ACTION RESEARCH FORUM: RECALLING BACK TO FUTURE: ROLE OF AMERICAN HYPOCRISY TOWARDS ABORIGINALS NATIVES, MAXI CAN LANDS MERGER IN US, TYRANNY ON ASIANS JAPAN, PHILIPPINE, KOREANS, NUKE EXPERIMENTATION'S ON, NOW THE TIME HAS COME TO GROWING UP ASIANS BLOODSHED. BY DIVIDE AND RULE GAMES INHERITED FROM HER MAJESTY RULE OVER WITH MIGHT IS RIGHT.
NEVERTHELESS, LAW OF NATURE OMNIPOTENCE IS READY TO ACT ON FASCISM.
RECKONING ON HYBRID WAR STRATEGY.
Source: https://www.bbc.com/urdu/world-46254479
NEVERTHELESS, LAW OF NATURE OMNIPOTENCE IS READY TO ACT ON FASCISM.
RECKONING ON HYBRID WAR STRATEGY.
Source: https://www.bbc.com/urdu/world-46254479
عمران خان: کسی دوسرے ملک کا نام بتائیں جس نے اتنی قربانیاں دی ہوں
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریکارڈ کی درستگی کے لیے پاکستان کبھی بھی نائن الیون میں ملوث نہیں رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
اپنی ٹویٹ میں عمران خان نے کہا کہ اس جنگ میں پاکستان نے 75,000 افراد کی قربانی دی اور 123 ارب ڈالر کا مالی خسارہ برداشت کیا جبکہ اس بارے میں امریکی امداد صرف 20 ارب ڈالر کی ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں پاکستان کے قبائلی علاقے تباہ ہوئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ اس جنگ نے عام پاکستانیوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔
انھوں نے کہ پاکستان آج بھی امریکی افواج کو اپنے زمینی اور فضائی راستے استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔
اپنی ٹویٹ میں عمران خان نے امریکی صدر سے پوچھا ہے کہ کیا وہ اپنے کسی دوسرے اتحادی ملک کا نام بتا سکتے ہیں جس نے شدت پسندی کی جنگ میں اتنی قربانیاں دی ہوں۔
اس سے قبل پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کا تازہ بیان ان پاکستانی رہنماؤں کے لیے سبق ہونا چاہیے جو نائن الیون حملوں کے بعد سے امریکہ کو خوش رکھنے کی پالیسی پر گامزن تھے۔
شیریں مزاری نے یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دیے گئے بیان کے جواب میں دیا جس میں انھوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے لیے کچھ نہیں کرتا اسی لیے انھوں نے پاکستان کی امداد روکی ہے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق اور سٹریٹیجک سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کی سابق سربراہ شیریں مزاری نے ٹویٹ میں کہا ’ٹرمپ کے پاکستان پر طنز اور یہ دعوے کہ پاکستان امریکہ کے لیے کچھ بھی نہیں کرتا ان پاکستانی رہنماؤں کے لیے ایک سبق ہونے چاہییں جو امریکہ کو خوش رکھنے کے لیے کوشاں تھے۔‘
انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کچھ اقدامات کا حوالہ بھی دیا اور کہا ’جیسے کہ ’غیرقانونی منتقلیاں، امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی ہلاکتیں، ریمنڈ ڈیوس اور دیگر آپریٹوز کی رہائی، ڈرونز سے غیر قانونی ہلاکتیں وغیرہ وغیرہ۔‘
انھوں نے مزید کہا ’فہرست بہت لمبی ہے اور ایک بار پھر تاریخ نے ثابت کر دیا کہ خوش کرنے کی پالیسی کام نہیں کرتی‘۔
شیریں مزاری کا مزید کہنا تھا کہ ’چاہے چین ہو یا ایران، انھیں محدود کرنے اور تنہا کرنے کی امریکی پالیسی پاکستان کے سٹریٹیجک مفادات سے مطابقت نہیں رکھتی‘۔
’پاکستان نے اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں رکھا ہوا تھا‘
اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے اتوار کو امریکی ٹیلی ویژن چینل فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں رکھا ہوا تھا۔
انھوں نے کہا: 'پاکستان میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ وہ (اسامہ بن لادن) فوجی اکیڈمی کے قریب رہتے ہیں۔ اور ہم انھیں 1.3 ارب ڈالر سالانہ امداد دے رہے ہیں۔ ہم اب یہ امداد نہیں دے رہے۔ میں نے یہ بند کر دی تھی کیوں کہ وہ ہمارے لیے کچھ نہیں کرتے۔'
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان پر کھل کر تنقید کی ہو۔ اس سال کے آغاز پر انھوں نے کہا تھا کہ 'امریکہ نے 15 سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر بطور امداد دے کر بےوقوفی کی۔ انھوں نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا۔'
صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'وہ ہمارے رہنماؤں کو بےوقوف سمجھتے رہے ہیں۔ وہ ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں جن کا ہم افغانستان میں ان کی نہ ہونے کے برابر مدد سے تعاقب کر رہے ہیں۔اب ایسا نہیں چلے گا۔'
اس کے چند روز بعد امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے پر اس کی تقریباً تمام سکیورٹی امداد روک رہی ہے تاکہ پاکستانی حکومت کو بتایا جا سکے کہ اگر وہ امریکہ کے اتحادی نہیں بنتے تو معاملات پہلے کی طرح نہیں رہیں گے۔
محکمۂ خارجہ کے مطابق جب تک اسلام آباد حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا امداد کی فراہمی کا سلسلہ منجمد رہے گا۔
گذشتہ برس امریکی صدر کی جانب سے وضع کردہ قومی سلامتی کی حکمت عملی میں بھی کہا گیا تھا کہ 'ہم پاکستان پر اس کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں میں تیزی لانے کے لیے دباؤ ڈالیں گے، کیونکہ کسی بھی ملک کی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے لیے حمایت کے بعد کوئی بھی شراکت باقی نہیں رہ سکتی۔'
امریکہ کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ'پاکستان کے اندر سے کام کرنے والے شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے امریکہ کو مسلسل خطرات لاحق ہیں۔'
اس پالیسی کے سامنے آنے کے بعد امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے دورہ افغانستان کے موقعے پر پاکستان سے ایک بار پھر کہا تھا کہ وہ افغانستان کی حکومت کے خلاف لڑنے والے گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرے۔
No comments:
Post a Comment