Source: https://www.bbc.com/urdu/entertainment-45137178
آریانہ اور امرینہ: گاتے ہوئے سبق یاد کرنے سے کوک سٹوڈیو تک
حال ہی میں پاکستان میں پہلی بار کیلاش سے تعلق رکھنے والی دو طالبات نے گلوکاری کے میدان میں قدم رکھا ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں موجود کیلاشی قبیلے کی آبادی چند ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ آریانہ اور امرینہ کا تعلق اسی قبیلے سے ہے۔ بی بی سی کی حمیرا کنول نے ان سے کیلاش کی وادی بمبوریت میں ملاقات کی۔ دونوں نے ان سے اپنی کہانی شیئر کی ہے۔
'سبق بھی گا گا کر پڑھتی تھی'
میرا نام آریانہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم میں نے پہلی بار کب گانا گایا تھا۔ مجھے بس یہ یاد ہے کہ میں تو نجانے کیوں سکول کی کتابوں میں لکھے سبق اور ہوم ورک کو بھی گا گا کر پڑھتی تھی۔ مجھے اچھا لگتا تھا بہت مزہ آتا تھا۔ گانا اور ڈانس تو ویسے بھی کیلاش کی ثقافت اور ہمارے مذہب کا حصہ ہے۔ میری پیدائش کیلاش کی سب سے بڑی وادی بمبوریت کے گاٶں کراکال میں ہوٸی۔
ہم اپنے ارد گرد شادی، فیسٹیول اور کسی کے مرنے پر گاتے ہیں اور یوں گانا ہماری خوشی اور غم دونوں میں ہمارے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔
مجھے اردو، پشتو، کیلاشی، گلگتی اور فارسی ان سب زبانوں کے گانے سننے ہمیشہ سے پسند رہے ہیں۔ میں جب تیسری کلاس میں تھی جب ایک بار ٹیچر نے آ کر ہم سب سے پوچھا کہ کون کون ملی نغمہ گانا چاہتا ہے تو میں نے جلدی سے ہاتھ کھڑا کیا۔
یوں میں نے گانے کا شوق پورا کرنا شروع کیا۔ پھر جب چھٹی جماعت میں جاتے وقت میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میں دوسرے بچوں کی طرح پڑھنے کے لیے لاہور جانا چاہتی ہوں تو ان کی اجازت مل گئی اور میں نے لاہور کے ایک نجی سکول لوسی گرلز ہائی سکول میں داخلہ لے لیا۔
’لاہور میں دل نہیں لگا‘
آٹھویں کلاس میں میں ایم ٹی انٹرنیشنل گرلز ہاٸی سکول میں چلی گٸی لیکن تین سال گزر جانے کے باوجود لاہور میں میرا دل نہیں لگتا تھا۔ وہاں ہم سب کیلاشی بچوں کے رہنے کے لیے ہماری ہی کمیونٹی کا ہوسٹل بھی تھا۔ لیکن وہاں مجھے کوٸی پسند نہیں کرتا تھا کوٸی دوست نہیں تھی۔ میں نے گھر واپسی کے لیے کہنا شروع کر دیا کہ مجھے یہاں رہنا ہی نہیں ہے۔ والدہ نے کہا کہ فاٸنل پیپر دے کر آؤ مگر میں نے بات نہیں مانی اور دسمبر کی چھٹیوں میں ہی ہمیشہ کے لیے گھر واپس آگٸی۔
ڈانٹ تو پڑی لیکن پھر بمبوریت کے ہاٸی سکول کے پرنسپل جاوید حیات نے مجھے کہا کہ آپ ہماری بہت اچھی بچی ہو ہر سال ہمارے سکول میں 14 اگست کو مقابلے میں حصہ لے کر ہمارے پروگرام کو پر رونق بناتی رہی ہو۔ پھر انھوں نے ہی بمبوریت کے ہائی سکول میں داخلہ لینے میں میری مدد کی۔
ہم نے پاریک سنا تو دیا لیکن پھر انتظار
پھر جب فروری کا مہینہ آیا تو ہمارے پڑوس سے آنٹی آٸیں اور امی سے کہا کہ میرے بیٹے کے کچھ دوست آئے ہوٸے ہیں۔ تم گھر آنا۔ میری بہن جو امی کے ساتھ گٸی ہوٸی تھیں جب واپس آئیں تو پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ وہاں کچھ لوگ آٸے ہوئے تھے اور عورتوں سے گانے سن رہے تھے۔
میں نے اپنی بہن سے کہا کہ تم نے انھیں بتانا تھا نا کہ مجھے بھی گانے کا بہت شوق ہے اور میں گانا چاہتی ہوں۔ مگر میری بہن نے انکار کر دیا۔ رات میں یہ سوچ کر سوٸی کہ کاش وہ صبح مجھے بھی بلا لیں۔
پھر جب صبح ہوٸی تو ہماری آنٹی دوبارہ آٸیں اور امی سے کہا کہ ساتھ کی وادی رمبور میں فوتگی ہو گٸی ہے۔ ایسے سوگ کے موقع پر اگر ہم گانا گانے گٸے تو اچھا نہیں لگے گا۔ ایسا کرتے ہیں بچیوں کو بھجوا دیتے ہیں۔ یہ سن کر میں بہت خوش ہوئی کیونکہ میں نے تو ویسے بھی ضرور ہی جانا تھا۔
میں جلدی سے امرینہ کے گھر گٸی اور اس سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ آؤ۔ ہم وہاں گٸے اور وہاں ہم نے اپنی زبان میں 'پاریک' گانا سنایا۔ پاریک ہمارا روایتی گانا ہے جو ممی کو بھی آتا ہے۔
وہیں ہمیں یہ پتہ چلا کہ یہ تو کوک سٹوڈیو والے لوگ ہیں۔ انھیں تو ہمارا گانا پسند آگیا اور پھر دوسرے ہی دن ہم نے وادی میں شوٹنگ بھی کی۔
یوں میرا بہت بڑا خواب پورا ہوا۔ میں جب بھی اپنی دوستوں سے کہا کرتی تھی کہ میں ایک دن سنگر بنوں گی تو سب ہنستی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہو گا ہر گانا گانے والا سنگر نہیں بن سکتا۔ مما بھی میری اس خواہش پر کبھی چپ کر جاتی تھیں اور کبھی کہتی تھیں پڑھاٸی پر توجہ دو۔ وہ تو خود بہت اچھا گاتی ہیں لیکن ہماری کیلاش کمیونٹی میں کبھی کسی نے اسے پیشے کے طور پر نہیں اپنایا۔
لاہور کے ہوسٹل میں گزرے تین سال کے دوران بھی میں یہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ میں کیسے کسی سٹوڈیو تک پہنچوں۔ میں ادھر کام کرنے والے ایک انکل سے پوچھتی رہتی تھی کہ جہاں گانا گاتے ہیں وہ سٹوڈیو کہاں ہوتے ہیں کیسے ہوتے ہیں۔ کوک کی بوتل کے ڈھکن پر لکھا نمبر تو بہت بار میں نے بھی پڑھا تھا میں اس پر میسج بھیجا کرتی رہتی تھی لیکن کبھی نہ جواب ملا اور نہ بلایا گیا۔
میں نے سوچا کہ شاید مجھ سے ہی رابطہ کرنے میں کوئی غلطی ہو رہی ہے۔ پھر میں نے کوشش کرنا بھی چھوڑ دی۔
لیکن سب جانتے تھے کہ گانا میرا سب سے پسندیدہ کام ہے اور ایکٹر بننا میرے بھائی کا خواب ہے۔ میں کچھ ہی دیر میں گانا لکھ کر اسے گا سکتی ہوں۔ ملی نغمے بھی لکھے کیلاشی گیت بھی اور سکول میں نعتیں بھی پڑھتی تھی مگر کوئی حوصلہ افزائی نہیں کرتا تھا۔
کوک سٹوڈیو کا گانا گانے کے بعد میں اس انتظار میں رہتی تھی کہ کب گانا ریلیز ہو گا۔ اسی دوران امتحان دیے اور نویں کلاس میں چلی گٸی۔
اور آخر انتظار ختم ہوا
وہ جولائی کا ایک دن تھا میں امرینہ کے بھائی کے ساتھ بیٹھی اسے یہی بتا رہی تھی کہ ہم نے گانا گایا ہے کہ اتنے میں میرے بھاٸی نے آواز دی کہ آریانہ ادھر آؤ تمھارا گانا ریلیز ہو گیا ہے۔ میں دوڑ کر امرینہ کے ماموں کے گھر گٸی جہاں وہ بیٹھی تھی۔ میں نے اس سے کہا کہ جلدی آؤ ہمارا گانا ریلیز ہو گیا ہے۔ وہ بھی دوڑی چلی آئی اور گاؤں کے گھروں میں جس جس نے میری آواز سنی تھی بھاگ کر چلا آیا۔ ہم سب نے گانا سنا اور جس جس کے پاس موبائل فون تھا اس نے فیس بک پر کمنٹس کیے اور لائیک کیا۔
پھر اگلے کئی دن تک میں یہی دیکھتی رہی کہ میرے گانے پر کتنے لاٸیکس اور کمنٹس آ چکے ہیں۔ ایک عجیب سی خوشی تھی جو میں بیان ہی نہیں کر سکتی تھی۔
بہت لوگوں نے پسند بھی کیا لیکن کمینٹس میں کچھ لوگ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ میں نے اپنا نام گانا گانے کے لیے فارسی گل سے بدل کر آریانہ رکھ دیا جو مجھے برا لگا کیونکہ نام تو میں دو سال پہلے ہی بدل چکی تھی۔ نام بدلنے کی وجہ یہ تھی کہ بچے مجھے فارسی فارسی کے نام سے چھیڑتے تھے اور میں خود بھی کوٸی اور نام رکھنا چاہتی تھی۔
پہلا گانا گانے پر ملنے والا بیس ہزار کا چیک میں نے امی کو دے دیا۔
’تم سب دوزخ میں جاٶ گے‘
اب مجھے آگے پڑھنا ہے۔ سنگر بننا تو میرا خواب ہے جو میں پورا کرنا چاہتی ہوں اس سب کے لیے میرا خاندان میرے ساتھ ہے لیکن میں چاہتی ہوں کہ اپنی کمیونٹی کے لیے بھی کچھ کروں۔ یہاں ابھی میرے گاٶں کے سکول میں وہ تمام سہویات موجود نہیں ہیں جو شہر میں ہیں جیسے ساٸنس کی لیب اور کمپیوٹر اور سپورٹس کی سہولیات۔
پھر ہمارا کلچر ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ یہاں آنے والے سیاح میں ہر ملک کے لوگ ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگوں سے ہمیں شکایت ہے۔ وہ ہمارے گھروں کے پاس سے گزرتے ہوٸے ہماری پرائیویسی کا خیال نہیں کرتے اور کبھی کچھ لوگ ہمارے مذہب کے بارے میں بولتے ہیں اور کہتے ہیں تم سب دوزخ میں جاؤ گے۔
یہ سب سن کر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔ میں سوچتی ہوں لوگ تو کیلاش کو پسند بھی کرتے ہیں تو پھر وہ ہمیں ایسے کیوں کہتے ہیں؟ میں اپنے کلچر کو محفوظ کرنا چاہتی ہوں۔
'گانا گانا تو بچپن سے آتا تھا لیکن ۔۔۔'
میرا نام امرینہ ہے۔ بمبوریت میں لوگ، میری سکول کی دوستیں سب مجھے کہتے ہیں کہ تم خوش قسمت ہو جو تمھیں گانا گانے کا موقع ملا۔ میں کہتی ہوں ہاں بالکل ہم خوش قسمت ہی تو ہیں۔
گانا گانا تو بچپن سے آتا تھا سب کے ساتھ مل کر تو خوب گایا ہے لیکن کبھی سوچا نہیں تھا کہ میں اس طرح گا سکوں گی۔ میں کبھی چترال سے آگے پاکستان کے کسی علاقے میں نہیں گٸی۔ ہاں ٹی وی پر سب کچھ دیکھا ہے۔
میں نے جب امی کو بتایا کہ کوک سٹوڈیو والے میرا گانا ریکارڈ کریں گے تو امی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کون ہیں۔ جب میرے کزن پروانہ جان نے امی کو ان کے بارے میں تفصیل سے بتایا تو وہ مان گٸیں۔ پہلے پہلے مجھے عجیب لگا شرم آ رہی تھی میں نے کبھی ایسے گایا نہیں تھا۔
آریانہ نے کہا گھبراٶ نہیں میں آپ کے ساتھ ہوں۔ مگر میں نے تب ہی سوچا تھا کہ گانا تو بہت مشہور ہو جاٸے گا۔
جب آریانہ نے مجھے بتایا کہ گانا ریلیز ہو گیا ہے تو میں خوشی سے بھاگ کر آٸی اور راستے میں گر بھی گٸی۔ سبھی کیلاشی بہت خوش ہو گٸے۔ ہم دو بہنیں اور تین بھاٸی ہیں۔ میرا بڑا بھاٸی کہنے لگا امرینہ تم تو مشہور ہو گٸی ہو۔ پھر فیسٹیول پر کچھ لوگ آٸے جنھوں نے ہم سے بات کی مگر امی کہتی ہیں کہ کسی سے بات نہیں کرو انھیں ڈر لگتا ہے۔
’ہم ویلکم کرتے ہیں لیکن رسم و رواج کا خیال رکھیں‘
یہاں ہمارے بمبوریت تو ایسا نہیں ہوا لیکن اوپر ایک گاٶں شخہ نندے ہے جہاں میں پڑھتی تھی وہاں سکول کے لڑکے اور لڑکیاں ہمیں کہتے تھے تم مسلمان ہو جاٶ۔ اور ایک بار انھوں نے ہمیں پتھر مارے تھے۔ ہم روتے ہوٸے گھر آ ٸے جس کے بعد ہم نے سکول ہی بدل لیا۔
یہاں وادی میں ہمیں اب سب بچے' پاریک پاریک' کہہ کر بلاتے ہیں اور ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ لیکن یہاں سیر کے لیے آنے والے کچھ لوگ بہت عجیب ہوتے ہیں کبھی فوٹو بناتے ہیں اور کبھی آوازیں دیتے ہیں۔ یہ اچھی بات نہیں۔
آپ سب یہاں آئیں ہم ویلکم کرتے ہیں لیکن یہاں کے رسم و رواج کا خیال ضرور رکھیں کیونکہ جب ہم آپ کے علاقے میں جاتے ہیں تو آپ کے ماحول کے مطابق ہی رہتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment