Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-45141362
انڈیا میں پیدل چلنے والے لاکھوں یاتری کہاں جاتے ہیں؟
ہر سال نارنجی لباس میں ملبوس مردوں اور عورتوں کی بڑی تعداد شمالی انڈیا پہنچتی ہے جہاں وہ ایک ڈنڈے پر مٹکے لیے سڑکوں پر چلتے ہیں۔
یہ افراد کنوریاس ، یعنی وہ ہندو عبادت گزار ہیں جو ہر سال دریائے گنگا سے پانی جمع کرنے کی غرض سے زیارت کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ہندو بھگوان شِیوا نے ایک دفعہ زہر پی لیا تھا جس سے وہ نیلے پڑ گئے لیکن دریائے گنگا کا پانی پینے سے وہ صحت یاب ہو گئے۔ اس واقعے کی یاد منانے کی خاطر کنوریاس دریائے گنگا سے پانی جمع کر کے ملک بھر میں مختلف مندروں میں جاتے ہیں جو شیوا بھگوان کے نام سے منسوب ہیں۔
ان کا ایمان ہے کہ یہ متبرک پانی منفی خیالات کو ختم کرتا ہے اور پانی پلانے والے کو شیوا بھگوان سے قربت دلاتا ہے۔
ان عبادت گزاروں کا نام ’کنوریاس‘ اسی عمل سے نکلا ہے جس میں وہ گنگا سے پانی جمع کرتے ہیں اور اسے کنور یاترا کہا جاتا ہے۔ ہندی زبان میں کنور کا مطلب کھمبا ہے اور یاترا کا مطلب سفر۔
یہ ہندو یاتری جو سفر اختیار کرتے ہیں اس میں وہ انڈیا کی دو شمالی ریاستوں سے گزرتے ہیں اور مختلف مقدس مقامات پر رکتے ہوئے آتے ہیں جو دریائے گنگا کے کنارے قائم ہیں جیسے گنگوتری، ہری دوار، رشی کیش (اترکھنڈ) اور ریاست بہار میں سلطان گنج میں بھی یہ یاتری رکتے ہیں۔
ان یاتریوں میں سے چند ہمالیہ کے دامن میں قائم گومکھ قصبے کا بھی دورہ کرتے ہیں جہاں سے دریائے گنگا کا آغاز ہوتا ہے۔
اس زیارت کا آغاز عمومی طور پر مون سون کے موسم میں ہوتا ہے جب انڈیا کے بیشتر حصوں میں بارشیں ہو رہی ہوتی ہیں۔
کئی یاتری ہزاروں کلومیٹر کا سفر ننگے پاؤں کرتے ہیں جبکہ دیگر اپنی گاڑیوں اور سائیکلوں پر سفر کرتے ہیں۔
سستانے کے لیے یہ یاتری حکومت کی جانب سے قائم کیمپوں میں قیام کرتے ہیں جو ان کے راستے میں جگہ جگہ بنائے گئے ہوتے ہیں۔
زیارت کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن پہلے اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ 80 کی دہائی میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد سے بڑھتے بڑھتے اب لاکھوں لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں۔
یاتریوں کے کئی راستے ملک کے دارالحکومت نئی دہلی سے گزرتے ہوئے جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔
کئی لوگ ان یاتریوں کو مصیبت کا باعث قرار دیتے ہیں۔
اکثر اوقات ان یاتریوں کو راستہ دینے کے لیے سڑکیں گاڑیوں کے لیے بند کر دی جاتی ہیں اور حالیہ برسوں میں ان یاتریوں پر ہنگامے کرنے کا بھی الزام لگایا جاتا رہا ہے۔
اس ماہ کے شروع میں یاتریوں میں سے چند لوگوں نے ایک گاڑی کو اس وقت آگ لگا دی جب ان کی گاڑی کے مالک سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔
ان یاتریوں میں سے بیشتر کی عمریں کم ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے ان کے رویے میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔
اب یہ بڑے گروہوں کی شکل میں چلتے ہیں اور اس قافلے میں ٹرک، سائیکلیں شامل ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی بالی وڈ کی موسیقی بھی بج رہی ہوتی ہے۔
۔
Good.
ReplyDeletePakistani Celebrities News & Gossip
Team https://hamarigossip.com