ACTION RESEARCH FORUM: OH CHINA WE LOVED YOU SINGING TOGETHER 'GUM BEY': NOT FOR INNOCENT ARMLESS FAITH FOLLOWERS BRAIN WASHING. WE GRANTED NURVES LINE CPEC 'GUM BEY', WE DREAMED TOGETHER TO REVERRT JAPANESE MASSACRE BY 'GUM BEY ASIANS. COME WITH OPEN HEART COGNITIONS NOT LIKE TRUMP DATRES; OMNIPOTENCY IS LIVE.
Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-46028742
چین کے ’اصلاحی مراکز‘ میں قید ہماری بیویوں کو رہا کروایا جائے: پاکستانی شوہروں کی درخواست
چین میں کاروبار کرنے والے متعدد پاکستانیوں نے حکومت پاکستان سے درخواست کی ہے کہ چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں ’اصلاحی مراکز‘ (ری ایجوکیشن سنٹرز) میں 'قید' ان کی بیویوں کی رہائی کے لیے چینی حکومت سے سفارتی سطح پر رابطہ کیا جائے۔
اسلام آباد میں دفتر خارجہ اور بیجنگ میں پاکستانی سفیر کے نام اپنی درخواستوں میں ان پاکستانی شہریوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کی چینی شہری بیویوں کو وجہ بتائے بغیر سنکیانگ کے مختلف علاقوں میں قائم ری ایجوکیشن سنٹرز میں رکھا گیا ہے۔
ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ یہ چینی مسلمان خواتین پچھلے دو برسوں کے دوران زبردستی ان مراکز میں بند ہیں اور ان کی سفری دستاویزات بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔
سنکیانگ کے حراستی مراکز کے بارے میں مزید
درخواست میں درج ہے کہ 'دو سال قبل چائنیز حکومت نے بغیر کوئی وجہ بتائے ہماری قانونی بیویوں کو صرف اور صرف پاکستان آنے کے جرم میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ہے اور ہمیں بھی اپنی ذاتی رہائش گاہوں سے بےدخل کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہم بھی چین جانے سے قاصر ہیں اور تاحال نہ تو جرم بتایا جاتا ہے نہ ہی ان سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔'
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 'پاکستانی شہری ہونے کے ناطے ہم سائلان کی جملہ مشکلات کے حل کے لیے چائنا حکومت سے بازپرس کی جائے اور ان بےگناہ خواتین کو قید و بند کی سختیوں سے رہائی دلوائی جائے۔'
چین میں کتنے پاکستانیوں کی مسلمان بیویوں کو ان مراکز میں رکھا گیا ہے، ان کی درست تعداد تو معلوم نہیں تاہم ان میں سے متعدد افراد نے بی بی سی سے رابطہ کر کے ان حالات کے بارے میں بتایا ہے جن میں ان کی شریک حیات کو ان مراکز میں رکھا گیا ہے جنھیں چینی حکومت 'سوچ کی تبدیلی کے مراکز' قرار دیتی ہے۔
ان افراد کا کہنا ہے کہ ان خواتین میں سے بعض کو ان مراکز میں دو برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے جہاں انھیں مذہب سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان خواتین کو اپنے شوہروں سے بعض اوقات ٹیلی فون پر بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اسی بات چیت کے دوران ان کے شوہروں کے مطابق انھیں معلوم ہوا ہے کہ ان مراکز میں ان کی بیویوں کو ایسی تعلیم اور تربیت دی جا رہی ہے جس کا مقصد انھیں مذہب سے دور کرنا ہے۔
ایسے ہی ایک شوہر نے بی بی سی کو بتایا: 'ان خواتین کو اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے اور اسلام کے مطابق لباس پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے برعکس انھیں رقص کی تربیت دی جاتی ہے، اسلام میں ممنوع اشیا کھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے ترانے سکھائے جا رہے ہیں۔'
چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں حکام نے بڑے پیمانے پر مسلم اویغور افراد کے لاپتہ ہونے کی خبروں پر بڑھتی ہوئی عالمی تشویش کے بعد ان افراد کے لیے بنائے جانے والے مراکز کو قانونی شکل دینے کا اعلان کیا ہے۔
چینی حکام کے مطابق یہ ہنر سکھانے کے مراکز یا 'ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز' ہیں جہاں 'سوچ میں تبدیلی' کے ذریعے شدت پسندی سے نمٹا جاتا ہے۔
اس کے مطابق جو رویے جو حراست میں لیے جانے کی وجہ بن سکتے ہیں ان میں حلال چیزوں کے تصور کو توسیع دینا اور سرکاری ٹی وی دیکھنے، سرکاری ریڈیو سننے سے انکار اور بچوں کو سرکاری تعلیم دلوانے سے انکار شامل ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ ان حراستی مراکز میں چینی زبان کے علاوہ قانونی نکات کی تعلیم بھی دی جاتی ہے جبکہ وہاں رکھے جانے والے افراد کو ووکیشنل تربیت بھی ملتی ہے۔
حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے اس اقدام پر تنقید کی ہے۔
(بی بی سی نے ان مراکز میں مقیم متعدد چینی خواتین کے پاکستانی شوہروں کی کہانیاں اکٹھی کی ہیں جو آئندہ چند روز تک ان صفحات پر شائع کی جائیں گی)
No comments:
Post a Comment