Tuesday, 7 August 2018

FIRST SHEDDI MEMBER PARLIAMENT (SINDH) LADY -TANZEELA


Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45094430

پہلی شیدی رکنِ اسمبلی: ’میرا خواب ہے کہ شیدی پکارا جانا قابلِ عزت ہو‘

پہلی شیدی رکنِ اسمبلی: بلاول بھٹو نے ہمیں ایسے دریافت کیا جیسے کولمبس نے امریکہ
تنزیلہ شیدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد وہ پہلی سیاہ فام خاتون ہیں جو اسمبلی میں قدم رکھیں گی۔
سندھ اسمبلی میں تنزیلہ شیدی یہ خواب لیکر داخل ہوں گی کہ آئندہ ان کی آنے والی نسلوں کے لیے شیدی لفظ قابل توہین نہیں بلکہ قابل عزت و احترام سمجھا جائے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے تنزیلہ شیدی کو خواتین کی مخصوص نشستوں پر نامزد کیا ہے، ان کا تعلق ضلع بدین کے شہر ماتلی سے ہے۔

اسی بارے میں

شیدی اور پیپلزپارٹی

تنزیلہ شیدی کا کہنا ہے کہ ان کی کمیونٹی میں بچہ جب بولنا اور چلنا شروع کرتا ہے تو وہ ’دلاں تیر بجا‘ پر جھومتا ہے۔ شیدی کہیں بھی ہو وہ پیپلز پارٹی کا شیدائی ہوگا۔
اپنی نامزدگی کو وہ شیدی کمیونٹی کی پہچان قرار دیتی ہیں، بقول ان کے یہ پہچان بلاول بھٹو نے دی ہے ورنہ شیدیوں کو کہیں شمار نہیں یا جاتا تھا، کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ پاکستان میں شیدی بھی رہتے ہیں۔
’جس طرح کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا، بلاول بھٹو نے ہمیں دریافت کیا ہے۔‘
تنزیلہ شیدی
Image captionتنزیلہ شیدی روزانہ اپنے پڑوس کے میدان میں بیٹھک لگاتی ہیں۔

شیدیوں کی برصغیر منتقلی

برصغیر میں افریقہ سے سیاہ فام غلام لائے جاتے تھے، برطانوی پارلیمنٹ نے 1833 میں غلامی کے خاتمے کا قانون پاس کیا تھا، دس سال بعد انڈیا میں بھی پابندی عائد ہوئی اور سیاہ فام غلاموں کو آزادی ملی۔ تنزیلہ شیدی کا کہنا ہے کہ یورپ میں پابندی کے بعد تنزانیہ سے سیاہ فام غلاموں کو بحری جہازوں میں دیگر علاقوں میں منتقل کیا جاتا تھا، آج کے پاکستان میں ان کی آبادیاں سمندر کے قریبی علاقوں میں نظر ائیں گی۔

شناخت کی تلاش

شیدی کمیونٹی کے استاد صدیق مسافر شیدی نے اپنی کتاب غلامی اور آزادی کے عبرت ناک نظارے میں شیدیوں کی کھوج لگانے کی کوشش کی، انہیں ان کے والد گلاب نے بتایا تھا کہ وہ کہاں سے اور کیسے یہاں پہنچے۔ تنزیلہ کے مطابق ان کے والد عبدالباری ایڈووکیٹ نے کوشش کی تھی کہ وہ پتہ لگا سکیں کہ وہ کہاں سے آئے تھے آخر میں تمام اس بات پر متفق تھے کہ انہیں تنزانیا سے لایا گیا تھا۔

افریقہ سے رشتہ

تنزیلا کے خاندان نے خود کو آبائی دیس افریقہ سے جوڑے رکھا ہے۔
ان کے والد سندھ یونیورسٹی جاکر افریقی طلبہ سے ملتے تھے جبکہ بعد میں ان کی بڑی بہن کی شادی تنزانیا کے پونزا قبیلے میں کی گئی۔
اس شادی پر شیدی محلے میں پاکستانی شیدی اور افریقن شیدی موگو ( ڈرم بیٹ) پر اس طرح ڈانس کر رہے تھے کہ شناخت کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ پاکستان کے شیدی کونسے ہیں اور افریقی شیدی کونسے ہیں۔ اسی طرح دوسری بہن کی شادی گھانا میں سپونگ قبیلے میں ہوئی۔
تنزیلہ شیدی
Image captionجس طرح کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا بلاول بھٹو نے ہمیں دریافت کیا ہے: تنزیلہ شیدی

امتیازی سلوک

سندھ میں شیدی کمیونٹی معاشی اور سماجی پسماندگی اور امتیازی سلوک کا شکار رہی ہے، تنزیلہ شیدی کے مطابق انہیں معاشرے میں مقام لینے میں بہت وقت لگ گیا باوجود اس کے وہ تین صدیوں سے اس کے لیے کوشش کرتے رہے، ہم مہذب بھی ہوگئے، تعلیم بھی آگئی کچھ لوگ ڈاکٹر، انجنیئر اور استاد بھی بن گئے، ہم نے خود کو بدل لیا۔
’ہم جو چند سکوں کے عیوض فروخت ہوکر آئے تھے، انہوں نے اپنے آپ کو تو بدل لیا، زمین نے پیار بھی دے دیا۔ لیکن کچھ خاص طبقے کی سوچ بدل نہ سکی، شیدی ہماری لیے گالی بنت جارہی تھی ہمیں اس طرح سے بلایا جاتا تھا جیسے شیدی ہماری ذات یا شناخت نہیں گالی ہو۔

پیپلزپارٹی میں بغاوت

تنزیلہ شیدی کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرس ہیں، وہ ماتلی سے کونسلر رہی ہیں جبکہ بعد میں انہیں میونسپل چیئرمین کے لیے نامزد کیا گیا، بقول تنزیلہ جب وہ کونسلر منتخب ہوئیں تو یہ کہا گیا کہ یہ ووٹ اسی طرف جائے گا جہاں طاقت کا مرکز ہوگا کیونکہ یہ ایک شیدی کا ووٹ ہے۔
’جب مجھے میونسپل چیئرپرسن کے لیے نامزد کیا گیا تو ایک مخصوص سوچ کا یہ کہنا تھا یہ عورتیں جو صرف برتن مانجھنے اور جھاڑو دینے کے لیے ہیں یہ چیئرپرسن بنیں گی یہ تو ہمارے غلام رہے ہیں ہماری قیادت کیسے کرسکتے ہیں۔‘
پاکستان پیپلزپارٹی نے اس باغی چیئرمین سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور تنزیلہ کا ساتھ دیا، تنزیلہ کہتی ہیں کہ اس سوچ سے لڑنا ان کے لیے بڑا چیلینج تھا کیونکہ کسی سے دست و گریباں ہوکر لڑنا آسان ہوتا ہے آپ اسلحہ خرید سکتے ہیں لیکن سوچ سے لڑنا بہت مشکل ہے۔
شیدی
Image captionسندھ میں شیدی کمیونٹی معاشی اور سماجی پسماندگی اور امتیازی سلوک کا شکار رہی ہے۔
تنزیلہ شیدی روزانہ اپنے پڑوس کے میدان میں بیٹھک لگاتی ہیں، انہیں اپنے ہی کمیونٹی کے لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ شہر کی مرکزی سڑک اور دوسرے محلوں کی گلیوں کے بارے میں منصوبہ بندی کرو، کسی کو یہ موقعہ نہ دینا کہ صرف شیدی محلے میں ترقی ہوئی۔
تنزیلہ کہتی ہیں کہ وہ اس وقت خود پر ذمہ داری کا بوجھ محسوس کر رہی ہیں جب مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس، شیدی کمیونٹی اور خواتین سب سوچتے ہیں کہ میں ان میں سے ہوں اس وجہ سے ان کے ساتھ لوگوں کی کئی امیدیں وابستہ ہیں۔
’شیدی اس وقت ہمیں پکارا جاتا تھا جب ہماری توہین کرنی ہوتی تھی میرا یہ خواب ہے کہ جب شیدی کہہ کر پکارا جائے تو عزت ہو۔ کل جو ہماری نئی نسل آئے تو چار بچوں میں بیٹھے ہوئے کسی بچے کو شیدی کہہ کر بلایا جائے تو وہ احترام محسوس کرے وہ اپنی توہین محسوس نہ کرے۔‘

No comments:

Post a Comment