Source: https://www.bbc.com/urdu/world-45233156
صدر ٹرمپ کا مواخذہ: کیا امریکی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا ہوا ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُن خواتین کو رقوم ادا کرنے کے معاملے کے بعد جن کے ساتھ ان کے تعلقات رہے ہیں ان کے مواخذے سے متعلق چہ مگوئیاں پھر سے شروع ہو گئی ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق ان کو دوران صدراتِ تو سزا نہیں سنائی جا سکتی لہٰذا انہیں ہٹانے کا واحد راستہ ان کا مواخذہ ہے۔
لیکن یہ ہوگا کیسے؟ اور ماضی میں کس کس کا مواخذہ ہوا ہے؟ اس کا جواب شاید آپ کو چونکا دے۔
اسی بارے میں
مواخذہ ہے کیا؟
اس معاملے میں ’مواخذے‘ کا مطلب ہے کہ صدر کے خلاف الزامات کانگرس میں لائیں جائیں جو ان کے خلاف مقدمے کی بنیاد بنیں گے۔
امریکی آئین کے مطابق ’صدر کو مواخذے کے ذریعے عہدے سے اس صورت میں ہٹایا جا سکتا ہے جب انہیں بغاوت، رشوت ستانی، کسی بڑے جرم یا بد عملی کی وجہ سے سزا دینا درکار ہو۔‘
مواخذہ کی کارروائی ایوانِ نمائندگان سے شروع ہوتی ہے اور اس کی منظوری کے لیے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اس کا مقدمہ سینیٹ میں چلتا ہے۔
یہاں صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے اور امریکی تاریخ میں یہ سنگ میل کبھی عبور نہیں ہوا۔
کس کا مواخذہ کیا گیا؟
اگرچہ کئی مواقع پر مواخذے کی دھمکیاں ملتی رہیں لیکن آج تک دراصل صرف دو امریکی صدور کا مواخذہ ہوا۔
ماضی قریب میں صدر بل کلنٹن جو کہ بیالیسویں امریکی صدر تھے جن کا انصاف کی راہ میں حائل ہونے، مونیکا لیونسکی کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں جھوٹ بولنے اور مبینہ طور پر انہیں بھی جھوٹ بولنے پر اکسانے کے الزام میں مواخذہ ہوا۔
ایوان نے پہلے الزام پر 228 میں سے 206 ووٹوں کے ساتھ مواخذے کی حمایت کی جبکہ دوسرے الزام پر 221 میں سے 212 لوگوں نے حمایت کی۔
یہ بھی خیال رہے کہ دسمبر 1998 میں بل کلنٹن کی بطور صدر توثیق کی شرح 72 فیصد تھی۔
تاہم جب 1999 میں یہ معاملہ سینیٹ تک پہنچا تو حکم نامہ کی منظوری کے لیے دو تہائی حمایت حاصل نہ کر سکا۔ اس وقت ایک تجزیے میں بی بی سی نے لکھا ’صدر کو ہٹانے کی اپنی بے قراری میں انھوں نے یہ سوچنا ترک نہیں کیا کہ کیا ان الزامات کو ثابت کیا جا سکے گا؟‘
دوسرا کون تھا؟ کوئی اندازہ: یہ رچرڈ نکسن نہیں تھے
دراصل مواخذے کا سامنا کرنے والے دوسرے صدر اینڈریو جانسن تھے۔ انھوں نے 1865 کے بعد چار سال تک حکومت کی۔ وہ ملک کے 17ویں حکمران تھے۔
سنہ 1868 میں میں ان کا مواخدہ کیا گیا اور یہ کارروائی ان کے اپنے وزیرِ جنگ ایڈوِن سینٹن کو عہدے سے ہٹانے کے بعد عمل میں آئی۔ وہ صدر کی پالیسیز سے متفق نہیں تھے۔
اُس وقت ایڈوِن سینٹن اور دورِ حاضر میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کی صدر ٹرمپ سے اختلاف کے معاملے کی مماثلت امریکی اخباروں کی زینت بنی۔
اگرچہ کلنٹن کی نسبت اینڈریو جانن بال بال بچے، ان کے خلاف دو تہائی اکثریت محض ایک ووٹ سے رہ گئی اور اس کی وجہ ایوان میں ریپبلکنز کی تعداد تھی۔
بعد ازاں آئیوا کے سینیٹر جیمز گرائمز نے کہا ’میں صرف ایک ناقابلِ قبول صدر سے پیچھا چھڑانے کے لیے پرامن طریقے سے چلنے والے آئینی عمل کو تباہ کرنے سے متفق نہیں ہوسکتا۔‘
تو کیا صدر ٹرمپ کا مواخذہ ہو پائے گا؟
ایک نظریے میں ہاں! لا فیئر بلاگ کے مصنفوں کے مطابق تکنیکی طور پر ان کے خلاف امریکی آئین کے ’بقا، تحفظ، اور دفاع‘ کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کا الزام عائد ہوتا ہے۔
لیکن عملی طور پر ایسا کرنا شاید آسان نہیں۔
جیسا کے شمالی امریکہ میں بی بی سی کے نامہ نگار اینتھونی زرچر نے نشاندہی کی کہ ’اگر ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹس کا اختیار ہوتا تو اب تک مواخذے کی دستاویز پر کام جاری ہوتا۔‘
لیکن در حقیقیت ایسا نہیں ہے۔ ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ دونوں پر ہی رپبلکنز کا اختیار ہے۔
رپبلکنز کی ایک بڑی تعداد صدر ٹرمپ کی وفادار ہے اور رواں ماہ ہی پیو کے ایک سروے کے مطابق ان کی توثیق کی شرح بھی مستحکم ہے۔
یقیناً لوگوں کی توقعات بھی کافی نمایاں ہیں جیسے کہ جان مکینن کے خیال میں صدر ٹرمپ سے متعلق سکینڈلز ایسے ہی ہیں جیسے کہ واٹر گیٹ بحران تھا۔
اس سب کے دوران کئی رپبلکنز ایسے ہیں جو اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کی پرواہ نہیں کریں گے تاہم نومبر میں آنے والے وسط مدتی انتخابات کے پیش نظر بعض رپبلکنز کو یہ خدشات ضرور ہوں گے کہ صدر ٹرمپ سے وابستگی انہیں نقصان نہ پہنچائے۔
اور آخری بات یہ کہ رچرڈ نکسن مواخذے سے کیسے بچ گئے؟
انھوں نے وہی کیا جو ہر ذی شعور انسان اس وقت کرتا ہے جب اسے علم کو کہ اس کے گرد پھندا کسا جا چکا ہے۔
وہ مستعفی ہو گئے تھے۔
No comments:
Post a Comment