Sunday, 5 August 2018

9/11 OSAMA LADEN FROM CHILDHOOD TO ISLAMIC JEHADI


Source: https://www.bbc.com/urdu/world-45059041


اسامہ بن لادن: شرمیلے لڑکے سے عالمی جہادی تک کا سفر


اسامہ بن لادنتصویر کے کاپی رائٹREUTERS

القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی والدہ ان کی ہلاکت کے بعد پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی ہیں اور انھوں نے اپنے بیٹے اسامہ بن لادن کی زندگی کے بارے میں کھل کر بات کی ہے۔
پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں سنہ 2011 میں امریکی فوج کی ایک کارروائی میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا۔
اسامہ بن لادن کی والدہ عائلہ غنیم نے اپنے دو دیگر بیٹوں احمد اور حسن اور دوسرے شوہر محمد العطاس کے ہمراہ برطانوی اخبار گارڈیئن کے مارٹن چلوف کے ساتھ اسامہ کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں پر بات کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عائلہ غنیم نے بتایا کہ اسامہ اب بھی ان کا محبوب بیٹا ہے جو کسی طرح بھٹک گیا تھا: ’میری زندگی بہت مشکل تھی کیونکہ وہ مجھ سے بہت دور تھا، وہ بہت اچھا لڑکا تھا اور مجھ سے بہت پیار کرتا تھا۔‘
اسامہ بن لادن کے دو سوتیلے بھائیوں کے درمیان بیٹھی ان کی والدہ نے بتایا کہ انکا پہلا بیٹا بہت شرمیلا تھا لیکن پڑھائی میں اچھا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ جب اسامہ جدہ کی شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی میں اکنامکس پڑھ رہے تھے تو انھیں انتہاپسندی کی جانب راغب کیا گیا۔ ’یونیورسٹی میں لوگوں نے اسے بدل دیا، وہ ایک بالکل ہی مختلف انسان بن گیا۔‘

ایبٹ آبادتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionپاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں سنہ 2011 میں امریکی فوج کی ایک کارروائی میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا

یونیورسٹی میں جن لوگوں سے اسامہ بن لادن کی ملاقات ہوئی ان میں عبداللہ اعظم بھی شامل تھے جو اخوان المسلمین کے رکن تھے اور انھیں بعد میں سعودی عرب سے نکال دیا گیا اور وہ اسامہ کے روحانی مشیر بن گئے۔
عائلہ غنیم نے اس دور کو یاد کرتے ہوئے بتایا: ’وہ بہت ہی اچھا بچہ تھا اور پھر اس کی ملاقات کچھ افراد سے ہوئی جنھوں نے جوانی میں ہی اس کا برین واش کیا۔ آپ اسے مذہبی فرقہ کہہ سکتے ہیں۔ وہ اپنے مقاصد کی خاطر پیسے حاصل کرتے تھے۔ میں اسے ہمیشہ ان سے دور رہنے کا کہتی تھی، اور وہ کبھی نہیں بتاتا تھا جو وہ کر رہا تھا کیونکہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتا تھا۔‘
سنہ 1980 کی دہائی میں اسامہ روس کے خلاف لڑنے افغانستان گئے۔ ان کے سوتیلے بھائی حسن نے اپنی والدہ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’شروع شروع میں ان سے جو بھی ملتا وہ ان کی عزت کرنے لگتا۔ آغاز میں ہم ان پر فخر کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سعودی حکومت ان سے عزت اور احترام کا برتاؤ کرتی، اور پھر اسامہ مجاہد کے روپ میں سامنے آئے۔‘
حسن نے ایک جوشیلے انسان سے عالمی جہادی میں تبدیل ہونے والے اسامہ کے بارے میں بتایا: ’مجھے اسامہ پر بطور بڑے بھائی فخر ہے، انھوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا، لیکن میرا نہیں خیال کہ میں ان پر ایک فرد کی حیثیت سے فخر کر سکتا ہوں۔ وہ عالمی سطح پر مشہور تو ہو گئے لیکن وہ شہرت کسی کام کی نہیں۔‘
عائلہ غنیم جو اپنے بیٹے حسن کی باتیں غور سے سن رہی تھیں دوبارہ اس گفتگو میں شامل ہوئیں اور کہا: ’وہ بہت سیدھا تھا۔ سکول میں بھی بہت اچھا تھا، پڑھنا اسے بہت پسند تھا۔ وہ تجارتی دورے کا بہانہ کر کے افغانستان چلے جاتے تھے اور اس طرح انھوں نے ساری دولت لٹا دی۔‘

یہ بھی پڑھیے


اسامہ بن لادنتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

کیا ان کی والدہ کو کبھی شک ہوا کہ وہ جہادی بن جائیں گے؟ اس پر عائلہ نے کہا کہ ’میرے دماغ میں ایسا کبھی نہیں آیا۔ اور جب معلوم ہوا تو ہم سب بہت پریشان تھے۔ ہم ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی۔ وہ کیوں سب ایسے ضائع کرے گا۔‘
اسامہ بن لادن کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ وہ ان سے آخری مرتبہ سنہ 1999 میں افغانستان میں ملے تھے۔ عائلہ کے مطابق: ’یہ ائیرپورٹ کے قریب ایک جگہ تھی جو انھوں نے روسیوں سے قبضے میں لی۔ وہ ہم سے مل کر بہت خوش تھا۔ وہ ہر روز ہمیں آس پاس کی جگہیں دکھاتا تھا۔ اس نے ایک جانور مارا اور ہمارے لیے کھانا بنایا اور سب کو مدعو کیا۔‘
اسامہ کے دوسرے بھائی احمد نے بتایا کہ ’نائن الیون کے واقعے کو 17 سال بیت گئے ہیں اور اب تک ہماری والدہ اسے اسامہ سے منسوب کیے جانے کو مسترد کرتی ہیں۔ وہ ان سے بہت پیار کرتی تھیں اور ان پر الزام لگانے سے انکار کرتی ہیں۔ وہ ان لوگوں کو اس کا ذمہ دار سمجھتی ہیں جو اسامہ کے آس پاس تھے۔ وہ صرف ایک اچھے لڑکے کو جانتی ہیں جو ہم سب نے دیکھا، وہ کبھی ان کا جہادی رخ دیکھ ہی نہیں پائیں۔‘
احمد مزید بتاتے ہیں: ’میں حیران ہو گیا جب نیویارک سے ابتدائی خبریں آئیں۔ وہ بہت ہی عجیب سے کیفیت تھی، ہمیں آغاز سے ہی معلوم تھا کہ (یہ اسامہ ہیں)۔ چھوٹے سے بڑے تک ہم سب شرمندہ تھے۔ ہم سب جانتے تھے کہ ہم سب کو اب شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے تمام خاندان والے جو لبنان، شام، مصر اور یورپ میں تھے واپس سعودی عرب آگئے۔‘

نائن الیونتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

’سعودی عرب میں ہم پر سفری پابندی تھی۔ حکومت نے ہماری فیملی پر کنٹرول رکھا جہاں تک وہ رکھ سکتے تھے۔ ہم سب سے حکام کی جانب سے تفتیش کی گئی اور کچھ مدت کے لیے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی گئی۔ تقریباً دو دہائیوں بعد بن لادن خاندان نسبتاً آزادی کے ساتھ سعودی ریاست سے باہر جا سکتے ہیں۔‘

حمزہ بن لادن

اسامہ بن لادن کے چھوٹے بیٹے 29 سالہ حمزہ بن لادن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ اس وقت افغانستان میں ہیں۔ گذشتہ سال انھیں امریکہ کی جانب سے باقاعدہ طور پر ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دے دیا گیا تھا۔
حمزہ کے بارے میں ان کے سوتیلے چچا حسن نے کہا کہ ’جو اگلی بات مجھے معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ حمزہ نے کہا: ’میں اپنے والد کا بدلہ لوں گا۔‘ میں دوبارہ اس سب سے گزرنا نہیں چاہتا۔ اگر حمزہ میرے سامنے ہوتا تو میں اس سے کہتا کہ خدا تمہیں ہدایت دے، جو تم کر رہے ہو اس کے بارے میں دو بارہ سوچو، اپنے والد کے قدم پر نہ چلو۔ تم اپنے وجود کے تاریک حصوں میں داخل ہو رہے ہو۔‘

متعلقہ عنوانات

  • .bbc.com/urdu/pakistan-43962964
    اسامہ بن لادن

    Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-43962964

    اسامہ بن لادن



    Source: https://www.bbc.com/urdu/world-40263135


    القاعدہ کے اندر کی کہانی سیاسی بھی اور خاندانی بھی

    عنبر خیری نے ’دا ایگزائل‘ کے مُصبف ایڈرئین لیوی سے پوچھا:سب سے حیران کُن معلومات کیا تھیں؟
    تورا بورا سے فرار اور تقریباً دس سال بعد ایبٹ آباد میں امریکی سپیشل فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے درمیانی عرصے میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کہاں تھے اور اُن پر کیا گزری؟
    اس سوال کے جواب میں قیاس آرائیاں بہت ہوئی ہیں اور افواہیں بھی بہت گردش کرتی رہی ہیں لیکن اب ایک نئی کتاب میں القاعدہ کے رہنما کے اِن دس برسوں کی کہانی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔
    ’دا ایگزائل‘ نامی کتاب میں نہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کا ’مطلوب ترین مجرم‘ کہلانے والا شخص کس طرح دنیا سے چُھپا رہا بلکہ یہ بھی کہ اُس کے خاندان اور تنظیم پر اس کا کیا اثر پڑا۔
    اس کتاب کے مصنفین کیتھرین سکاٹ کلارک اور ایڈریئن لیوی ہیں جن دونوں کا تحقیقاتی صحافت میں ایک بڑا نام ہے۔ اس کتاب میں بھی اس تحقیقاتی ٹیم نے بہت تفصیل سے معلومات جمع کی ہیں، جن میں خاص اہمیت اس کہانی کے کئی اہم کرداروں سے ان کے انٹرویوز ہیں۔
    اہم کرداروں کی گواہی اس کتاب کی خاص بات ہے اور اس میں نہ صرف اسامہ کی کئی بیویوں اور بچوں کے بیانات شامل ہیں بلکہ القاعدہ سے منسلک اہم افراد اور دیگر انٹیلی جنس اہلکاروں کے بھی۔ غالباً یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اسامہ بن لادن کے خاندان نے اس دہائی پر کھل کر بات کی ہے۔
    تہران کی ایک سڑک کا منظرتصویر کے کاپی رائٹTHE EXILE
    Image captionاسامہ بن لادن کی بیوی خیریہ اور ان کے بہت سے بچے سنہ 2010 تک ایران میں رہے
    چھ سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کئی انکشافات شامل ہیں:
    • اسامہ بن لادن کی بیوی خیریہ اور ان کے بہت سے بچے سنہ 2010 تک ایران میں رہے۔ ان کا مقام کبھی مہمان کا ہوتا، کبھی پناہ گزین کا تو کبھی قیدی کا۔
    کتاب کا سرورقتصویر کے کاپی رائٹTHE EXILE
    • ایران نے 2010 میں اسامہ کے خاندان اور القاعدہ کے اہلکاروں کو صرف اس لیے نکلنے دیا کہ القاعدہ نے پشاور سے ایک ایرانی اہلکار کو اغوا کر لیا تھا اور یہ اس کی رہائی کا سودا تھا۔
    • ایران نے 2003 میں ایک بیک چینل کے ذریعے امریکہ سے اسامہ خاندان کو اس کے حوالے کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن امریکہ نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور اس پیشکش کو رد کر دیا۔ اس وقت امریکہ کی پوری توجہ عراق پر حملے کی تیاریوں پر مرکوز تھی، اور وہ عراق کا القاعدہ سے تعلق دکھانا چاہتا تھا۔
    • اسامہ کے دو بچے ایران کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ 2008 میں ان کا بیٹا سعد احاطے کی دیوار پھلانگ کر بھاگ گیا (بعد میں وہ وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوگیا) اور پھر 2010 میں اسامہ کی 18 سالہ بیٹی ایمان تہران کے ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور سے فرار ہو گئیں۔ ایمان نے دکان سے ایک گڑیا کو لے کر اپنے گود میں بچے کی طرح پکڑا، سر پر کپڑا اوڑھا اور سٹور سے نکل کر اس نے سعودی عرب میں اپنے بڑے بھائی کو فون کیا جس نے اسے سعودی سفارتخانے جانے کی ہدایت کی اور کہا کہ وہ ان سے فوراً رابطہ کرے گا۔ ایمان بن لادن پانچ ماہ تک سفارتخانے میں رہیں اور بالآخر وہ اپنے بھائی عمر اور بھابی زیئنہ کی کوششوں کے نتیجے میں نکل سکیں۔ ان کی ماں نجوہ نے (جو اسامہ کی پہلی بیوی تھیں اور جو گیارہ ستمبر کے حملوں سے دو دن پہلے افغانستان سے چلی گئی تھیں) انھیں نو سال کے عرصے کے بعد دیکھا۔
    • القاعدہ کی مرکزی شوریٰ نے گیارہ ستمبر یا 'طیارہ منصوبے' کو منظور کرنے سے انکار کر دیا تھا اور شوریٰ کے کئی ارکان نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی لیکن اس کی حمایت اور منصوبہ بندی ایک ایسا شخص کر رہا تھا، جو القاعدہ کا رکن تک نہیں تھا، لیکن جس نے ایسے کئی اور منصوبے بنائے۔ بعد میں اسی شخص نے القاعدہ کے مفرور رہنماؤں اور کارکنوں کو کراچی میں کئی فلیٹوں میں بھی رکھا۔
    • اسامہ بن لادن بھی کچھ دن کراچی میں رہے اور ایک چھاپے میں گرفتاری سے بال بال بچے تھے۔
    حمید گلتصویر کے کاپی رائٹTHE EXILE
    • جنرل حمید گل (آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی اور دفاع پاکستان کونسل کے رہنما) نے سنہ 2005میں اسامہ کو مولانا فضل الرحمان خلیل کے ذریعے ایک پیغام بھجوایا تھا۔ اسامہ اس ملاقات کے لیے ایبٹ آباد سے قبائلی علاقے آئے تھے ۔ (جنرل حمید گل کا ہمیشہ یہ کہنا رہا کہ 'اسامہ تورا بورا کی بمباری میں ہلاک ہو گئے تھے اور امریکی ایک ڈرامہ کرتے رہے ہیں)۔
    • اسامہ بن لادن کے کئی بیٹے سپیشل بچے تھے، یعنی وہ 'اوٹِسٹِک' تھے۔ ان میں سعد بن لادن بھی شامل تھے۔
    • ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام تفتیش کاروں کو خالد شیخ محمد نے تفتیش میں بہت جلدی دے دیا تھا۔
    • اسامہ بن لادن کی بیویوں کو ان کی بیوی خیریہ پر شک تھا کہ ان کے ایبٹ آباد آنے سے حکام کو اسامہ کا اتا پتا معلوم ہو سکا۔ (خیریہ کی اکلوتی اولاد حمزہ بن لادن اب اسامہ کے جہادی وارث سمجھے جا رہے ہیں، اور شاید ان کے واحد بیٹے ہیں جو اس راہ پرگامزن ہیں)۔
    ابو حفس الموریطانیتصویر کے کاپی رائٹTHE EXILE
    Image captionصنفین نے ابو حفس الموریطانی سے جو معلومات حاصل کی ہیں اس سے تاریخ کے اس دور کا بہت کچھ پتہ چلتا ہے
    • امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور وفاقی ادارے ایف بی آئی میں تفتیش کے طریقۂ کار پر اختلافات رہے۔ سی آئی اے نے تشدد کو ترجیح دی، خاص طور پر واٹر بورڈنگ کو۔
    • امریکہ کا ایک غیرقانونی حراستی مرکز (رینڈشن سینٹر) تھائی لینڈ میں تھا جہاں ابوزبیدہ کو بھی رکھا گیا۔
    • ابو مصعب الزرقاوی کے بارے میں القاعدہ کی مرکزی شوریٰ کے ارکان اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے اسے ان پڑھ اور جذباتی سمجھا تھا لیکن افغانستان پر حملے کے بعد جب اعلیٰ قیادت ہلاک یا محدود ہوگئی تو خالد شیخ محمد اور الزرقاوی نے القاعدہ کے نام پر بڑے حملے کروائے جن میں عام شہریوں کی کافی ہلاکتیں ہوئیں۔
    اسامہ کا ایبٹ آباد میں مکانتصویر کے کاپی رائٹTHE EXILE
    Image captionابراہیم عرف ابو احمد الکویتی نے تنظیم کے پیسوں سے ایبٹ آباد میں نو پلاٹ خرید کر ان پر مکان بنوایا
    • ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو بسانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے شخص کا کوہاٹ سے تعلق تھا اور اس کام پر اسے خالد شیخ محمد نے لگایا تھا۔ ان دونوں کے والدین کی کویت میں ملازمت تھی اور وہیں سے ان کی واقفیت ہوئی تھی۔ ابراہیم عرف ابو احمد الکویتی نے تنظیم کے پیسوں سے ایبٹ آباد میں نو پلاٹ خرید کر ان پر گھر بنوایا۔ کنٹونمنٹ بورڈ نے اس کی کوئی چیکنگ نہیں کی اور نہ ہی کسی نے اعتراض کیا جب مقررہ اونچائی سے زیادہ کی دیوار کھڑی کی گئی۔
    • الکویتی اور اس کا بھائی اسامہ بن لادن اور ان کے خاندان کو سنبھالنے کی ذمہ داری سے اتنا تھک چکا تھا کہ اس نے اسامہ کو اپنا استعفیٰ دے دیا تھا اور دونوں میں سمجھوتہ ہو گیا تھا کہ اسامہ گیارہ ستمبر کے حملوں کی دسویں برسی کے بعد اس گھر سے چلے جائیں گے۔ اس سمجھوتے کو تحریری شکل دے دی گئی تھی۔ اگر اسامہ یہ مہلت حاصل نہ کرتے تو شاید وہ مئی میں ایبٹ آباد سے نکل چکے ہوتے۔
    اوسامہتصویر کے کاپی رائٹTHE EXILE
    ان انکشافات کے علاوہ کتاب میں اور بہت سی تفصیلات شامل ہیں جن سے تاریخ کے اس دور اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی اس لڑائی کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوتا ہے اور یہ اُس بیانیے سے ہٹ کر ہے جس کا دعویٰ القاعدہ یا امریکہ کرتے ہیں۔
    اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ القاعدہ کے اندر کی کہانی ہے، سیاسی بھی اور خاندانی بھی۔ مصنفین نے خاص طور پر ابو حفس الموریطانی (ابن الولید محفوظ) سے جو معلومات حاصل کی ہیں اس سے تاریخ کے اس دور کا بہت کچھ پتہ چلتا ہے۔

    نام کتاب: دا ایگزائل: دا فلائٹ آف اسامہ بن لادن

    ناشر: بلومزبری

    اس مضمون میں شامل تمام تصاویر دا ایگزائل: دی فلائٹ آف اسامہ بن لادن سے لی گئی ہیں جن کے جملہ حقوق مصنفین کے نام محفوظ ہیں۔
    Source: https://www.bbc.com/urdu/world-38915994

    خالد شیخ کا اوباما کو خط، ’نائن الیون کا ذمہ دار خود امریکہ ہے‘

    امریکہتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
    Image captionامریکہ میں ہونے والے 9/11 کے حملے کے مبینہ معمار خالد شیخ محمد
    امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد نے سابق امریکی صدر براک اوباما کو لکھے گئے ایک خط میں امریکہ کو ہی اس حملہ کا مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
    18 صفحات پر مشتمل یہ خط جنوری 2015 میں تحریر کیا گیا تھا لیکن ایک فوجی جج کے حکم کے بعد یہ خط اوباما کی صدارت کے آخری دنوں میں گوانتانامو جیل سے وائٹ ہاؤس بھیجا گیا۔
    خالد شیخ محمد نے اپنے خط میں صدر اوباما کو ’سانپوں کا سردار‘ قرار دیا کہا کہ وہ ایک ’جابر ملک کے حکمران ہیں۔‘
    کویت میں پیدا ہونے والے پاکستانی خالد شیخ محمد نے اپنے خط میں امریکہ کی دنیا بھر میں مختلف ممالک میں کی جانے والی مداخلت کی نشاندہی کی ہے لیکن ان کی خاص توجہ پاکستان پر تھی۔
    امریکہتصویر کے کاپی رائٹPENTAGON
    Image captionجنوری 2015 میں خالد شیخ محمد کی جانب سے اُس وقت کے امریکی صدر براک اوباما کو لکھے جانے والے خط کا عکس
    اس خط میں انھوں نے اسرائیل کو بالخصوص نشانہ بنایا اور 39 بار اس کا ذکر کیا۔ اس کے علاوہ 12 مرتبہ انھوں نے اسامہ بن لادن کا بھی تذکرہ کیا۔
    خالد شیخ کی سزائے موت کا دفاع کرنے والے اٹارنی ڈیوڈ نیون نے کہا کہ 'القاعدہ کے سابق آپریشن چیف نے یہ خط غزہ میں تشدد اور مقبوضہ علاقوں کے تناظر میں لکھا۔'
    ان کے مطابق: 'خط تحریر کرنے کا بنیادی مقصد یہی ہے'، تاہم انھوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ آیا یہ خط ان کے موکل نے خود لکھا ہے یا کسی قانونی ماہر سے تحریر کروایا۔
    خالد شیخ محمد ان پانچ افراد میں شامل ہیں جن پر گوانتانامو وار کورٹ میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے اور ان پر 11 ستمبر 2001 میں طیارہ ہائی جیک کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے اور اگر ان پر یہ جرم ثابت ہوجاتا ہے تو انھیں موت کی سزا دیے جانے کا امکان ہے۔
    جیلتصویر کے کاپی رائٹAFP
    Image captionگوانتانامو بے جیل جہاں خالد شیخ محمد قید ہیں
    انھیں سی آئی اے کی خفیہ جیل میں ساڑھے تین سال تک رکھا گیا۔
    جیل حکام نے یہ خط وائٹ ہاؤس پہنچانے سے انکار کر دیا تھا۔ پراسیکیوٹرز نے ان کے اس اقدام کی حمایت کی اور ان کا کہنا تھا کہ اسے بطور پروپیگینڈا استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ستمبر 2015 میں پینٹاگون کی طرف سے دیے گئے خالد شیخ محمد کے وکلا نے دلائل پیش کیے کہ پہلی ترمیم کے مطابق ان کے موکل کے پاس صدر اوباما کو درخواست دینے کا حق ہے۔
    آرمی کے جج نے جب تک اس بارے میں فیصلہ سنایا کہ خالد شیخ محمد کا خط اوباما کو بھیجا جا سکتاہے، اس وقت تک ان کا دورِ صدارت ختم ہونے والا تھا اور عوام کے سامنے یہ خط نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں سامنے آیا۔
    ڈیوڈ نیون کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ 'جو چیز مجھے پریشان کیے ہوئے ہے وہ یہ کہ منظوری حاصل کرنے میں کافی وقت لگ گیا، یہاں تک کے مقدمہ کرنے میں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملزم کی دفاعی ٹیم نے فوج سے پوچھنا شروع کردیا ہے کہ کیسے ہم یہ خط امریکی صدر تک پہنچائیں؟'

    متعلقہ عنوانات


    Source: https://www.bbc.com/urdu/world/2011/05/110531_khalid_sheikh_new_charges_rh

    خالد شیخ محمد پر نئے فردِ جرم عائد

    اطلاعات کے مطابق گوانتنامو بے میں قید نائن الیون کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد اور چار دیگر افراد پر امریکی فوج نے نئے فردِ جرم عائد کیے ہیں۔
    ان نئے فردِ جرم کے بارے میں بدھ کو اعلان کیا جائے گا۔
    ان پانچ افراد پر نائن الیون کے حملوں کے حوالے سے گوانتنامو میں فردِ جرم پہلے ہی عائد ہو چکی ہے۔ تاہم یہ فردِ جرم اس وقت ختم کردی گئی جب صدر اوباما کی انتظامیہ نے اس مقدمے کو سول عدالت میں لانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہ فیصلہ اس سال اپریل میں واپس لے لیا گیا تھا۔
    اطلاعات کے مطابق ان پانچ افراد میں سے ہر ایک پر کم از کم آٹھ آٹھ نئے فردِ جرم عائد کیے جائیں گے۔ ان فردِ جرم میں جنگی قوانین کی خلاف ورزی، شہریوں پر حملے، جہاز کا اغوا اور دہشت گردی شامل ہیں۔
    یاد رہے کہ پچھلے سال ستمبر میں اوباما انتظامیہ نے فیصلہ کیا تھا کہ نائن الیون کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد کو کیوبا سے نیویارک منتقل کیا جائے گا تاکہ ان پر سول عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکے۔
    یہ فیصلہ صدر براک اوباما کی گوانتانامو کے حراستی مرکز میں مزید مشتبہ دہشت گرد نہ رکھنے کی کوششوں کی ایک کڑی تھی۔
    تاہم ریپبلیکن رہنماؤں نے فوراً اس فیصلے پر تنقید شروع کر دی تھی۔
    دو یمنی، ایک سعودی اور ایک پاکستان میں پیدا ہونے والے کویتی شہری خالد شیخ محمد کے ساتھ مقدمات کا سامنا کریں گے۔ امریکی فوج کے مطابق خالد شیخ محمد نائن الیون حملوں کا منصوبہ بنانے کا اعتراف کر چکے ہیں۔
    اب تک مقدمے کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی لیکن امریکی میڈیا کے مطابق زیرِ حراست مشتبہ افراد کو امریکہ منتقل کرنے کے لیے کانگریس کو کم از کم پینتالیس دن کا نوٹس دینا پڑتا ہے۔





      

No comments:

Post a Comment