Thursday 2 August 2018

PAK: BALUCHISTAN; MASTOUNG HOW SUICIDE BOMBAR FAMILY WAS TRAPPED


Source:   https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45053922

مستونگ دھماکے کے بمبار کی شناخت کیسے ہوئی؟

پاکستانتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image caption13 جولائی کو مستونگ میں انتخابی جلسے میں دھماکے سے 150 افراد ہلاک ہوئے تھے
سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے شہر دھابیجی کے غریب آباد محلے میں 17 جولائی کی رات کی تاریکی میں پولیس گھیراؤ کرتی ہے اور ایک دروازہ زور سے کھٹکٹاتی ہے۔ سامنے سے ایک 60 سالہ شخص نکلتا ہےجس سے اہلکار معلوم کرتے ہیں کہ حفیظ نواز کون ہے؟
وہ بتاتا ہے کہ اس کا بیٹا ہے۔ دوسرا سوال ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہے؟ وہ بلا ججھک کہتا ہے کہ افغانستان جہاد کے لیے گیا ہے۔
اور ان دو سادہ سوالوں کی مدد سے سندھ پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کو حفیظ نواز کی شناخت کرنے میں کامیابی نصیب ہو جاتی ہے اور یہ تفصیلات بتانے والا خود اس کا والد محمد نواز ہے۔
بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 13 جولائی کو خودکش بم حملے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سراج رئیسانی سمیت 150 سے زائد افراد ہلاک اور 200 کے قریب زخمی ہوگئے تھے اور شدت پسند تنظیم، نام نہاد دولت اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
مستونگ میں ہونے والے دھماکے کے بارے میں مزید پڑھیے

نامعلوم سے خودکش بمبار

ایس ایس پی سی ٹی ڈی پرویز چانڈیو نے بی بی سی کو بتایا کہ مستونگ دھماکے کے بعد وہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کوئٹہ اعتزاز گورایہ سے رابطے میں تھے، جنھوں نے انہیں بتایا کہ نامعلوم لاشوں کے فنگر پرنٹ سے ایک نوجوان کی شناخت سندھ کے ضلعہ ٹھٹہ سے ہوئی ہے۔
انہوں نے اس لڑکے کی تفصیلات طلب کیں اور تفتیش کے لیے جب دھابیجی پہنچے تو حفیظ کے والد نے تصدیق کی کہ وہ افغانستان منتقل ہوچکا ہے۔
'جب اس کے والد کو اس نوجوان کی تصویر دکھائی گئی تو اس نے تصدیق کی کہ یہ اسی کا بیٹا ہے۔'
ایبٹ آباد سے دھابیجی منتقلی
محمد نواز کا تعلق ایبٹ آباد شہر کے محلے مولیا سے ہے مگر وہ تقریباً 30 سال قبل دھابیجی منتقل ہوگئے تھے، جہاں وہ دودھ فروخت کرتے ہیں۔ حفیظ کے علاوہ ان کے دیگر بچوں کی پیدائش بھی یہاں ہی ہوئی۔

کراچی کا مشکوک مدرسہ

کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی تفیش کے دوران کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں واقع ایک مدرسے کا مشکوک کردار سامنے آیا ہے۔ حفیظ نواز اسی مدرسے میں زیر تعلیم رہا تھا اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے اس کا بڑا بھائی عزیز نواز بھی اسی مدرسے میں زیر تعلیم رہا جو بعد میں افغانستان جہاد کے لیے چلا گیا اور پھر اس نے تحریک طالبان میں شمولیت اختیار کرلی۔
پاکستان
Image captionحملہ آور حفیظ نواز کا شناختی کارڈ
ایس ایس پی پرویز چانڈیو کے مطابق اس مدرسے کا ریکارڈ تحویل میں لیا گیا اور جو طالب علم حفیظ کے ساتھ پڑھتے تھے ان سے تفتیش کی گئی جس کی مدد سے حفیظ کا ٹیلیفون نمبر مل گیا۔ اس نمبر کی مدد سے حفیظ کے ہینڈلر تک رسائی ہوئی اور کوئٹہ سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہینڈلر مفتی ہدیت اللہ قلعہ سیف میں مارا گیا۔

حفیظ کی خاندان سمیت افغانستان منتقلی

ایس ایس پی پرویز چانڈیو کا کہنا ہے کہ حفیظ کے بڑے بھائی عزیز کی ٹی ٹی پی میں شمولیت کے بعد پورا خاندان افغانستان منتقل ہوگیا جس میں حفیظ کے علاوہ عزیز ایک اور بھائی شکور، تین بہنیں اور والدہ شامل تھیں جو اس وقت سپن بولدک میں موجود ہیں۔
کاؤنٹر ٹیررازم پولیس کا خیال ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ اور کمانڈر حاجی داؤد محسود میں اختلافات اور ایک دوسرے پر حملوں کے بعد حاجی داؤد نے داعش کے ساتھ رجوع کیا۔
واضح رہے کہ حاجی داؤد کراچی پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل تھا لیکن بعد میں افغانستان منتقل ہو گیا۔
ایس ایس پی پرویز کے مطابق حفیظ کے بڑے بھائی عزیز نواز نے بھی حاجی داؤد کے ساتھ داعش میں شمولیت اختیار کرلی اور پورے خاندان کو یہ کہہ کر افغانستان طلب کرلیا کہ داعش خلافت کے قیام کے لیے لڑ رہی ہے اور دوسری زمین ان کے لیے دارلحرب ہے۔ خاندان کے منتقل ہونے کے بعد عزیز اپنے والد پر بھی دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ بھی افغانستان آجائیں۔



No comments:

Post a Comment