Tuesday, 30 January 2018

INTERNATIONAL: ZIONISM = NAZISM = FASCISM ADD SUPERIOR THAN US: RECALL VIETNAM, M.EAST, AFGHANISTAN..

ACTION RESEARCH FORUM: TRUMP REVELETION: http://www.bbc.com/urdu/world-42882288 

Source: https://arynews.tv/en/us-delegation-flees-bethlehem-protest/




INTERNATIONAL

One sign read ‘Zionism = Nazism = Fascism’


Bethlehem
JERUSALEM:  A delegation of US diplomats had to cut short an event in the Palestinian city of Bethlehem on Tuesday, an attendee said, after protesters stormed their meeting.
The angry protesters, who were objecting to US President Donald Trump’s controversial recognition of Jerusalem as Israel’s capital, also threw tomatoes at the delegation’s car as they left, a video posted online showed.
Samir Hazboun, head of the Bethlehem Chamber of Commerce, said they had been holding a training session for local business people about digital commerce with an American expert and a delegation from the US consulate in Jerusalem.
“We were surprised when a number of angry protesters held an extraordinary protest, which forced us to end the course and for the American trainer to leave immediately with the American consulate delegation,” he told AFP.
The video online showed a handful of protesters entering the room and chanting while holding signs opposing Trump’s decision.
One sign read “Zionism = Nazism = Fascism”.
The American delegation quickly packed up and left, with the protesters throwing what appeared to be tomatoes at their cars, while one man kicked a car.

ALSO READ: ISRAEL CHANGES LAW TO MAKE IT HARDER TO CEDE JERUSALEM CONTROL

Trump’s December 6 recognition of Jerusalem as Israel’s capital set off protests among Palestinians, who consider the city to be their capital as well.
The Palestinian leadership has frozen ties with the US administration, and Trump has withheld tens of millions of dollars in aid.
Print Friendly, PDF & Email
0Save

COMMENTS

**** 
TRUMP REVELETION: http://www.bbc.com/urdu/world-42882288 

ٹرمپ: امریکی خواب کو پورا کرنے کا اس سے بہتر لمحہ کبھی نہیں آیا

ٹرمپتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionایک اندازے کے مطابق چار کروڑ ٹیلی ویژن ناظرین نے یہ خطاب دیکھا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کی رات اپنے پہلے سٹیٹ آف یونین خطاب میں ’نئے امریکی لمحے‘ کی آمد کا دعویٰ کیا ہے۔
کانگریس سے خطاب میں انھوں نے کہا: ’امریکی خواب کو پورا کرنے کا اس سے بہتر لمحہ کبھی نہیں آیا۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ اپنی حریف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی ارکان کی طرف کھلا ہاتھ بڑھا رہے ہیں تاکہ دونوں مل کر کام کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیں
انھوں نے کہا کہ وہ گوانتانامو بے کو بند نہیں کر رہے۔ ان کے پیش رو صدر اوباما اس متنازع جیل کو بند کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔
امریکی معیشت تو ترقی کر رہی ہے لیکن صدر ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف نیچے آ رہا ہے۔
ایک سال قبل اپنی اولین تقریر میں انھوں نے 'تباہی' کا منظرنامہ پیش کیا تھا لیکن اس بار وہ زیادہ پرجوش نظر آئے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ ایک 'محفوظ، طاقتور اور پروقار امریکہ تعمیر کر رہی ہے۔'
انھوں نے پوری قوم کو ’بطور ایک ٹیم، ایک امریکی خاندان‘ اکٹھے ہونے کا درس دیا۔
ایک اندازے کے مطابق چار کروڑ ٹیلی ویژن ناظرین نے یہ خطاب دیکھا۔

خارجہ پالیسی

انھوں نے شمالی کوریا کو ’بگڑا ہوا‘ کہتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
انھوں نے خبردار کیا کہ پیانگ یانگ کی جانب سے ’ایٹمی میزائلوں کی تیاری کے اندھادھند پروگرام سے بہت جلد ہمارے ملک کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ہم اسے روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہم شروع کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ شام اور عراق میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے تقریباً تمام علاقہ لے لیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا: ’ہم اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک دولتِ اسلامیہ کو شکست نہیں ہو جاتی۔‘
جو کینیڈیتصویر کے کاپی رائٹPOOL
Image captionڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما کینیڈی نے امریکہ کو 'ٹوٹا پھوٹا' ملک کہا اور ٹرمپ کی صدارت کو 'انتشار' قرار دیا

ڈیموکریٹ پارٹی کا ردِ عمل؟

ریاست میساچوسٹس سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن جوزف کینیڈی سوم نے صدر ٹرمپ کی تقریر کا جواب دیا۔
انھوں نے امریکہ کو ’ٹوٹا پھوٹا‘ ملک کہا اور ٹرمپ کی صدارت کو ’انتشار‘ قرار دیا۔
37 سالہ کینیڈی نے کہا کہ 'بہت سے لوگوں نے گذشتہ سال پریشانی، غصے اور خوف میں گزارا ہے۔'
انھوں نے کہا: ’پچھلے سال کو انتشار کہہ کر گزرنا آسان ہے۔ پارٹی بازی، سیاست۔ لیکن اصل بات کہیں بڑی ہے۔ یہ انتظامیہ نہ صرف ان قوانین کو نشانہ بنا رہی ہے جو ہمارا تحفظ کرتے ہیں، بلکہ یہ تصور ہی اس کے نشانے پر ہے کہ ہم سب کو تحفظ کی ضرورت ہے۔‘

متعلقہ عنوانات




PAK: MOUNTAINORING A TO Z


Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-42857570

پاکستان میں کوہ پیمائی کی الف سے ے


کوہ پیمائیتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionدنیا بھر میں کوہ پیمائی کی مہمات کے دوران اگر کبھی ریسکیو کی ضرورت پڑے تو اس کے پیسے ادا کیے جاتے ہیں

پاکستان میں کوہ پیمائی کی کسی بھی مہم کے دوران جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو بچاؤ اور امداد کے کاموں یا ریسکیو سروس کے بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں اور یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ کیا ریسکیو کے پیسے مانگے جانے چاہییں؟ کیا رقم کے ملنے تک ریسکیو کے کام کو ٹالا جانا چاہیے؟
حال ہی میں ایک پولش کوہ پیما کی موت کے بعد پاکستان میں اور سوشل میڈیا پر یہی سوالات عام ہیں۔
ایک سوال کا جواب تو بالکل واضح ہے کہ دنیا بھر میں کوہ پیمائی کی مہمات کے دوران اگر کبھی ریسکیو کی ضرورت پڑے تو اس کے پیسے ادا کیے جاتے ہیں۔
اسی بارے میں پڑھیے
چند ملکوں نے مقامی اور غیر ملکی کوہ پیماؤں کے لیے پورے نظام کو واضح رکھا ہوا ہے جبکہ پاکستان سمیت مختلف ملکوں میں اس کا مربوط نظام موجود نہیں ہے۔
پاکستان میں کوہ پیمائی کی مہم خیریت سے طے ہوجائے تو ٹھیک ہے لیکن حادثہ پیش آنے یا کسی بھی غیر یقینی صورتحال کی صورت میں حکومتوں، سفارتخانوں اور فوج کو حرکت میں آنا پڑتا ہے۔ اس مہم کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے اس پر نظر ڈالتے ہیں۔

کوہ پیمائی کے لیے دستاویزات

جب کوئی غیر ملکی کوہ پیما مہم پر آنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے پاکستان میں ٹور آپریٹر کا انتخاب کرکے اسے پُر کیا ہوا اپنا ویزا فارم، اپنا تعارف یا سی وی بھیجنا ہوتا ہے جس پر ٹور آپریٹر اپنے لیٹر ہیڈ کے ساتھ پہاڑ کا نام (جس کو سر کرنا ہے) اور راستے کا نقشہ حکومت گلگت بلتستان کو فراہم کرتا ہے۔
حکومت گلگت بلتستان ملک کے خفیہ اداروں انٹر سروس انٹیلیجنس، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو سے ان معلومات کے تبادلے کے بعد غیر ملکی کوہ پیما کو مہم کی اجازت دیتی ہے۔ اگر کوہ پیما پاکستانی شہری ہے تو اسے ان میں سے زیادہ تر چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ویزا کا حصول

غیر ملکی کوہ پیما اس اجازت نامے کی بنیاد پر اپنے ملک میں موجود پاکستانی سفارتخانے میں ویزا کی درخواست دیتا ہے اور ویزا ملنے پر سفر شروع کرتا ہے۔

کے ٹوتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionپاکستان میں کے ٹو کی رائلٹی فیس 12 ہزار ڈالرز ہے لیکن حکومت گلگت بلتستان نے کوہ پیمائی کے فروغ کے لیے اس میں 40 فیصد کمی کی ہوئی ہے

کوہ پیمائی کے اخراجات

پاکستان پہنچنے پر کوہ پیماؤں کو اپنے منتخب ٹور آپریٹر کی پوری یا آدھی طے شدہ فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ رائلٹی فیس، پارک فیس اور عسکری ایوی ایشن کی فیس بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔ کوہ پیما کا انشورنس نمبر (یہ انشورنس کوہ پیما اپنے ملک سے کروا کر آتے ہیں)، اور کوہ پیمائی کا پرمٹ ٹور آپریٹر کو فراہم کرنا ہوتا ہے۔
ٹور آپریٹر کوہ پیما کے ساتھ جانے والے دیگر عملے کی انشورنس کراتا ہے جس میں باورچی، سامان اٹھانے والا اور راستہ دکھانے والا شامل ہوتے ہیں۔ رائلٹی فیس اس پہاڑ کی فیس کو کہتے ہیں جسے سر کیا جانا مقصود ہو۔ پاکستان میں ’کے ٹو‘ کی رائلٹی فیس 12 ہزار ڈالرز ہے لیکن حکومت گلگت بلتستان نے کوہ پیمائی کے فروغ کے لیے اس میں 40 فیصد کمی کی ہوئی ہے۔
اس رقم پر حکومت گلگت بلتستان کا حق ہوتا ہے۔ جبکہ ماؤنٹ ایورسٹ کی رائلٹی فیس 70 ہزار ڈالر ہے۔ یہ فیس کسی بھی مہم میں شریک کوہ پیماؤں میں تقسیم بھی ہو جاتی ہے یعنی اگر 10 کوہ پیماؤں کا گروہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کی مہم پر روانہ ہوا ہے تو ہر ایک کو سات ہزار ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔ مقامی کوہ پیما یہ فیس بھی ادا نہیں کرتے۔

حادثے کی صورت میں نظام کیسے کام کرتا ہے؟

مہم کے دوران کسی بھی حادثے کی صورت میں بچاؤ کے ہر کام کے لیے رقم ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ طریقہ کار دنیا بھر میں رائج ہے۔
چند ممالک میں جہاں کوہ پیمائی کو باقاعدہ صنعت کا درجہ حاصل ہے ریسکیو کے زرائع صرف کوہ پیمائی کے لیے وقف ہوتے ہیں اور اس کی رقم بھی ٹورآ پریٹر کے ذریعے پہلے ہی یا تو وصول کر لی جاتی ہے یا پھر انشورنس کمپنی سے اس کی منظوری لے لی جاتی ہے۔
پاکستان میں کوہ پیما کسی بھی حادثے میں صورت میں یا تو اپنے ساتھیوں کو اطلاع کرتا ہے جو بیس کیمپ میں ہوتے ہیں یا پھر اپنے ٹور آپریٹر کو۔ یہ اطلاع کبھی سیٹیلائٹ فون اور کبھی لکھے ہوئے ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے اور کبھی نیچے اترنے والے کوہ پیماؤں کے ذریعے دی جاتی ہے۔
ٹور آپریٹر کبھی خود اور کبھی پاکستان میں کوہ پیمائی کے ادارے الپائن کلب کے ذریعے عسکری ایوی ایشن کو اطلاع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ہیلی کاپٹر کو ریسکیو کے لیے روانہ کرے۔ عسکری ایوی ایشن بظاہر ایک نجی ادارہ ہے لیکن یہ ہیلی کاپٹر فوج کا ہی استعمال کرتا ہے۔
کوہ پیما مہم پر روانہ ہونے سے قبل عسکری ایوی ایشن کو 15 ہزار ڈالر اسی لیے ادا کرتا ہے کہ وہ حادثے کی صورت میں فوراً کام شروع کردے۔ بصورت دیگر اس کے ملک کا سفارتخانہ عسکری ایوی ایشن کو ریسکیو کے عمل میں تمام اخراجات ادا کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے۔
اس ادارے کے ہیلی کاپٹرز جان بچانے والوں کو لے کر کوہ پیماؤں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ عام طور کسی کوہ پیما کو کسی مقام سے اٹھا کر بیس کیمپ یا سکردو لانے میں 17 ہزار ڈالرز تک خرچہ ہوتا ہے۔

جان بچانے والے یا ریسکیوئرز کون ہوتے ہیں؟

کسی کوہ پیما کی جان بچانے کے لیے جانے والے یا تو پیشہ ور کوہ پیما ہوتے ہیں یا پھر ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹرز۔ یہ افراد بھی ریسکیو کے عمل میں شامل ہونے کے لیے معاوضہ لیتے ہیں کیونکہ اس میں ان کی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔
سردیوں میں ریسکیو کے لیے لوگوں کا ملنا مشکل ہوتا ہے اور کبھی کبھار اس کام کے لیے لوگوں کو ان کے گاؤں سے اٹھا کر ایک دن بیس کیمپ میں رکھنا ہوتا ہے تاکہ وہ موسم اور اونچائی کے عادی ہو جائیں اور پھر وہ بچاؤ کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔

حالیہ حادثے میں کیا ہوا تھا؟

الپائن فیڈریشن آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حالیہ واقعے میں کوہ پیماؤں نے عسکری ایوی ایشن کو پیشگی فیس ادا نہیں کی تھی۔ حادثے کی اطلاع ملنے پر ٹور آپریٹر نے عسکری ایوی ایشن کو مطلع کیا اور ساتھ ہی فرانس اور پولینڈ کے سفارتخانوں کو جنھوں نے عسکری ایوی ایشن کو رقم کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی۔
ان کے مطابق ریسکیو کے کام میں تاخیر نہیں ہوئی بلکہ یہ کام بہت سرعت کے ساتھ کیا گیا کیونکہ خوش قسمتی سے کے ٹو سر کرنے کی مہم پر موجود پولینڈ کے کوہ پیما جو موسم اور اونچائی کے پہلے ہی عادی تھے فوراً جان بچانے کے لیے رضامند ہو گئے۔
کرار حیدری کے مطابق جب ریسکیو کا کام شروع ہوا تو ہیلی کاپٹر نے پہلے سکردو میں ایندھن بھروایا پھر پیو میں دوبارہ ایندھن بھروایا اور پھر کے ٹو بیس کیمپ سے پولینڈ کے کوہ پیماؤں کو لے کر واپس اسی راستے سے سکردو پہنچا اور وہاں سے ایندھن بھروا کر نانگا پربت گیا جہاں جان بچانے والوں نے خاتون کوہ پیما ایلزبتھ ریوول کو بچا لیا۔ کرار حیدری کے مطابق اس کام میں خاصہ وقت لگتا ہے۔

نانگا پربتتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionپاکستان میں عسکری ایوی ایشن کے پاس موجود ہیلی کاپٹرز سکردو اور پہاڑی سلسلوں کے درمیان پرواز کرتے ہی رہتے ہیں

ہیلی کاپٹر کتنی بلندی تک پرواز کر سکتے ہیں؟

پاکستان میں عسکری ایوی ایشن کے پاس موجود ہیلی کاپٹرز سکردو اور پہاڑی سلسلوں کے درمیان پرواز کرتے ہی رہتے ہیں۔ یہ صرف کوہ پیماؤں کی جان بچانے کے لیے وقف نہیں ہیں۔
الپائن فیڈریشن کے سیکریٹری کے مطابق یہ ہیلی کاپٹرز موسم کی مناسبت سے پرواز کرتے ہیں اور بہت خراب موسم میں موثر نہیں ہوتے۔ ان کی پرواز پانچ سے چھ ہزار میٹرز کے درمیان ہوتی ہے جبکہ پولش کوہ پیما سات ہزار چار سو میٹرز سے اوپر پہنچ گئے تھے۔

کیا کسی ریسکیو ادارے کی کمی ہے؟

پاکستان میں جیسمن ٹور آپریٹرز کے مینیجنگ ڈایریکٹر اصغر علی پوریک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے ادارے کی کمی ہے جو مقامی اور غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ریسکیو کے لیے مختص ہو اور کسی بھی حادثے کی صورت میں فوراً از خود کام شروع کردے۔
حال ہی میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کر کے آنے والے کرنل ریٹائرڈ عبدالجبار بھٹی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے جغرافیہ اور سکیورٹی کی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی نجی ادارہ یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس کام کے لیے کسی بھی ادارے کو پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی مدد درکار ہو گی۔ تاہم عبدالجبار بھٹی نے ایسے ادارے کی تشکیل پر زور دیا جو ریسکیو کے کام کے لیے وقف ہو۔
انھوں نے بتایا کہ ماؤنٹ ایورسٹ سے خود ان کے ریسکیو میں تاخیر نیپال میں ان کے ٹور آپریٹر کی وجہ سے ہوئی تھی جو ریسکیو کا عمل شروع کرنے سے قبل رقم کی ادائیگی کی یقین دہانی چاہ رہا تھا۔ 'مجھے تو کوہ پیماؤں نے بچایا جو واپس نیچے جا رہے تھے، ٹور آپریٹر تو ہمارے سفارتخانے سے مول بھاؤ کر رہا تھا۔'
الپائن فیڈریشن کے سیکریٹری کرار حیدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وفاقی، صوبائی یا فورسز کے تعاون سے ایک ایسا ادادہ وجود میں آنا چاہیے جس کے پاس جدید ہیلی کاپٹرز موجود ہوں جو اونچائی تک پرواز کر سکیں اور حادثے کی صورت میں جان بچانے والے بھی جو وہاں کے موسم کے عادی ہوں۔
ایسے افراد کو معقول تنخواہ پر رکھا جائے تو کوہ پیمائی کی مہمات کے دوران حادثات میں کمی آ سکتی ہے۔