Wednesday 21 November 2018

LAHORE: MODEL TOWN MASSACRE: PERSECUTION BY LARGER BENCH + FRESH JIT



Source: https://arynews.tv/en/new-jit-formed-for-fresh-model-town-probe/

New JIT formed for fresh Model Town probe

LAHORE: The Punjab Home Department on Thursday formed a new Joint Investigation Team (JIT) for a fresh probe into the 2014 Model Town incident.
According to the notification issued by the home department, the new JIT led by Inspector General (IG) of Motorways A.D. Khawaja will initiate a fresh probe into the Model Town incident.
The Punjab additional chief secretary told the journalists that the JIT will comprise of representatives of Inter-Services Intelligence (ISI), Military Intelligence (MI) and the Intelligence Bureau (IB).
DIG Headquarters police Gilgit-Baltistan Qamar Raza will also be the part of the new JIT, he added.
Earlier, the Supreme Court of Pakistan, on December 5, had winded up a petition in the Model Town case after the government assured the apex court to form new joint investigation team (JIT) to probe the incident.
The larger bench of the apex court headed by Chief Justice Mian Saqib Nisar conducted its hearing to decide whether the petition for the formation of new joint investigation team was admissible.
The apex court on October 6 had taken notice of plea by Bisma Amjad, the daughter of Tanzila Amjad who was among those martyred in the Model Town firing incident, seeking the formation of a new investigation team to probe the carnage.
Model Town incident
On June 17, 2014, at least 14 people were killed and 100 others injured when the police opened fire to disperse protesting Pakistan Awami Tehreek workers during an anti-encroachment operation outside the residence of PAT chief Dr Tahirul Qadri.
The one-person judicial commission formed to probe the Model Town incident held that the operation planned under the then Punjab Law Minister Rana Sanaullah “could have easily been avoided” and that the “police officers actively participated in the massacre”.
“This tribunal has very carefully seen the CD of the first press conference of Chief Minister Punjab after the incident in which he did not specifically mention about his direction of disengagement. It has become crystal clear that order of disengagement was not passed at all, rather position taken by CM Punjab appears to be an afterthought defence,” says the report.
The commission maintained that it arrived at a conclusion after “putting all facts and circumstances in juxtapositions”.
0Save

Comments

0 comments



****

See More:

Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46257640

سانحہ ماڈل ٹاؤن: سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا


پاکستانتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے قیام کے لیے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ سمیت پانچ ججز شامل ہوں گے۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے نئی جے آئی ٹی کا قیام سانحہ ماڈل ٹاؤن کی متاثرہ لڑکی بسمہ امجد کی درخواست پر سماعت کے دوران کی۔
اسی بارے میں مزید پڑھیے
دوران سماعت پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ طاہر القادری عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) مشتاق سکھیرا پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد ہمارا کیس زیرو پر آگیا ہے۔
اس موقع پر کیس کے فریقین سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور دیگر کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ انھیں کیس کی تیاری کے لیے وقت چاہیے۔
جس کے بعد چیف جسٹس نے نئی جے آئی ٹی کے قیام کے لیے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دے دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بینچ میں دیگر صوبوں کی نمائندگی بھی ہوگی اور لارجر بینچ پانچ دسمبر کو کیس کی سماعت کرے گا۔
بی بی سی نے قارئین کے لیے چار سال قبل ہونے والے واقعہ کے حوالے سے اٹھائے گئے چند اہم سوالات کے جوابات دیے ہیں۔

پاکستانتصویر کے کاپی رائٹAFP

واقعہ تھا کیا اور اس کا پس منظر کیا تھا؟

جون کی 16 تاریخ کو پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے کینیڈا سے اپنے خطاب میں حکومت کو تنبیہ کی کہ اگر انھوں نے 23 جون ان کی آمد پر کسی قسم کی رکاوٹ ڈالی اور انھیں کچھ ہوا تو اس کے بہت سنگین نتائج ہوں گے۔
علامہ طاہر القادری 2014 میں کچھ عرصے سے محمد نواز شریف کی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کا اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور انھیں اس وقت تک پاکستان مسلم لیگ ق اور عوامی مسلم لیگ کے قائد شیخ رشید کی جانب سے حمایت کے پیغام مل گئے تھے۔
اگلے روز پنجاب پولیس نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں علامہ طاہر القادری کے ادارے منہاج القرآن کے دفاتر کے باہر لگی ہوئی رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے آپریشن شروع کر دیا۔ پولیس نے منہاج القرآن کے ممبران سے کہا کہ وہ ان رکاوٹوں کو ختم کریں جن کے بارے میں پولیس کا دعویٰ تھا کے وہ غیر قانونی ہیں۔

لاہورتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

پولیس کی کاروائی کے جواب میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان نے کہا کہ یہ رکاوٹیں چار سال قبل قانونی طور پر لگائی گئی ہیں جب ان کے سربراہ نے ماضی میں طالبان کے خلاف بیانات دیے تھے۔
اس کے باوجود پولیس نے بلڈوزروں کی مدد سے کاروائی شروع کر دی اور جس کے بعد فریقین میں جھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔

ملزم کون ہیں، الزامات کیا ہیں اور ملزمان کا مؤقف کیا ہے؟

لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں 115 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں جج اعجاز حسن اعوان نے سانحہ ماڈل ٹاون استغاثہ کیس کی سماعت کی، اس دوران عدالت نے ڈی آئی جی رانا عبدالجبار سمیت 115 ملزمان پر فرد جرم عائد کی، تاہم تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا۔
دوران سماعت عدالت نے ڈی آئی جی رانا عبدالجبار کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر انھیں پیش کریں۔
اس موقع پر عدالت نے غیر حاضر تمام ملزمان کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا، تاکہ ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا عمل مکمل ہو سکے۔

لاہورتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

عدالت کی جانب سے جن ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی ان میں ڈی آئی جی رانا عبدالجبار، ایس پی عبدالرحیم شیرازی، ایس پی عمر ورک، ایس پی معروف صفدر، ایس پی عمر ریاض، ڈی اسی پی آفتار احمد، رانا محمد اسلام، ڈی ایس پی محمود الحسن اور دیگر شامل ہیں۔
خیال رہے کہ استغاثہ کیس پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت 12 سیاسی شخصیات، پولیس افسران، اہلکار اور ضلعی حکومت کے عہدیداروں کو فریق بنایا گیا تھا، تاہم عدالت نے استغاثہ میں سے سیاسی شخصیات کے نام ختم کر دیے تھے۔

جسٹس باقر کی رپورٹ میں کیا تھا؟

گذشتہ سال 21 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا حکم جاری کیا تھا۔

لاہورتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

اس موقعے پر بی بی سی اردو کے نامہ نگار عمر دراز سے بات کرتے ہوئے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کے وکیل اشتیاق چودھری نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ میں دی جانے والی درخواست میں سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ انھیں بتایا جائے کہ ان کے پیاروں کی موت کے ذمہ داران کون ہیں۔
جسٹس باقر نجفی کی تحریر کردہ رپورٹ کے مطابق سال 2014 میں جون 16 کو پنجاب کے اُس وقت کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی قیادت میں میٹنگ ہوئی تھی جس میں منہاج القرآن کے باہر لگی رکاوٹیں ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا اور پنجاب کے چیف سیکریٹری نے ’وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے اس عمل کی منظوری دی تھی۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس نے ماڈل ٹاؤن میں جمع ہونے والے ہجوم پر براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو خواتین شازیہ اور تنزیلہ ہلاک ہو گئیں۔ تنزیلہ پر فائرنگ کا واقعہ ویڈیو پر ریکارڈ بھی ہوا تھا۔
دوسری جانب اس بات کے کوئی ثبوت نہیں ملے کے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کی جانب سے اسلحہ استعمال کیا گیا ہو۔

لاہورتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ پولیس نے یہ بات واضح نہی کی کہ انھوں نے فائرنگ کس عہدے دار کے کہنے پر شروع کی۔
واقعہ کے بعد پنجاب پولیس کے آئی جی اور ڈی سی او لاہور کو تبدیل کر دیا گیا تھا جبکہ شہباز شریف کی جانب سے دیا گیا بیان کے انھوں نے فائرنگ روکنے کا حکم دیا تھا، کسی شواہد کے بغیر تھا۔
جسٹس باقر نے اس پر رپورٹ میں تحریر کیا: ’یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ فائرنگ روکنے کا حکم ایک بار بھی نہیں دیا گیا تھا۔‘
رپورٹ کے اختتام میں وہ لکھتے ہیں کہ وزیر قانون کی سربراہی میں تیار کیا گیا آپریشن ذرا سی احتیاط برتنے پر نہیں ہوتا۔ لیکن اس میں نتیجہ اخذ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ رپورٹ پڑھنے والا کوئی بھی قاری بہت آرام سے سمجھ سکتا ہے کہ واقعے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
لاہورہائی کورٹ کی جانب سے ماڈل ٹاؤن رپورٹ منظر عام پر لانے کے حکم کے بعد لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ ’پچھلے ڈھائی تین سال سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا کہ اس رپورٹ میں ایسے ثبوت ہیں کہ اس سے نجانے کیا ہو جائے گا۔ یہ سب سیاسی انتقام اور پروپیگنڈا تھا۔‘

نئی جے آئی ٹی کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟


لاہورتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

پاکستان عوامی تحریک نے ماڈل ٹاؤن میں پولیس فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ادھر پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جے آئی ٹی کی رپورٹ پر ہنگامہ آرائی ہوئی اور حزب اختلاف نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
پنجاب حکومت نے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی فائرنگ سے عوامی تحریک کے کارکنوں کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی تھی اور اس کی رپورٹ بدھ کے روز سامنے آئی۔
جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں وزیراعلیٰ شہباز شریف اور سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ خان کو بے گناہ قرار دے دیا اور کہا کہ چھان بین کے دوران یہ ثابت نہیں ہوا کہ وزیر اعلیٰ اور سابق صوبائی وزیر قانون فائرنگ کا حکم دینے والوں میں شامل ہیں۔
چار سال قبل لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں 17 جون کو پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان تصادم ہوا تھا جس میں عوامی تحریک کے 14 کارکن ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
لارجر بنچ کا مینڈیٹ کیا ہے؟

لاہورتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

اگست 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمے داروں کے تعین کے لیے لارجر بنچ بنانے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے یہ حکم ایڈووکیٹ اظہر صدیق کی درخواست پر دیا ہے جس میں انھوں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو نامکمل قرار دیا تھا اور پنجاب جوڈیشل انکوائری ٹرائبیونل آرڈیننس کے اس کی شق کو چیلنج کیا تھا جس کے تحت حکومت کو اپنی مرضی سے انکوائری ٹرائبیونل بنانے اور ان کے دائرۂ کار کے تعین کا اختیار حاصل ہے۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ 17 جون کو جب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لیے ایک رکنی جوڈیشل کمیشن بنایا تو اسے صرف ان وجوہات کی نشاندہی کرنے کا اختیار دیا گیا جس کے تحت منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے باہر پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان تصادم ہوا، جس کے دوران فائرنگ ہوئی اور 14 افراد ہلاک ہو گئے۔ کمیشن کو ذمے داروں کے تعین کا اختیار ہی نہیں دیا گیا تھا۔

لاہورتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ 20 جون کو سانحہ ماڈل ٹاؤن جوڈیشل کمیشن کے رجسڑار نے خط بھی لکھا جس میں اختیارات بڑھانے کی استدعا کی گئی لیکن پنجاب حکومت نے بدنیتی سے ان کے اختیارات نہیں بڑھائے۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ جوڈیشل انکوائری آرڈیننس کی شق 11 مارشل لا کے دور میں شامل کی گئی تھی لیکن جمہوری حکومتیں اسے اپنے سیاسی فائدے کے لیے وقتاً فوقتاً استعمال کرتی رہی ہیں۔ اسی لیے انھوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ اس شق میں ترمیم کی جائے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امیر علی بھٹی نے اس معاملے میں بظاہر واضح قانونی ابہام سے اتفاق کرتے ہوئے معاملہ لارجر بنچ کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوا دیا ہے۔

No comments:

Post a Comment