہے۔ مختلف تحقیقی مقالوں میں لکھا گیا ہے کہ فورتھ جنریشن وار فیئر کی اصطلاح سنہ 1989 کے بعد سے شروع ہوئی۔
اس جنریشن کی جنگوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو شامل کیا گیا ہے۔ رابرٹ بنکر نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ آج کل ایک فوج ایک آبادی والی جگہ پر حملہ کرتی ہے اور اس چال کو فورتھ جنریشن وار فیئر کا ایک اہم عنصر گردانا جاتا ہے۔
لیکن دیگر مخلتف تحقیقی مقالوں میں جنگوں کے اس ماڈل پر بہت تنقید بھی سامنے آئی ہے اور بعض جنگوں کے اس ماڈل پر یقین ہی نہیں کرتے۔
’ففتھ جنریشن وار فئیر‘
مخلتف یونیورسٹیوں کے ریسرچ پیپرز پڑھ کر یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ماڈل ابھی ارتقائی دور سے گزر رہا ہے اور ابھی تک اس کو درست طور پر سکالرز کے سامنے نہیں رکھا گیا ہے۔
تاہم دنیا بھر میں بعض ادارے، باالخصوص ملٹری امور سے وابستہ ادارے اس قسم کی مختلف اصطلاحات استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر عرفان اشرف امریکہ کی ایلینائے یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی حاصل کر کے اب پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں اور ان کی دنیا بھر میں جنگی معاملات پر گہری نظر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وار فیئر ماڈل کو مختلف سلطنتوں نے ہمیشہ کسی جگہ میں مداخلت کے لیے بطور ایک ہتھیار استعمال کیا ہے۔
کیا پاکستان میں یہ جنگ ہو رہی ہے؟
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جیسا کہ اب ففتھ جنریشن وار فیئر کی اصطلاح کو استعمال کیا جاتا ہے جس کو پاکستان سمیت دنیا بھر کی 'اسٹیبلشمنٹ' کسی جگہ پر اپنی طاقت اور اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے جواز بناتے ہیں۔
'اس طرح کی اصطلاحات جیسا کہ جنریشن وار فیئر کا استعمال بظاہر جمہوریت اور سول حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کو پاکستان، ہندوستان، امریکہ اور دنیا بھر میں مختلف ریاستیں استعمال کرتی ہیں۔'
پروفیسر ڈاکٹر عرفان اشرف نے کہا کہ اگر کشمیر ہی کو دیکھا جائے تو وہاں انڈیا اپنی فوج کی موجودگی کے لیے یہی جواز بناتا ہے کہ وہاں پر جنریشن وار فیئر لڑی جا رہی ہے جو کہ ان کے ملک کے لیے خطرے کا باعث ہے۔
انھوں نے ففتھ جنریشن وار فیئر کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ جنریشن وار فیئر اصل میں جنگوں میں جدت اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا نام ہے۔
'میں اس بات پر بالکل یقین نہیں کرتا کہ پاکستان میں کسی قسم کی ففتھ جنریشن وار فیئر لڑی جا رہی ہے۔ یہ تو بڑے ممالک جیسا کہ امریکہ کسی جگہ میں مداخلت کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ہم اسی اصطلاح کو استعمال کرکے انہی کے بیانیے کو سپورٹ کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔'
جب ان سے پوچھا گیا کہ میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا کو ففتھ جنریشن وار فیئر سے کیوں جوڑا جا رہا ہے تو اس کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ چونکہ سوشل میڈیا ہی ایک ذریعہ ہے جس کو دنیا بھر میں 'ملٹرائزڈ آپریشن' یعنی فوجی تسلط کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں سوشل میڈیا کو ففتھ جنریشن وار فیئر سے منسلک کیا جاتا ہے تاکہ غیر جمہوری قوتوں کو یہ جواز ملے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والوں پر کڑی نظر رکھ سکیں اور ان کے خلاف قوانین بنا سکیں۔
انھوں نے کہا کہ دنیا بھر کی افواج اس کا استعمال کرکے لوگوں کے ذہنوں میں یہی بات ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں کہ سول حکومتیں اور جمہوریت کو ففتھ جنریشن وار فیئر سے خطرات لاحق ہیں اور اسی لیے فوجوں کو کسی بھی جگہ مداخلت کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
No comments:
Post a Comment