ACTION RESEARCH FORUM: SHERIF IS MORE SHERIF, NEW BORMOF SHERIFS: SHABAZ, TEHMINA DURRANI. SENIOR SHERIEF BUSY OF BOOTY ACCOUNTING BALANCE SHEET. "CHAMRI JAI DAMRI NA JAI", STATE OF THE ART MAHARAJ PARTAP SINGH WHO BANGED ON MUSCLEPOWER NOT ON IQ. WHAT A SIKH HE WAS OF THAT LAND.
Court’s verdict certifies Nawaz is ‘godfather’ of corruption: Khurram
10 minutes ago
KARACHI: Reacting over court’s verdict against Nawaz Sharif, President Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) Karachi Division and MPA, Khurram Sherzaman on Monday, said that verdict has certified that Nawaz Sharif is ‘godfather’ of corruption.…
Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46673060
نواز شریف کی کیا اس مرتبہ بھی سزا معطل ہو سکے گی؟
احتساب عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں اور سزا کی معطلی کے لیے درخواست بھی دے سکتے ہیں۔ تو کیا اس مرتبہ پھر ان کی سزا معطل کی جا سکے گی یا ایک ریفرنس میں سزا پانے کے بعد دوسری مرتبہ سزا معطل نہیں کی جا سکتی؟
حزب اختلاف کی جانب سے یہ الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ یہ سیاسی بنیادوں پر مقدمات دائر کیے گئے ہیں اور یہ کہ انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ کیا حزب اختلاف کے دعووں میں وزن ہے یا آمدن سے زیادہ اثاثے ساری کہانی خود سنا رہے ہیں؟ اس کے علاوہ نواز شریف کے لیے اب آئندہ قانونی مرحلے کیا ہو سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیے
قومی احتساب بیورو کے سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل راولپنڈی ذوالفقار بھٹہ نے بی بی سی کو بتایا کہ نواز شریف کی جانب سے دفاع میں کمزوریاں نظر آتی ہیں۔
سوال: سزا سنائے جانے کے بعد آب نواز شریف کیا قانونی کارروائی کر سکیں گے؟
ذوالفقار بھٹہ: نواز شریف اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے اور ساتھ ہی ایک درخواست دیں گے جس میں سزا کی معطلی کی استدعا کی جائے گی۔ لیکن یہاں یہ بات اہم ہے کہ قانون کے تحت اب ایک سے زیادہ مقدمات میں اگر سزا سنائی جا چکی ہو تو اس صورت میں مشکل ہوگا کہ سزا معطل کی جا سکے۔ کیونکہ جب کسی شخص کے خلاف ایک سے زیادہ ریفنرسز ہوں تو انھیں سخت گیر سمجھا جاتا ہے۔ نواز شریف کو اس سے پہلے ایون فیلڈ کیس میں سزا سنائی جا چکی ہے اور اب العزیزیہ کیس میں بھی سزا سنا دی گئی ہے۔
سوال: نواز شریف نے اس ریفرنس کا دفاع کس حد تک کیا ہے؟
ذوالفقار بھٹہ: اس مرتبہ تکنیکی غلطیاں کی گئی ہیں۔ دفاع کے لیے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے اور عام طور پر استغاثہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ شواہد پیش کرے کہ کیا استغاثہ کے پاس مکمل شواہد ہیں؟ لیکن جب دفاع کی جانب سے کوئی خاص نقطہ یا پہلو اٹھایا جاتا ہے، جیسے پہلے قطری خط کا ذکر کیا گیا تھا تو ایسی صورت میں ڈیفنس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے شواہد پیش کریں۔ اس مرتبہ ڈیفنس کی جانب سے فعال کردار سامنے نہیں آیا اور اس میں ماہرین نہ کچھ کمزوریاں دیکھیں ہیں۔
سوال: حسن نواز اور حسین نواز کے نام بھی ان ریفرنسز میں تھے جنھیں مفرور قرار دیا جا چکا ہے تو کیا انھیں ملک واپس لایا جا سکے گا؟
ذوالفقار بھٹہ: اس میں نیشنیلٹی کا معاملہ آ جاتا ہے اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کا براہ راست اس کیس سے کوئی تعلق ہے اور اگر کسی ملک سے ملزمان کو لانے کے لیے رابطہ کیا جاتا ہے تو اس صورتحال میں اس ملک کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ اس مقدمے میں ملزم کس حد تک ملوث ہے اور اس کے علاوہ وہاں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کیا یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر ہیں اور یا انتقامی کارروائیاں تو نہیں ہیں۔ تو اس صورتحال میں ان کو یہاں لانا مشکل ہو جائے گا۔
سوال: قانون کے ماہرین کی نظر میں کیا یہ انتقامی کارروائیاں ہیں یا یہ جائز مقدمات ہیں؟
ذوالفقار بھٹہ: یہ ایک وائٹ کالر کرائم ہے اور اس میں ڈیفنس بہتر طریقے سے مقدمہ لڑ سکتے ہیں جبکہ پاکستان میں استغاثہ کی جانب سے اور تحقیقاتی افسران کی اس میں کوئی خاص مہارت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس سے پہلے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی اور یہ مقدمات پہلے دائر کیوں نہیں کیے گئے۔ اب ہی یہ مقدمات اچانک کیوں دائر کیے گئے ہیں اور ایک ایک کو چن چن کر گرفتار کیا جا رہا ہے جس سے شکوک و شبہات ابھرتے ہیں۔
جب یہ بد عنوانیاں کی جا رہی تھیں تو اس وقت پاکستان میں ایسے ادارے ہیں اور ایجنسیاں ہیں تو انھوں نے کارروائی کیوں نہیں کی اور انھیں کیوں نہیں روکا گیا؟
تو ایسی صورت میں ایک تاثر تو یہی ابھر سکتا ہے کہ یہ انتقامی کارروائی ہو سکتی ہے لیکن دوسری جانب جب آمدن سے زیادہ اثاثے سامنے نظر آتے ہیں تو اس میں شکوک و شبہات ابھرتے ہیں۔
سوال: اگر نواز شریف سابق وزیر اعظم نہ ہوتے اور کسی سیاسی جماعت کے سربراہ بھی نہ ہوتے اور ایک عام شہری ہوتے تو پھر کیا ہوتا؟
ذوالفقار بھٹہ: جب کسی رہنما یا اگر کوئی وزیر اعظم رہ چکا ہوتا ہے تو اس کو بڑی باریک بینی سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ بیرونی ممالک بھی اس پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ بھی دیکھتے ہیں کہ کیا فیصلہ سامنے آتا ہے۔ کسی عام شخص کے بارے میں شائد باہر کے ممالک کو اتنی دلچسپی نہیں ہوگی۔
No comments:
Post a Comment