Saturday, 27 January 2018

YAROUSHELAM: BABA FARID KI HOSPICE (SARAI) - PLACE OF HIS WORSHIPS CHILLA


Source: http://www.bbc.com/urdu/world-42845341

یروشلم میں بابا فرید کی سرائے

بابا فرید کی سرائے
Image captionبابا فرید کے کمرے میں ان کی پینٹنگ
یروشلم یعنی وہ شہر جسے یہودی، مسیحی اور مسلمان مقدس زمین کے طور پر جانتے ہیں، لیکن یہ بات شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس قدیم شہر کے ایک علاقے کا تعلق انڈیا سے ہے۔
یہ دراصل ایک سرائے ہے۔ صوفی بزرگ بابا فرید نے تقریباً آٹھ سو برس قبل اسی سرائے میں قیام کیا تھا۔ اس سرائے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں وہ عبادت کیا کرتے تھے۔
گذشتہ سو برس سے اس سرائے کی دیکھ بھال انڈیا کا ایک خاندان کر رہا ہے۔ اس خاندان کے بزرگوں کا تعلق انڈین ریاست اترپردیش کے سہارن پور شہر سے تھا۔

یہ بھی پڑھیے

بابا فرید
Image captionبابا فرید اس کمرے کے نیچے ایک تہہ خانے میں عبادت کیا کرتے تھے

یروشلم کیسے آئے بابا فرید

آٹھ سو برس سے بھی زیادہ پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس سے پہلے اس شہر پر مسحیوں کی حکومت تھی۔
صلاح الدین ایوبی نے اس شہر کو اسلامی ماحول دینے کے لیے صوفیوں اور درویشوں کو اس شہر میں آ کر بسنے کی دعوت دی تھی۔
یہاں آنے والے صوفیوں میں سے ایک بابا فرید بھی تھے۔ انڈیا اور پاکستان کے پنجاب میں ان کے ہزاروں مرید ہیں۔
بابا فرید لمبے عرصے تک اس شہر میں رہتے رہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ یہاں سے انڈیا کب واپس لوٹے۔
ان کی واپسی کے بعد صدیوں تک انڈیا سے حج کے لیے جانے والے افراد راستے میں بابا فرید کی سرائے میں رک کر کچھ دن گزارتے تھے۔
بابا فرید کی سرائے
Image captionبابا فرید کی سرائے
یروشلم کے مفتی نے دعوت دی تھی
یہ سلسلہ پہلی جنگ عظیم تک جاری رہا۔ اس درمیان مسجد اقصیٰ اور شہر کی دوسری اسلامی عمارتوں کی حالت اچھی نہیں تھی۔ ان دنوں عرب ممالک بھی غریب تھے۔ اگر دولت تھی تو بھارتی نوابوں اور سلطانوں کے پاس۔
اسی لیے سنہ 1923 میں یروشلم کے مفتی نے کچھ افراد کو انڈیا رقم لینے بھیجا۔ انڈیا کی آزادی کے لیے لڑنے والے محمد علی جوہر نے اس کام میں ان کی مدد کی۔

یہ بھی پڑھیے

مفتی نے یہ بھی کہا کہ بابا فرید کی سرائے کی دیکھ بھال کے لیے انڈیا سے کسی کو بھیجا جائے۔
اس طرح سنہ 1924 میں نذیر حسن انصاری نام کے ایک نوجوان کو اس کام کے لیے یروشلم بھیجا گیا جہاں جا کر انھوں نے اس سرائے کی دیکھ بھال شروع کر دی۔
کچھ عرصے بعد انصاری نے ایک فلسطینی لڑکی سے شادی کر لی اور یروشلم کے ہو کر رہ گئے۔
بابا فرید کی سرائے

مشہور ہستیوں کی تصاویر

جب میں پرانے شہر میں واقع اس انڈین سرائے پہنچا تو انصاری کی دو پوتیوں نے میرا خیرمقدم کیا۔ دونوں بہنیں، ان کے شوہر اور ان کے بچے ابھی بھی اسی سرائے کے اندر رہتے ہیں۔
سرائے میں داخل ہونے کے لیے ایک بڑا پھاٹک ہے۔ داخل ہونے کے تقریباً سو قدم چلنے کے بعد ایک لوہے کا گیٹ آتا ہے جس پر تالا لگا تھا۔
دونوں بہنوں نے تالا کھولا اور مجھے اندر آنے کی دعوت دی۔ اندر ایک بڑا احاطہ ہے جس کی داہنی طرف ایک پرانی مسجد ہے۔
بائیں طرف ایک کمرا تھا جس میں انڈیا سے آنے والی بڑی ہستیوں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔
بابا فرید کی سرائے
Image captionسہارن پور کے نذیر حسن انساری کی پوتی نور جہاں نایب تصاویر دکھاتے ہوئے

تصاویر والا کمرا

انساری خاندان نے سرائے سے متعلق نایاب اشیاء ایک کمرے میں سجا رکھی ہے۔ ان میں پہلی جنگ عظیم میں یروشلم میں تعینات انڈین فوجیوں کی تصاویر بھی ہیں۔
قدیم یروشلم کی عمارتوں کی تصاویر ہیں۔ ان کے علاوہ نذیر انصاری کے جوانی کے دنوں کی تصاویر بھی ہیں۔
ان کا انتقال اسی سرائے میں سنہ 1951میں ہوا تھا۔ اب ان کے صاحب زادے یعنی ان دونوں خواتین کے والد اس سرائے کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
ان کی عمر 80برس سے زیادہ ہو چکی ہے۔ جب میں وہاں پہنچا اس وقت وہ اردن گئے ہوئے تھے۔
اس کے بغل میں اس کمرے کا دروازہ ہے جہاں بابا فرید رہا کرتے تھے۔
بابا فرید کی سرائے
Image captionنذیر حسن انساری کی جوانی کی تصویر
تہہ خانے میں عبادت
وہ کمرا جس میں بابا فرید رہا کرتے تھے وہ کافی چھوٹا ہے۔ لیکن شاید بابا فرید کو اس سے بڑے کمرے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بیشتر وہ اس کمرے کے تہہ خانے میں عبادت کیا کرتے تھے۔
دونوں بہنوں میں سے چھوٹی بہن نور جہاں نے مجھے بتایا کہ ’دادا بتاتے تھے کہ بابا فرید ایک بار میں 40 دنوں تک لگاتا اس تہہ خانے میں بند ہوکر عبادت کیا کرتے تھے۔‘
بابا فرید کے نجی استعمال کی کوئی چیز اس تہہ خانے میں موجود نہیں ہے۔ لیکن ان کی یادیں اور ان سے وابستہ داستانیں اس سرائے اور اس شہر میں آج بھی سنائی جاتی ہیں۔
بابا فرید کی سرائے
Image captionانڈیا سے آنے والی مشہور ہستیاں اس سرائے کو دیکھنے آتی رہتی ہیں
اس سرائے پر انڈیا کا مالکانہ حق ہے۔ آج بھی اس جگہ کو دیکھنے کے لیے انڈیا سے نامی ہستیاں آتی ہیں۔ انڈیا سے آنے والوں کے لیے یہاں چھ کمرے بھی ہیں جن میں وہ قیام کر سکتے ہیں۔
یروشلم میں کئی جنگیں ہوئیں اور یہ شہر کئی بار اجڑا۔ لیکن انڈیا اور بابا فرید سے منسوب یہ کونا 800 سال بعد بھی آباد ہے۔
۔


No comments:

Post a Comment