Tuesday, 30 January 2018

PAK: MOUNTAINORING A TO Z


Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-42857570

پاکستان میں کوہ پیمائی کی الف سے ے


کوہ پیمائیتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionدنیا بھر میں کوہ پیمائی کی مہمات کے دوران اگر کبھی ریسکیو کی ضرورت پڑے تو اس کے پیسے ادا کیے جاتے ہیں

پاکستان میں کوہ پیمائی کی کسی بھی مہم کے دوران جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو بچاؤ اور امداد کے کاموں یا ریسکیو سروس کے بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں اور یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ کیا ریسکیو کے پیسے مانگے جانے چاہییں؟ کیا رقم کے ملنے تک ریسکیو کے کام کو ٹالا جانا چاہیے؟
حال ہی میں ایک پولش کوہ پیما کی موت کے بعد پاکستان میں اور سوشل میڈیا پر یہی سوالات عام ہیں۔
ایک سوال کا جواب تو بالکل واضح ہے کہ دنیا بھر میں کوہ پیمائی کی مہمات کے دوران اگر کبھی ریسکیو کی ضرورت پڑے تو اس کے پیسے ادا کیے جاتے ہیں۔
اسی بارے میں پڑھیے
چند ملکوں نے مقامی اور غیر ملکی کوہ پیماؤں کے لیے پورے نظام کو واضح رکھا ہوا ہے جبکہ پاکستان سمیت مختلف ملکوں میں اس کا مربوط نظام موجود نہیں ہے۔
پاکستان میں کوہ پیمائی کی مہم خیریت سے طے ہوجائے تو ٹھیک ہے لیکن حادثہ پیش آنے یا کسی بھی غیر یقینی صورتحال کی صورت میں حکومتوں، سفارتخانوں اور فوج کو حرکت میں آنا پڑتا ہے۔ اس مہم کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے اس پر نظر ڈالتے ہیں۔

کوہ پیمائی کے لیے دستاویزات

جب کوئی غیر ملکی کوہ پیما مہم پر آنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے پاکستان میں ٹور آپریٹر کا انتخاب کرکے اسے پُر کیا ہوا اپنا ویزا فارم، اپنا تعارف یا سی وی بھیجنا ہوتا ہے جس پر ٹور آپریٹر اپنے لیٹر ہیڈ کے ساتھ پہاڑ کا نام (جس کو سر کرنا ہے) اور راستے کا نقشہ حکومت گلگت بلتستان کو فراہم کرتا ہے۔
حکومت گلگت بلتستان ملک کے خفیہ اداروں انٹر سروس انٹیلیجنس، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو سے ان معلومات کے تبادلے کے بعد غیر ملکی کوہ پیما کو مہم کی اجازت دیتی ہے۔ اگر کوہ پیما پاکستانی شہری ہے تو اسے ان میں سے زیادہ تر چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ویزا کا حصول

غیر ملکی کوہ پیما اس اجازت نامے کی بنیاد پر اپنے ملک میں موجود پاکستانی سفارتخانے میں ویزا کی درخواست دیتا ہے اور ویزا ملنے پر سفر شروع کرتا ہے۔

کے ٹوتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionپاکستان میں کے ٹو کی رائلٹی فیس 12 ہزار ڈالرز ہے لیکن حکومت گلگت بلتستان نے کوہ پیمائی کے فروغ کے لیے اس میں 40 فیصد کمی کی ہوئی ہے

کوہ پیمائی کے اخراجات

پاکستان پہنچنے پر کوہ پیماؤں کو اپنے منتخب ٹور آپریٹر کی پوری یا آدھی طے شدہ فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ رائلٹی فیس، پارک فیس اور عسکری ایوی ایشن کی فیس بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔ کوہ پیما کا انشورنس نمبر (یہ انشورنس کوہ پیما اپنے ملک سے کروا کر آتے ہیں)، اور کوہ پیمائی کا پرمٹ ٹور آپریٹر کو فراہم کرنا ہوتا ہے۔
ٹور آپریٹر کوہ پیما کے ساتھ جانے والے دیگر عملے کی انشورنس کراتا ہے جس میں باورچی، سامان اٹھانے والا اور راستہ دکھانے والا شامل ہوتے ہیں۔ رائلٹی فیس اس پہاڑ کی فیس کو کہتے ہیں جسے سر کیا جانا مقصود ہو۔ پاکستان میں ’کے ٹو‘ کی رائلٹی فیس 12 ہزار ڈالرز ہے لیکن حکومت گلگت بلتستان نے کوہ پیمائی کے فروغ کے لیے اس میں 40 فیصد کمی کی ہوئی ہے۔
اس رقم پر حکومت گلگت بلتستان کا حق ہوتا ہے۔ جبکہ ماؤنٹ ایورسٹ کی رائلٹی فیس 70 ہزار ڈالر ہے۔ یہ فیس کسی بھی مہم میں شریک کوہ پیماؤں میں تقسیم بھی ہو جاتی ہے یعنی اگر 10 کوہ پیماؤں کا گروہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کی مہم پر روانہ ہوا ہے تو ہر ایک کو سات ہزار ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔ مقامی کوہ پیما یہ فیس بھی ادا نہیں کرتے۔

حادثے کی صورت میں نظام کیسے کام کرتا ہے؟

مہم کے دوران کسی بھی حادثے کی صورت میں بچاؤ کے ہر کام کے لیے رقم ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ طریقہ کار دنیا بھر میں رائج ہے۔
چند ممالک میں جہاں کوہ پیمائی کو باقاعدہ صنعت کا درجہ حاصل ہے ریسکیو کے زرائع صرف کوہ پیمائی کے لیے وقف ہوتے ہیں اور اس کی رقم بھی ٹورآ پریٹر کے ذریعے پہلے ہی یا تو وصول کر لی جاتی ہے یا پھر انشورنس کمپنی سے اس کی منظوری لے لی جاتی ہے۔
پاکستان میں کوہ پیما کسی بھی حادثے میں صورت میں یا تو اپنے ساتھیوں کو اطلاع کرتا ہے جو بیس کیمپ میں ہوتے ہیں یا پھر اپنے ٹور آپریٹر کو۔ یہ اطلاع کبھی سیٹیلائٹ فون اور کبھی لکھے ہوئے ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے اور کبھی نیچے اترنے والے کوہ پیماؤں کے ذریعے دی جاتی ہے۔
ٹور آپریٹر کبھی خود اور کبھی پاکستان میں کوہ پیمائی کے ادارے الپائن کلب کے ذریعے عسکری ایوی ایشن کو اطلاع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ہیلی کاپٹر کو ریسکیو کے لیے روانہ کرے۔ عسکری ایوی ایشن بظاہر ایک نجی ادارہ ہے لیکن یہ ہیلی کاپٹر فوج کا ہی استعمال کرتا ہے۔
کوہ پیما مہم پر روانہ ہونے سے قبل عسکری ایوی ایشن کو 15 ہزار ڈالر اسی لیے ادا کرتا ہے کہ وہ حادثے کی صورت میں فوراً کام شروع کردے۔ بصورت دیگر اس کے ملک کا سفارتخانہ عسکری ایوی ایشن کو ریسکیو کے عمل میں تمام اخراجات ادا کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے۔
اس ادارے کے ہیلی کاپٹرز جان بچانے والوں کو لے کر کوہ پیماؤں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ عام طور کسی کوہ پیما کو کسی مقام سے اٹھا کر بیس کیمپ یا سکردو لانے میں 17 ہزار ڈالرز تک خرچہ ہوتا ہے۔

جان بچانے والے یا ریسکیوئرز کون ہوتے ہیں؟

کسی کوہ پیما کی جان بچانے کے لیے جانے والے یا تو پیشہ ور کوہ پیما ہوتے ہیں یا پھر ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹرز۔ یہ افراد بھی ریسکیو کے عمل میں شامل ہونے کے لیے معاوضہ لیتے ہیں کیونکہ اس میں ان کی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔
سردیوں میں ریسکیو کے لیے لوگوں کا ملنا مشکل ہوتا ہے اور کبھی کبھار اس کام کے لیے لوگوں کو ان کے گاؤں سے اٹھا کر ایک دن بیس کیمپ میں رکھنا ہوتا ہے تاکہ وہ موسم اور اونچائی کے عادی ہو جائیں اور پھر وہ بچاؤ کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔

حالیہ حادثے میں کیا ہوا تھا؟

الپائن فیڈریشن آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حالیہ واقعے میں کوہ پیماؤں نے عسکری ایوی ایشن کو پیشگی فیس ادا نہیں کی تھی۔ حادثے کی اطلاع ملنے پر ٹور آپریٹر نے عسکری ایوی ایشن کو مطلع کیا اور ساتھ ہی فرانس اور پولینڈ کے سفارتخانوں کو جنھوں نے عسکری ایوی ایشن کو رقم کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی۔
ان کے مطابق ریسکیو کے کام میں تاخیر نہیں ہوئی بلکہ یہ کام بہت سرعت کے ساتھ کیا گیا کیونکہ خوش قسمتی سے کے ٹو سر کرنے کی مہم پر موجود پولینڈ کے کوہ پیما جو موسم اور اونچائی کے پہلے ہی عادی تھے فوراً جان بچانے کے لیے رضامند ہو گئے۔
کرار حیدری کے مطابق جب ریسکیو کا کام شروع ہوا تو ہیلی کاپٹر نے پہلے سکردو میں ایندھن بھروایا پھر پیو میں دوبارہ ایندھن بھروایا اور پھر کے ٹو بیس کیمپ سے پولینڈ کے کوہ پیماؤں کو لے کر واپس اسی راستے سے سکردو پہنچا اور وہاں سے ایندھن بھروا کر نانگا پربت گیا جہاں جان بچانے والوں نے خاتون کوہ پیما ایلزبتھ ریوول کو بچا لیا۔ کرار حیدری کے مطابق اس کام میں خاصہ وقت لگتا ہے۔

نانگا پربتتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionپاکستان میں عسکری ایوی ایشن کے پاس موجود ہیلی کاپٹرز سکردو اور پہاڑی سلسلوں کے درمیان پرواز کرتے ہی رہتے ہیں

ہیلی کاپٹر کتنی بلندی تک پرواز کر سکتے ہیں؟

پاکستان میں عسکری ایوی ایشن کے پاس موجود ہیلی کاپٹرز سکردو اور پہاڑی سلسلوں کے درمیان پرواز کرتے ہی رہتے ہیں۔ یہ صرف کوہ پیماؤں کی جان بچانے کے لیے وقف نہیں ہیں۔
الپائن فیڈریشن کے سیکریٹری کے مطابق یہ ہیلی کاپٹرز موسم کی مناسبت سے پرواز کرتے ہیں اور بہت خراب موسم میں موثر نہیں ہوتے۔ ان کی پرواز پانچ سے چھ ہزار میٹرز کے درمیان ہوتی ہے جبکہ پولش کوہ پیما سات ہزار چار سو میٹرز سے اوپر پہنچ گئے تھے۔

کیا کسی ریسکیو ادارے کی کمی ہے؟

پاکستان میں جیسمن ٹور آپریٹرز کے مینیجنگ ڈایریکٹر اصغر علی پوریک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے ادارے کی کمی ہے جو مقامی اور غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ریسکیو کے لیے مختص ہو اور کسی بھی حادثے کی صورت میں فوراً از خود کام شروع کردے۔
حال ہی میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کر کے آنے والے کرنل ریٹائرڈ عبدالجبار بھٹی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے جغرافیہ اور سکیورٹی کی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی نجی ادارہ یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس کام کے لیے کسی بھی ادارے کو پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی مدد درکار ہو گی۔ تاہم عبدالجبار بھٹی نے ایسے ادارے کی تشکیل پر زور دیا جو ریسکیو کے کام کے لیے وقف ہو۔
انھوں نے بتایا کہ ماؤنٹ ایورسٹ سے خود ان کے ریسکیو میں تاخیر نیپال میں ان کے ٹور آپریٹر کی وجہ سے ہوئی تھی جو ریسکیو کا عمل شروع کرنے سے قبل رقم کی ادائیگی کی یقین دہانی چاہ رہا تھا۔ 'مجھے تو کوہ پیماؤں نے بچایا جو واپس نیچے جا رہے تھے، ٹور آپریٹر تو ہمارے سفارتخانے سے مول بھاؤ کر رہا تھا۔'
الپائن فیڈریشن کے سیکریٹری کرار حیدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وفاقی، صوبائی یا فورسز کے تعاون سے ایک ایسا ادادہ وجود میں آنا چاہیے جس کے پاس جدید ہیلی کاپٹرز موجود ہوں جو اونچائی تک پرواز کر سکیں اور حادثے کی صورت میں جان بچانے والے بھی جو وہاں کے موسم کے عادی ہوں۔
ایسے افراد کو معقول تنخواہ پر رکھا جائے تو کوہ پیمائی کی مہمات کے دوران حادثات میں کمی آ سکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment