Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46177867
BBCShe#: سندھ کی لڑکیاں بےخوف ہو کر بات کر رہی ہیں
کوئٹہ کی سرد فضاؤں سے سفر کر کے ہم سندھ پہنچے جہاں بی بی سی شی کی دوسری منزل لاڑکانہ شہر میں تھی۔ کراچی سے تقریباً ساڑھے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر اندرون سندھ کا یہ شہر کئی دہائیوں تک پاکستان کی سیاست کا طاقتور مرکز رہا ہے۔
اندرون سندھ سفر کرتے ہوئے جگہ جگہ غربت اور پسماندگی واضح نظر آتی ہیں اور لاڑکانہ بھی کچھ مختلف نہیں۔
شہر کے اندر کوئی بڑا لینڈ مارک بھی نہیں۔ بس ہر طرف غلاظت ہی غلاظت ہے تاہم ہر دوسری عمارت اور پارک بھٹو خاندان کے افراد کے نام سے منسوب ہے۔
لاڑکانہ کی سب سے بڑی شناخت شہر سے آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر گڑھی خدا بخش میں تعمیر کیا گیا بھٹو خاندان کا مزار ہے۔ یہ عمارت دیکھنے میں ایک شاہکار ہے۔ اس کے طرز تعمیر میں سندھ کے صوفی تمدن کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور گھپ اندھیرے میں بھی اس کے گول گنبد موتیوں کی طرح دمکتے ہیں۔
گڑھی خدا بخش بھی سندھ کے اندر صوفی درباروں کی طرح ایک مزار بن چکا ہے۔ جہاں دن رات چاہنے والوں کا تانتا بندھا رہیتا ہے۔
لاڑکانہ میں بی بی سی شی کا پڑاؤ شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ہوا جہاں تقریباً 50 طالبات نے اس بحث میں حصہ لیا کہ سندھ کی عورتوں کے وہ کون سے مسائل ہیں جو میڈیا پر اجاگر کیے جانے چاہییں۔
اس مباحثے کے دوران سب سے زیادہ لڑکیوں نے سندھ کی عورتوں کی ذہنی اور جسمانی صحت اور تولیدی حقوق کے بارے میں بات کی۔ پاکستانی معاشرے میں عورتوں کی ماہواری جیسے معاملات پر بات کرنا قابل شرم سمجھا جاتا ہے لیکن لاڑکانہ میں جب طالبات نے کھل کر اس معاملے پر گفتگو کی تو یہ میرے لیے حیرت انگیز تھا۔
لڑکیوں کا کہنا تھا کہ سندھ میں بہت س عورتوں کو ماہواری سے متعلق کوئی پیچیدگی ہو تو وہ زندگی بھر تکلیف کاٹتی ہیں لیکن انھیں اپنی تکلیف کو بیان تک کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ چھاتی کے سرطان کے بارے میں بات کرنا شرمناک سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی غیر شادی شدہ لڑکی گائناکالوجسٹ کے پاس چلی جائے تو اس کی اور اس کے خاندان زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے۔
ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ان مسئلوں پر بات کرے تو کہا جاتا ہے تم بےشرم ہو، ایسی بات کرنا ہمارے مذہب اور روایتوں کے خلاف ہے۔ عورتوں کی صحت گئی بھاڑ میں۔
لڑکیوں کا کہنا تھا کہ صحت کے مسائل اور خاندان کے مردوں کا ناروا سلوک سندھ میں بہت سی عورتوں کو ذہنی امراض میں مبتلا کر رہے ہیں لیکن جہاں جسمانی تکلیف کا علاج نہیں وہاں ذہنی مرض کی پروا کسے ہے۔
کندھ کوٹ کی ایک طالبہ نے بتایا کہ ان کے علاقے میں عورتوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، کم عمری کی شادیاں عام ہیں، اور پھر اگر عورت بیٹا پیدا نہ کر سکے تو شوہر دوسری اور تیسری شادی پر آمادہ رہیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حمل کے دوران یہ پتہ چلے کہ عورت کے پیٹ میں بیٹی ہے تو اسے ایک طرف پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کی خوراک اور علاج پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
بہت سی لڑکیوں نے سندھ کی عورتوں میں غدائی قلت کا معاملہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ تھر کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں سینکڑوں خواتین دوران حمل اور دوران زچگی غذائی کمی سے موت کا شکار ہو چکی ہیں۔
لڑکیوں کا کہنا تھا کہ سندھ میں ہزاروں عورتوں کو صرف پردے کی وجہ سے بچوں کی پیدائش کے لیے ہسپتالوں میں نہیں لے جایا جاتا، بھلے وہ اس عمل کے دوران جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھو بیٹھیں۔
طالبات نے یہ بھی بتایا کہ سندھ میں ہزاروں خواتین مردوں کے تشدد کے باعث ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار ہیں۔ ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ باہر ملنے والی ناکامیوں اور پریشانیوں کا سارا غصہ گھر کی عورت پر ہی نکالا جاتا ہے۔
ایک ہندو طالبہ نے سندھ میں ہندوں لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب کا مسئلہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندو لڑکیوں کو مسلمان کیے جانے کے واقعات کے بعد ان کے خاندانوں میں لڑکیوں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، اور ہندو والدین اپنی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول اور آزادی سے باہر آنے جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔
ایک اور طالبہ کا موقف تھا کہ پاکستان میں جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ بچوں سے زیادتی کے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
کچھ طالبات نے تجویز دی کہ میڈیا کو عورتوں کو جسمانی تشدد سے محفوظ رہنے کے بارے میں طریقے بتانے چاہییں اور بچوں کو ’گڈ ٹچ‘ اور ’بیڈ ٹچ‘ کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے۔
لاڑکانہ کی طالبات نے صنفی تفریق عورتوں کو ان کی زندگی گزارنے کے ڈھنگ کی وجہ سے ’اچھی‘ اور ’بری‘ عورت کے القاب سے نوازنے، سڑکوں، درسگاہوں، کام کرنے کی جگہوں اور سوشل میڈیا پر ہراساں کیے جانے کے بارے میں بھی بات کی۔
لڑکیوں کا کہنا تھا کہ خاندانی دباؤ، ’لوگ کیا کہیں گے‘ کا عذر اور والدین کی بچیوں کو اپنی رائے کے اظہار کے مواقع نہ دینے کی وجہ سے معاشرے سے عورت مخالف روایات خاتمہ نہیں ہو سکا۔
اس مباحثے نے سندھ کی عورتوں کے بارے میں میرے ذہن میں بنے عکس کو ملیا میٹ کر دیا۔ ایک بات مجھ پر واضح ہو رہی تھی کہ بلوچستان ہو یا سندھ، نوجوان لڑکیاں بے دھڑک ہوکر بات کر رہی ہیں۔ شاید غصہ انسان کو بےخوف بنا دیتا ہے۔
No comments:
Post a Comment