Saturday, 17 November 2018

CHINA " مخبرات " IS LIKE ARAB WORLD YOU ARE BLIND, DEAF, ANDD DUMB MORE.

ACTION RESEARCH FORUM: CHINA: "GUM BEY" IS HOAX, SO THEIR GAME PLAN SEA PACK CHINESE ROBOTIC CUTURE INTERACTING WITH PAKISTAN FREEMIND. PAKISTANI ARE CAUTIOUS OF YAJOOU MAJOO GREAT WALL

Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-46093672

میرے جمعہ پڑھنے کی سزا ’گل بانو کو ملی‘






اویغور خاتونتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionکاشغر کی ایک نوجوان اویغور خاتون (فائل فوٹو)

ایک اطلاع کے مطابق چین کے صوبہ سنکیانگ میں حالیہ دنوں میں منظر عام پر آنے والے ’ری ایجوکیشن سنٹرز‘ میں دس لاکھ سے زائد اویغور مسلمانوں کو یہ کہہ کر رکھا گیا ہے کہ انھیں تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔
چینی حکام کس بِنا پر فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو ان کیمپوں میں لایا جائے؟
ہم نے یہ سوال ایسے پاکستانی شہریوں کے سامنے رکھا جن کی بیویاں ان کیمپوں میں بند ہیں۔ انھوں نے جو کہانیاں سنائیں ان سے وہ وجوہات ظاہر ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر لوگوں کو پکڑا جاتا ہے۔
٭ ان کہانیوں میں فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں کیوں کہ ان لوگوں کو خطرہ ہے کہ ان کی شناخت ظاہر ہونے سے ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
سنکیانگ کے کیمپوں کے بارے میں بی بی سی کی خصوصی سیریز سے مزید

شاہد زمان

میں نے گل بانو نامی ایک خاتون کے ساتھ مل کر چین میں کنسلٹنٹ کا کاروبار شروع کیا۔ اس کا تعلق صوبہ سنکیانگ کے مسلمان خاندان سے ہے۔
ہم پاکستانی تاجروں کو ویزا سے لے کر مارکیٹ، سپلائر، خریداری اور ترسیل کی خدمات فراہم کی جاتی تھیں۔ یہ کاروبار کافی کامیاب ثابت ہوا۔
2016 کے آخر میں ہمارے ایک کاہگ نے ایک بڑا آرڈر دیا۔ میں نے جب اس بارے میں گل بانو سے بات کی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ صوبہ سنکیانگ میں اپنے آبائی علاقے میں ہے۔ میں نے اس سے پہلے چین کے تمام سفر ہوائی سفر کیے تھے۔ یہ سن کر میں نے اس سے کہا کہ میں سڑک کے راستے آتا ہوں اس طرح وہ علاقہ بھی دیکھ لوں گا اور دونوں مل کر اس پروجیکٹ کی بھی تیاری کر لیں گے۔
مجھے یاد ہے کہ اس نے مجھے روکنا چاہا مگر میں نہیں رکا اور پھر ایک روز میں سڑک کے ذریعے سے سفر کرتے ہوئے اس علاقے تک پہنچ گیا، جہاں پر اس نے میرے قیام کے لیے ایک ہوٹل کا انتظام کر رکھا تھا۔
مجھے اس علاقے میں پہنچ کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہاں کی اکثریت مسلمان ہے اور کچھ مساجد بھی نظر آئیں۔ میں وہاں پر ایک رات رکا تو دوسرے دن گل بانو نے مجھ سے کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ میں اس علاقے میں زیادہ دن رکوں اس لیے مجھے چاہیے کہ میں آج ہی چلا جاؤں اور وہ بعد میں جلد پہنچ جائے گی۔
میں نے اس کی ایک نہ سنی اور کہا کہ دو تین دن میں علاقہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ میری ضد کے آگے بے بس ہو گئی۔ اس نے مجھے منع کیا تھا کہ میں مسجد میں نماز پڑھنے نہ جاؤں۔
میں نے ایک بار پھر اس کی ہدایت پر عمل نہیں کیا اور جمعے کی نماز مسجد میں پڑھی، علاقہ دیکھا اور پھر واپس بیجنگ چلا گیا۔ گل بانو بھی تین دن بعد بیجنگ پہنچ گئی۔
وہ کچھ پریشان تھی۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی کہ سکیورٹی حکام نے اس سے میرے متعلق پوچھ گچھ کی ہے۔ میں اس سے پہلے صوبہ سنکیانگ کے حالات کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ اس نے مجھے تفصیل سے بتایا تو میں بھی پریشان ہو گیا اور مجھے افسوس ہوا۔ تاہم اس نے مجھے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہو گا۔
ہم دونوں نے اپنا پروجیکٹ پورا کیا۔ کاہگ مکمل طور پر مطمئن ہوا اور ایک بڑی رقم ہمارے حصے میں آ گئی۔ میں گل بانو کے ساتھ اچھا وقت گزار کر پاکستان چلا آیا۔
2016 کے آخر میں میں پاکستان آیا ہوا تھا کہ یہاں سے گل بانو سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ جب کافی دن تک اس سے رابطہ نہیں ہوا تو میں نے اپنے مشترکہ جاننے والوں سے رابطے کیے۔ حیرت انگیز طور پر کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ گل بانو کہاں ہے۔
یہ بہت پریشانی کی بات تھی۔ میرے لیے دہری پریشانی تھی کہ اس کے بغیر میرا کاروبار چلنا ممکن نہیں تھا اور وہ میری گرل فرینڈ بھی تھی۔





اویغور خواتینتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاویغور خواتین (فائل فوٹو)

اس کے بعد جب میں نے چین جانے کی کوشش کی تو مجھے بیجنگ ایئر پورٹ پر بتایا گیا کہ میں چین میں داخل نہیں ہو سکتا۔ میں امیگریشن حکام کو بتایا کہ میں چین میں پڑھتا رہا ہوں، میرے پاس ویزا ہے اور میں کئی مرتبہ آ جا چکا ہوں، مگر انھوں نے میری ایک نہ سنی اور مجھے کہا کہ مجھے پہلی دستیاب پرواز سے ملک بدر کر دیا جائے گا کیوںکہ مجھے چین میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔
ایسے بہت سے لوگوں سے میری بات ہوئی۔ ان کو جب میں نے اپنے ساتھ گزرنے والے حالات بتائے تو ان کا کہنا تھا کہ میرے جمعے کی نماز مسجد میں پڑھنے کے سبب سے گل بانو زیر عتاب آئی ہے۔ وہ کب آئے گی اور رہا ہو کر میرے ساتھ رابطہ کرے گی یا نہیں، مجھے کچھ پتہ نہیں، مگر میں اس کو اکثر بہت شدت سے یاد کرتا ہوں۔

محمد جمیل

میرا تعلق صوبہ سندھ کے خانہ بدوش قبیلے سے ہے۔ ہمارا کاروبار سانپ، بچھو، کچھوے وغیرہ پکڑنے کا ہے جو پاکستان میں غیر قانونی ہے مگر ہمارے لیے کبھی زیادہ مسائل پیدا نہیں ہوئے۔
میں نے یہی جانور اور ان کے اعضا چین سپلائی کرنے کا کام شروع کر دیا اور چین آنے جانے لگا۔
ایک دوست نے چینی لڑکی کے ساتھ شادی کے فوائد بتائے تو میں فوراً تیار ہو گیا اور 2016 میں میری شادی ایک غیر مسلم چینی خاتون سے ہو گئی۔ میں نے اسے بیجنگ میں گھر بھی دلا دیا۔
میری بیوی میرے کاروبار کے لیے بھی بہت اچھی شراکت کار ثابت ہوئی اور اب میرا زیادہ وقت بیجنگ میں گزرتا تھا۔ 2017 میں میری بیوی نے پاکستان دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر میں اس کو لے کر اسلام آباد پہنچ گیا۔
میرے گھر والے بھی میری بیوی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔ چند دن رہنے کے بعد ہم دونوں واپس بیجنگ پہنچ گئے۔
یہ 2017 کے آخری دن تھے۔ میری بیوی حاملہ ہو چکی تھی۔ ہماری زندگی میں کوئی مسائل نہیں تھے۔ مگر مجھے ایک رات چین کے سکیورٹی حکام میرے گھر پر مجھ سے میرا پاسپورٹ طلب کیا اور پھر میری بیوی کے کاغذات دیکھے اور اس کو ساتھ چلنے کو کہا۔ میں نے وجہ پوچھنا چاہی تو جواب ملا کہ جلد واپس آ جائے گی، اس کو لازمی تربیت کی ضرورت ہے۔
مجھے انھوں نے حکم دیا کہ یہ گھر میری بیوی کے نام ہے، اس لیے میں اسے فوری طور پر خالی کر دوں۔
میں اس صورتحال سے بوکھلا گیا۔ اپنے اسی دوست سے رابطہ کیا تو اس نے ایک ایسی خبر سنائی جس سے میرے ہوش اڑ گئے۔
اس نے کہا کہ اس کی بیوی کو بھی چند دن پہلے سکیورٹی حکام یہی کہہ کر اپنے ساتھ لے گئے تھے کہ اس کو بھی تربیت کی ضرورت ہے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ کیا کروں، کیونکہ میں بہت زیادہ لوگوں کو بھی نہیں جانتا تھا۔





چینی مسلمان خواتینتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionچینی مسلمان خواتین (فائل فوٹو)

آخر دوست کے پاس گیا۔ وہ کئی لوگوں کو جانتا تھا، ہم سب کے پاس گئے۔ حکام کے پاس بھی گیا اور ان کو بتایا کہ میرا اور میری بیوی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں نے ان کے سامنے اسلام میں حرام اشیا بھی استعمال کیں مگر ان کا ایک ہی جواب تھا کہ انتظار کرو۔
کئی ماہ چین میں رہنے کے بعد واپس پاکستان آ چکا ہوں۔ میرا چین کا ویزا ابھی بھی موجود ہے مگر چین جانے کا دل نہیں چاہتا کیونکہ نہ تو میرا اور نہ ہی میری بیوی کا اسلام سے کوئی تعلق تھا پھر بھی پتہ نہیں اس کو کس بات کی سزا دی گئی ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ میری حاملہ بیوی کا کیا بنا۔

جواد حسین

میرا تعلق پنجاب کے شہر گجرات سے ہے۔ ہم لوگ خاندانی طور پر کپڑے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ہمارے کاروبار کا زیادہ سلسلہ کئی سالوں سے بھارت کے ساتھ تھا، مگر دونوں ملکوں کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے ہم نے اب چین کا رخ کر لیا۔
میں جب بھی چین جاتا تھا تو سنکیانگ کے شہر ارومچی کی ایک مسلمان خاتون میرے لیے مترجم کے فرائض انجام دیتی تھی۔ میں نے اس کو انتہائی ایماندار پایا تھا۔ چین میں قوانین کی وجہ سے شادی ضرورت بھی تھی جس وجہ سے اس کے گھر والوں کو شادی کا پیغام دیا جو قبول کر لیا گیا اور 2005 ہی میں ہماری شادی ہو گئی۔





چینی مسلمانتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionچینی مسلمان (فائل فوٹو)

2005 سے لے کر 2014 تک تقریباً ہر سال وہ میرے ہمراہ پاکستان آتی رہی۔ اس دوران ہمارے دو بچے پیدا ہوئے۔ 2015 میں اس کی خواہش پر میں نے اس کے ہمراہ حج بھی کیا۔
2016 تک زندگی میں کوئی بھی مسائل نہیں تھے مگر جب اسی سال کے آخری میں ہمارے گھر سکیورٹی حکام آئے۔ انھوں نے مجھ سے میرا پاکستانی پاسپورٹ طلب کیا۔ میں سمجھا کہ روٹین کی کوئی کارروائی ہے۔ میرے پاسپورٹ کے بعد انھوں نے بچوں اور بیوی کو طلب کیا اور ان کے بھی پاسپورٹ طلب کیے۔ پھر وہ پاسپورٹ اپنے ساتھ لے کر چلے گے اور ہمیں بتایا کہ تحقیقات ہو رہی ہیں اور ان تحقیقات تک یہ سب پاسپورٹ ضبط رہیں گے۔
اس موقعے پر میں نے اپنا پاسپورٹ واپس لینے کی کوشش کی مگر انھوں نے نرمی سے کہا کہ تعاون کرنا میرے مفاد میں ہو گا۔ جس پر میں خاموش ہو گیا۔
اسی پر بس نہیں ہوا کہ بلکہ دو تین روز بعد مقامی پولیس اہلکار آئے اور انھوں نے بتایا کہ میری بیوی اوربچوں پر علاقہ چھوڑنے پر پابندی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کی پابندیاں لگائی گئیں۔ صبح شام مقامی پولیس کے پاس حاضری کو یقینی قرار دیا گیا۔
پہلے تو میں سمجھا کہ یہ سب کچھ عارضی ہے اور جلد ہی حالات بہتر ہو جائیں گے، مگر یہ میری خام خیالی تھی۔ 2016 سے لے کر اب تک پابندیاں برقرار ہیں، بلکہ یہ پابندیاں روز بروز سخت تر ہوتی جا رہی ہیں۔
مجھے میرا پاسپورٹ تو ایک سال قبل واپس کر دیا گیا ہے مگر میرے بیوی بچوں کا پاسپورٹ ابھی تک ضبط ہے۔

متعلقہ عنوانات


MORE: SOURCE: https://www.bbc.com/urdu/regional-46093671

’برسوں کی محنت سے کھڑا کیا کاروبار پل بھر میں تباہ ہو گیا‘


اویغور خواتینتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

اطلاعات کے مطابق چین کے صوبہ سنکیانگ میں حالیہ دنوں منظر عام پر آنے والے ری ایجوکیشن سنٹرز میں دس لاکھ کے قریب لوگوں کو بند کیا گیا ہے جن کی اکثریت اویغور مسلمانوں کی ہے۔
بہت سے پاکستانیوں نے اس لیے وہاں پر شادیاں کیں کہ وہ اپنی بیوی کے نام پر جائیداد خرید کر اپنے کاروبار کو مستحکم کر سکیں، کیونکہ بقول ان کے، وہ سمجھتے تھے کہ چین پاکستان کا دوست ہے اور وہ پاکستانی شہریوں کو چین میں کبھی بھی نقصاں نہیں پہنچائے گا۔
ذیل میں ایسے پاکستانیوں کی کہانیاں بیان کی جا رہی ہیں جنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیویاں ان مراکز میں بند ہیں، جس کی وجہ سے جہاں ان کے خاندان بکھر گئے، وہیں ان کے کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
٭ ان کہانیوں میں فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں کیوں کہ ان لوگوں کو خطرہ ہے کہ ان کی شناخت ظاہر ہونے سے ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
سنکیانگ کے کیمپوں کے بارے میں بی بی سی کی خصوصی سیریز سے مزید

عبدالکریم

عبدالکریم کا خاندان گذشتہ 40 برس سے گلگت بلتستان اور سنکیانگ کے درمیان کاروبار کر رہا ہے۔ انھوں نے 22 سال قبل چین میں شادی کی تھی۔
انھوں نے اپنی کہانی کچھ یوں سنائی:
'چین کے صوبہ سنکیانگ میں میری اور دیگر کئی پاکستانی کاروباری افراد کی اپنی محنت سے کمائی ہوئی جائیدادیں ہیں مگر قانونی تقاضوں کے سبب سے یہ سب بیویوں کے نام پر ہیں۔
'اگر چین میں کاروبار کامیاب ہو جائے تو وہاں شادی ضرورت بن جاتی ہے کیوں کہ وہاں پر کوئی غیر ملکی زمین، جائیداد نہیں خرید سکتا اور اکثر پاکستانیوں نے اس لیے بھی وہاں پر شادیاں کیں کہ وہ اپنی بیوی کے نام پر جائیداد خرید کر اپنے کاروبار کو مستحکم کر سکیں، کیونکہ سب کا خیال تھا کہ چین پاکستان کا دوست ہے اور وہ کم از کم پاکستانی شہریوں کو چین میں کبھی بھی نقصاں نہیں پہنچائے گا۔
'مگر اب اس کے الٹ ہو رہا ہے۔
'میں نے چین میں 22 سال پہلے محبت کی شادی کی تھی اورمیرے تین بچے ہیں۔ 2014 سے پہلے کے حالات تو ٹھیک تھے مگر 2014 کے بعد چینی حکام، جو پہلے وہاں کے مقامی مسلمانوں کو نشانہ بنایا کرتے تھے، اب انھوں نے پاکستانیوں اور ان کی چینی بیویوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ اور میرے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہے۔
'جب میرے آس پاس یہ ہونے لگا تو ہم نے غیر محسوس طور پر اور آہستہ آہستہ اپنا کاروبار سمیٹنا شروع کر دیا تھا۔

اویغور کے بچےتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

'2017 کے آغاز پر مجھے پاکستان آنا پڑا۔ ابھی پاکستان آئے ہوئے چند ہی روز ہوئے تھے کہ مجھے اطلاع ملی کہ رات کے وقت سکیورٹی حکام میری بیوی کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں، اور میری بیوی کے قریبی رشتہ داروں کو اطلاع دی کہ وہ بچوں کا خیال رکھیں۔
'یہ اطلاع میری لیے کسی بم سے کم نہیں تھی۔
'اس کے اگلے روز ہی میں نے سڑک کے راستے چین میں داخل ہونے کی کوشش کی، مگر مجھے سرحد ہی پر چینی حکام نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ میرے ویزے کی مدت میں صرف 18 دن باقی ہیں، اور مجھے چاہیے کہ میں دوبارہ ویزا لگوا کر چین جاؤں۔ میں نے واپس آ کر اسلام آباد میں چین کے سفارت خانے میں ویزے کے لیے درخواست جمع کروائی، مگر وہ مسترد ہو گئی اور نہ ہی بتایا گیا ہے کہ مجھے ویزا کیوں نہیں دیا جا رہا۔
'برسوں کی محنت سے کھڑا کیا کاروبار تباہ ہو چکا ہے اور اب صرف یہ چاہتا ہوں کہ بچوں کو کسی طرح پاکستان لے آؤں اور جب بیوی آزاد ہو تو اس کو بھی پاکستا ن لے آؤں۔ مگر مجھے ویزا ہی نہیں دیا جا رہا۔ میں عالمی برادری اور حکومت پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہماری مدد کریں کہ میری بیوی پر کوئی الزام نہیں ہے تو اس کو رہا کیا جائے اور اگر کوئی الزام ہے تو مقدمہ چلایا جائے اور میرے بچے میرے حوالے کیے جائیں۔

شاہد زمان

ان کا تعلق پنجاب کے ایک متوسط خاندان سے ہے۔ چین میں تعلیم کرنے کے دوران ان کی ملاقات ایک مسلمان چینی خاتون گل بانو سے ہوئی، جس کے ساتھ مل کر انھوں نے کاروبار شروع کر دیا۔ اس میں وہ پاکستان کے کاروباری افراد کو گل بانو کی مدد سے کنسلٹنسی فراہم کرتے تھے۔
جلد ہی یہ کاروبار چل نکلا اور شاہد نے اپنا دفتر بھی کھول لیا۔ تاہم 2016 میں وہ گل بانو کے آبائی علاقے سنکیانگ چلے گئے اور وہاں گل بانو کے منع کرنے کے باوجود ایک مسجد میں نماز بھی پڑھ لی۔ شاہد زمان کے بقول وہیں سے ان کی مشکلات کا آغاز ہو گیا۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان آنے کے بعد جب 'میں نے گل بانو سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ جب کافی دن تک اس سے رابطہ نہیں ہوا تو میں نے اپنے مشترکہ جاننے والوں سے رابطے کیے۔ حیرت انگیز طور پر کوئی نہیں جانتا تھا کہ گل بانو کہاں ہے۔
'یہ بہت پریشانی کی بات تھی۔ میرے لیے دہری پریشانی تھی کہ اس کے بغیر میرا کاروبار چلنا ممکن نہیں تھا اور وہ میری گرل فرینڈ بھی تھی۔
’چند ہفتے اسی طرح گزر گئے۔ پھر ہمارے ایک پرانے کاہگ نے رابطہ کیا۔ گل بانو سے تو رابطہ نہیں تھا میں نے سوچا کہ چلو میں خود چین جاتا ہوں۔ جب میں بیجنگ کے ایئر پورٹ پر پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ میں چین میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جب میں امیگریشن حکام کو بتایا کہ میں چین میں پڑھتا رہا ہوں، میرے پاس ویزا ہے اور میں کئی مرتبہ آ جا چکا ہوں۔ انھوں نے میری ایک نہ سنی اور مجھے کہا کہ مجھے پہلی دستیاب پرواز سے ملک بدر کر دیا جائے گا کیوںکہ مجھے چین میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔
'اب عملاً میرا کاروبار بھی ختم ہو چکا تھا۔ کاہگ رابطہ کرتے تھے مگر گل بانو کے بغیر میں ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، چنانچہ میں نے ایک جگہ پر ملازمت کر لی۔ گل بانو کا آج تک کوئی پتہ نہیں چلا۔'

محمد ظہیر

محمد ظہیر چین سے گارمٹنس کی درآمد برآمد کا کاروبار کرتے تھے، اور اسی دوران انھوں نے صوبیہ نامی ایک چینی خاتون سے شادی کر لی تھی جس سے ان کے دو بچے بھی ہیں۔
انھوں نے بتایا:
'میری شادی اور کاروبار سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ صوبیہ میری کاروباری شراکت دار تھی اور چین میں موجود زیادہ تر کاروباری معاملات وہی دیکھتی تھی جبکہ میں خود پاکستان کے معاملات دیکھتا تھا۔
'ہماری محنت کے بل بوتے پر ہمارا کاروبار روز بروز ترقی کرتا جا رہا تھا۔ ہم نے ایک بڑا مکان، دکان، گودام اور زمنیں خرید لی تھیں۔
'زندگی ہر لحاظ سے خوش گوار تھی، مگر 2015 سے حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔ میں پاکستان میں تھا جب مجھے اطلاع ملی کہ چین کے سکیورٹی اداروں نے ہماری دکان پر چھاپہ مارا ہے۔
'صوبیہ نے بتایا کہ حکام کو گارمنٹس کی ان اشیا پر اعتراض کیا ہے جن کا کوئی نہ کوئی اسلامی تعلق بنتا تھا۔ اس واقعے کے بعد میں فوراً چین پہنچا اور مقامی حالات کی سن گن لی تو پتہ چلا کہ چین کے حکام کو اسلامی کلچر کے فروغ پر تشویش لاحق ہے۔ بہت سے لوگوں نے بتایا کہ حکام نے علاقے میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ آپریشن شروع کر رکھا ہے۔
'اس صورتحال پر صوبیہ کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ ہم نے چین کے قوانین اور حکام کی ہدایات کی پابندی کرنی ہے اور گارمنٹس کی وہ اشیا جو کسی نہ کسی طرح اسلامی کلچر کی نمائندگی کرتی تھیں، ان کو فی الفور تلف کر کے اس کی اطلاع حکام کو بھی دی۔
'ان اشیا کی کم از کم مالیت پاکستانی دو کروڑ روپیہ سے زائد تھی۔ یہ ایک بڑا نقصان تھا مگر ہمارا کاروبار چلا ہوا تھا اور ہم نے یہ نقصان اس امید پر برداشت کیا تھا کہ چین کے سکیورٹی حکام بھی مطمئن ہو جائیں گے اور ہمارے لیے مزید مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔
'2016 میں وہ صوبیہ کو پوچھ گچھ کے لیے اپنے ہمراہ لے گئے اور اس کو اتنی مہلت بھی نہ دی کہ وہ میرے ساتھ بات کر سکے۔

اویغور خواتینتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

'چینی حکام نے صوبیہ کو نو ماہ تک تربیتی مرکز میں رکھا۔ اس دوران سکیورٹی حکام کی جانب سے دکان پر آنے جانے سے مقامی لوگوں، کاروباری اور معاشرتی تعلق رکھنے والوں میں خوف پیدا ہو گیا۔ یہاں تک کہ سیلزمینوں نے بھی جواب دے دیا اور اب کوئی میری دکان پر کام کرنے کو تیار نہیں تھا۔
'ان حالات نے صورتحال یہاں تک پہنچا دی کہ میرا چلتا ہوا کاروبار بالکل ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ مقامی لوگوں نے بات چیت کرنا اور میرے ساتھ کاروبار کرنا چھوڑ دیا۔ چین میں جن لوگوں نے مجھے سے کاروبار کے پیسے لینے تھے وہ روزانہ میرے پاس پہنچ جاتے اور جنھوں نے میرے پیسے دینے تھے وہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھے۔
'مجبور ہو کر میں پاکستان چلا آیا۔ اب میرے چین کے ویزے کی معیاد ختم ہو چکی ہے اور میں چین جانا چاہتا ہوں جس کے لیے میں نے درخواست بھی دے رکھی ہے مگر ویزا نہیں دیا جا رہا حالانکہ چین میں میری زمینیں، دکانیں، کاروبار، مکان اور بیوی ہے۔ ایسا اس سے پہلے کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔
'میں چاہتا ہوں کہ ایک مرتبہ چین جا کر اپنی تمام جائیداد مال وغیرہ فروخت کر کے صوبیہ کو واپس لے کر واپس پاکستان آ جاؤں مگر ایسا تبھی ممکن ہے جب مجھے ویزا اور صوبیہ کو پاسپورٹ واپس ملے۔
'میرا کاروبار تباہ ہو چکا ہے۔ پیسے مارکیٹ میں پھنس چکے ہیں۔ میں اس وقت گزر اوقات کے لیے پاکستان میں ایک ادارے میں سیلز مین کی نوکرری کر رہا ہوں۔ میرا ایک ایک لمحہ انتہائی کٹھن اور صبر آزما ہے۔'

اسی بارے میں



No comments:

Post a Comment