Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-42863207
قصور میں بچیوں کے قتل، مفروضے اور حقائق
قصور میں زینب سمیت آٹھ بچیوں کے قتل کے ملزم عمران علی کی گرفتاری کے بعد بہت سے مفروضے اور سازشی تھیوریاں گردش کر رہی ہیں۔ یہ مفروضے ایسے سوالات سے جنم لے رہے ہیں جن کا تسلی بخش جواب پولیس نہ تو بچیوں کے لواحقین کو بتا پائی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے پلیٹ فارم پر اس کا تذکرہ ہوا ہے۔
سوال نمبر 1: زینب کو کب قتل کیا گیا؟
سوال نمبر 2: زینب کی لاش کب ملی؟
سوال نمبر3: کیا اتنے دن گزر جانے کے بعد لاش پر مسخ ہونے کی علامات تھیں؟
زینب کے قتل اور اس کے بارے میں ہونے والی تحقیقات کے متعلق مزید پڑھیے
ان سوالات کے جوابات کے لیے ہم نے عینی شاہدین، مختلف بیانات، شواہد اور پولیس کے افسران سے گفتگو کی۔ ان جوابات کی روشنی میں جو تصویر سامنے آتی ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔
سوال نمبر 1: زینب کو کب قتل کیا گیا؟
اس بارے میں ابہام زینب کے والد امین انصاری کے دعوے کے بعد شروع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ تفتیشی پولیس افسران نے خود انہیں بتایا کہ ملزم نے اپنے بیان میں زینب کو گھر پر رکھنے کا اعتراف کیا تھا۔
تاہم تفتیشی پولیس افسران اور زینب کے والد کے بیانات میں تضاد ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم بچیوں کو اپنے گھر کی طرف نہیں لاتا تھا۔ اس نے اپنے اعترافی بیان میں یہ تسلیم کیا کہ گذشتہ سال نومبر میں اس نے ایک چھ سالہ بچی کو اسی کوڑے کے ڈھیر پر ریپ کیا اور نیم مردہ حالت میں مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔
زینب قتل کیس کی تفتیش کی دوران ملزم نے پولیس کو بتایا کہ ابتدائی طور پر اس کا ارادہ ایک زیرِ تعمیر مکان کی طرف جانے کا تھا تاہم اسے مکان کے قریب ایک شخص فون پر بات کرتا ہوا نظر آیا۔ اس وجہ سے اس نے عین موقعے پر ارادہ بدل کر وہیں سے کوڑے کے ڈھیر کا رخ کیا۔
جے آئی ٹی کے رُکن، ڈی پی او وہاڑی عمر سعید نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ دو واقعاتی شواہد کی بنیاد پر انہیں ملزم کی بات پر یقین ہوا کہ بچی کو اُسی مقام یعنی کچرے کے ڈھیر پر ہی اس نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر وہیں قتل کیا۔
عمر سعید کا کہنا تھا کہ بچی کے جسم پر موجود لباس اسی حالت میں تھا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ ملزم قتل کرنے کے بعد عجلت میں وہاں سے فرار ہوا۔
بچی کے جوتے جس جگہ پر تھے ان سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کے پاؤں سے اترے ہیں نہ کہ وہاں لا کر پھینکے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں قصور ضلعی ہسپتال کی ڈاکٹر قرۃ العین عتیق نے لکھا ہے کہ بچی کی لاش دو سے تین دن پرانی معلوم ہوتی تھی۔
تاہم پولیس کے تفتیش کاروں کے مطابق جہاں پورسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ پتہ چلانے میں مدد ملی کہ لاش کو وہاں لا کر نہیں پھینکا گیا وہیں اس سے یہ ابہام بھی پیدا ہوا کہ اگر قتل تین روز پہلے ہوا تو اغوا کے بعد بچی کو کہاں رکھا گیا اور کیوں؟
اس وجہ سے پولیس کی ابتدائی تفتیش کا رخ شہر کے مختلف علاقے کی جانب رہا جس سے کم از کم دو دن کا قیمتی وقت ضائع ہوا۔
تاہم یہ معمہ تب حل ہوا جب 13 جنوری کو فورنزک رپورٹ آنے کے بعد یہ ثابت ہوا کہ تمام آٹھ وارداتوں میں ایک ہی سیریل کلر ملوث ہے۔
تاہم پورسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے جب قصور ضلعی ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ بالکل درست تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ تھا کہ ایسی رپورٹ میں سو فیصد تعین ممکن نہیں ہوتا اور اس میں دس سے بیس فیصد گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔
تاہم پولیس کے سینیئر اہلکار اس بات سے متفق نظر نہیں آئے اور ان کا یہی موقف تھا کہ اگر رپورٹ پہلے بار ہ جامع ہوتی تو تفتیش درست سمت میں آگے بڑھتی۔
سوال نمبر 2: زینب کی لاش کب ملی؟
زینب کی لاش آٹھ جنوری کو ملی اور وہ 4 جنوری کو لاپتہ ہوئی تھی۔
ملزم نے دورانِ تفتیش پولیس کو بتایا کہ اس نے زینب کو چار جنوری کو ہی قتل کیا اور اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر کے کنارے پر رہنے دی مگر چار دن کے دوران آس پاس موجود لوگوں کو اندازہ نہیں ہوا کہ ایک انسانی لاش یہاں پڑی ہے۔
ہمارے نامہ نگار اور پولیس کے مطابق کوڑے کا یہ ڈھیر تیس سے چالیس کنال رقبے پر محیط ہے جس میں متعدد ٹیلا نما کوڑے کے بڑے بڑے ڈھیر موجود تھے جنہیں زینب کی لاش ملنے کے بعد انتظامیہ نے برابر کر دیا ہے۔
کوڑے کے ڈھیر کے آس پاس آبادی کچھ زیادہ نہیں۔ جہاں سے زینب کی لاش ملی وہاں سے قریب ترین ایک گوالے کا گھر ہے جبکہ چند گھر وہاں سے کچھ فاصلے پر واقع ہیں تاہم اسی مقام کے قریب چند گوالے تقریباً روزانہ اپنی بھینسوں کو چارا ڈالنے کی غرض سے لاتے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان لڑکے نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے ابتدائی چار دنوں میں نہ ہی بچی کی لاش دیکھی نہ ہی ایسی کوئی سرگرمی دیکھی۔
تاہم آٹھ جنوری کو ایک گوالے ہی کی نشاندہی پر پولیس کو کچرے کے ڈھیر پر دیوار کے قریب سے لاش ملی۔
سوال نمبر 3: کیا لاش پر اتنے دن گزر جانے کے بعد مسخ ہونے کی علامات تھیں؟
پولیس کے بیانات کے مطابق زینب کو 4 جنوری کی رات ہی ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا جس کو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بھی تقریباً ثابت کرتی ہے۔ بچی کی لاش مسخ ضرور ہوئی تاہم موسم سرد ہونے کی وجہ سے اس پر زیادہ اثر نہیں پڑا۔
لیکن اگر زینب کے والد کی بات پر چلا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملزم نے چار سے 7 جنوری یا شاید آٹھ جنوری تک زینب کو گھر پر رکھا؟
ڈی پی او عمر سعید کے مطابق بچی کی لاش زیادہ مسخ ہونے سے اس لیے بچ گئی کیونکہ لاش براہِ راست سورج کی روشنی میں نہیں بلکہ ایک دیوار کی اوٹ میں سائے میں پڑی رہی۔
دوسرا سردیوں کے موسم کی وجہ سے درجہ حرارت اتنا زیادہ نہیں تھا کہ اس سے لاش پر برے اثرات نمایاں ہوتے لیکن اگر یہ واقعہ گرمیوں میں ہوتا تو حالات مختلف ہوتے۔
ان سوالات کے علاوہ پولیس اہلکاروں کے مطابق پولیس ابتدا میں یا گذشتہ کیسز کو حل کرنے میں مندرجہ ذیل باتوں کی وجہ سے ناکام رہی۔
* سیریل کلر
پولیس آخری دنوں تک اسے ایک معمولی ریپ کرنے والا شخص سمجھ کر تلاش کرتی رہی مگر تفتیش کو اس رُخ پر کرنے میں ناکام رہی کہ یہ ایک سیریل کِلر ہے۔
ڈی پی او عمر سعید نے بتایا کہ 'اگر پولیس شروع سے ہی اس بات پر اپنی تفتیش کی بنیاد رکھتی ہے کہ یہ ایک سیریل کِلر ہے تو اس سے ساری تفتیش کا رُخ ہی بدل جاتا۔ کیونکہ سیریل کِلر ایک مخصوص طریقے سے کام کرتا ہے۔ سیریل کِلر ہمیشہ کوئی نہ کوئی ثبوت چھوڑ کر جاتا ہے۔'
مگر دوسرے پولیس اہلکاروں کا یہ ماننا ہے کہ پولیس کی اس نوعیت کی تربیت ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس ایسے وسائل اور ذہانت یا ریسورسز ہیں جن سے وہ اس قسم کی تفتیش کو مخصوص پیرائے میں کر سکے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ سیریل کِلر ہمیشہ ایک عام آدمی کی زندگی گزارتا ہے اور اپنے ماحول میں بہت اچھے طریقے سے گھُل مل کر رہتا ہے۔ اس کے طرز عمل میں سوائے جرم کے تشدد کا عنصر نہیں پایا جاتا جس کی وجہ سے اس پر شک نہیں ہوتا۔
* دل کے دورے کا ڈھونگ اور مذہب کا لبادہ
جب پولیس نے پہلی بار عمران علی کو ڈی این کے لیے پکڑا تو اُس نے دل کا دورہ پڑنے کا ڈھونگ رچایا۔ پولیس جو پہلے ہی مدثر کے قتل کے الزامات کا سامنا کر رہی تھی اس بات سے ڈر گئی کہ ہیں عمران ان کے گلے نہ پڑ جائے۔ دوسرا عمران کے آس پاس لوگوں نے اس کی پارسائی کے ثبوت کے طور پر یہ بات کہی کہ 'یہ نعتیں پڑھتا ہے مذہبی آدمی ہے یہ ایسا گھناؤنا کام کیسے کر سکتا ہے۔'
اگر اسی موقع پر عمران علی کا ڈی این اے کروایا جاتا تو اتنے دن انتظار کی بجائے کیس جلد ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
* عاصمہ کیس کی تفتیش میں غلطی
جون 2015 میں عاصمہ کے ریپ کے بعد پولیس نے جائے وقوعہ سے جو شواہد اکٹھے کیے ان میں عمران علی کی جوتی بھی شامل تھی جو اس نے بھاگتے وقت چھوڑ دی مگر پولیس اہلکار اس جوتی کو کیس کی تفتیش کا حصہ بنانے میں ناکام رہے۔
تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ اگر یہ جوتی وقت پر تفتیش کا حصہ بنتی اور اس کے فورینزکس حاصل کیے جاتے تو غالب امکان تھا کہ ملزم کے پکڑے جانے میں مدد ملتی۔
* پولیس کے وسائل اور غیر ضروری سرگرمیاں
پولیس والوں کا کہنا ہے کہ اگر زینب قتل کیس کا ایک فیصد بجٹ بھی پولیس کو فی کیس حل کرنے کے لیے دیا جائے تو پولیس کی کارکردگی میں بہتری آ سکتی ہے۔ مبینہ طور پر زینب قتل کیس پر پندرہ کروڑ کے اخراجات ہوئے جن میں بڑی رقم ڈی این اے ٹیسٹ کروانے پر خرچ کی گئی۔
صوبائی حکومت چونکہ دباؤ میں تھی اس لیے اس نے خزانے کے منہ کھول دیے تاکہ یہ ایک کیس حتمی انجام تک پہنچ سکے مگر کیا ہر ایسے کیس کے لیے حکومت ایسے وسائل فراہم کرے گی؟
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس وی آئی پی ڈیوٹیوں اور مختلف غیر ضروری سرکاری کاموں پر کروڑوں روپے کے وسائل خرچ کرتی ہے اس لیے اہم کیسز کی تفتیش اور تحقیق کے درکار وسائل فراہم نہیں کر پاتی۔ بعض تھانوں کے تو ضروری اخراجات کے پیسے بھی مخیر حضرات ادا کرتے ہیں تو تفتیش اور تحقیق کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔
پیسے کی کمی کے علاوہ وی آئی پی شخصیات جیسے غیر ملکی افراد، پولیس اہلکار، سیاسی شخصیات، اہم تنصیبات کے لیے پولیس کی نفری تعینات کی جاتی ہے تو تفتیش کے لیے پولیس کے پاس اتنے اہلکار ہی نہیں بچتے۔
No comments:
Post a Comment