Source: http://www.bbc.com/urdu/world-39263733
کیا کوئی عورت دوسری عورت کا ریپ کر سکتی ہے؟
برطانیہ کی ریبکا ٹوئنلی بتاتی ہیں کہ کس طرح ایک عوامی جگہ پر ایک دوسری خاتون نے ان پر تشدد اور ریپ کیا۔
انھوں نے بی بی سی تھری کے لیے اپنی جدو جہد کا ذکر کیا جسے نیچے پیش کیا جا رہا ہے:
ریبکا ٹوئنلی کے مطابق تقریباً 18 سال قبل عوامی جگہ پر ایک اجنبی خاتون نے پرتشدد طریقے سے میرا ریپ کیا اور مار پیٹ کی۔
’میں کسی طرح وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب رہی اور سیدھے گھر پہنچی۔ میں اس بات پر متفکر تھی کہ جب لوگ میرے چہرے پر نیلے نشانات کے بارے میں پوچھیں گے تو میں کیا جواب دوں گی۔‘
اگلے دن میں نے اپنی دوست کو پوری کہانی بتائی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں سمجھ پا رہی کہ ایک خاتون کس طرح دوسری خاتون کا ریپ کر سکتی ہے۔
’پرتشدد خاتون کی حرکت نے مجھے تنہا و بے بس کر دیا تھا۔‘
خواتین کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ حساس، جذباتی اور مددگار ہوتی ہیں، لیکن زیادہ تر لوگوں کو یہ سمجھنے میں دقت ہوتی ہے کہ وہ بھی مردوں کی طرح ہی ظالم بھی ہو سکتی ہیں۔
ایک عورت کے ہاتھ دوسری عورت کا ریپ، جنسی ہوس سے زیادہ تشدد کا معاملہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ خواتین میں آپسی رضامندی سے تعلقات بنانے کے متعلق سمجھ کی کمی سے یہ مسئلہ مزید خوفناک صورت اختیار کر لیتا ہے۔
ریبکا ٹوئنلی کے مطابق اسی لیے جب میری دوست اور ساتھی نے سرد مہری دکھائی تو میں نے پولیس میں رپورٹ درج کرانے کا ارادہ ترک کر دیا۔
’میں نے سوچا اگر وہ خود عورت ہو کر یہ نہیں سمجھ رہی ہے تو باقی کیا سمجھیں گے؟ مجھے اس وقت کسی کی مدد اور معلومات کی ضرورت تھی لیکن میں بالکل تنہا محسوس کر رہی تھی۔‘
برطانیہ میں پیش آنے والے اس واقعہ کے چند سال بعد سنہ 2010 میں میں نے پلائماؤتھ یونیورسٹی میں کام کرنا شروع کیا اور یہاں مجھے ڈاكٹریٹ کی پڑھائی کا موقع ملا۔
’اب تک اس طرح کی صورت حال سے گزرنے والی کئی خواتین کو میں جان چکی تھی اس لیے میں نے اس پر تحقیق کرنے ارادہ کر لیا۔‘
میں نے ایک آن لائن سروے کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہاں اور ناں کی شکل میں ایک سوالنامہ تیار کیا جس میں ایک آخری سوال بھی شامل تھا کہ کیا آپ ایک عورت کے ہاتھوں کسی دوسری عورت کے ریپ کو ممکن سمجھتے ہیں؟
اس سروے میں 159 لوگوں نے شرکت کیا اور ان میں سے کسی نے بھی آخری سوال کے جواب میں ہاں نہیں لکھا۔
اس طرح کے ریپ کے اعداد و شمار حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے تاہم بی بی سی ریڈیو شو میں انٹرویو کے دوران ریپ كرائسس ان انگلینڈ' نامی تنظیم کی چیف ایگزیکٹو یونے ٹراينر نے مجھے بتایا تھا کہ 'ریپ کے 10 فیصد واقعات میں حملہ آور خواتین ہوتی ہیں۔‘
سروے میں حصہ لینے والے ایک شخص نے بتایا کہ سب سے بڑی دقت ریپ کی قانونی تعریف ہے جس کی وجہ سے ایسے معاملے عدالت تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔
1994 تک برطانیہ میں قانونی طور پر یہ تسلیم کیا جاتا تھا کہ صرف مرد ہی خواتین کے ساتھ ریپ کر سکتے ہیں۔
لیکن ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی این جی او سٹون وال نے اس قانون کو یہ باور کرایا کہ ایک مرد بھی دوسرے مرد کا ریپ کر سکتا ہے۔
2016 میں ریپ کی قانونی تعریف میں تبدیلی کے لیے ایک درخواست داخل کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک عورت بھی مرد کا ریپ کر سکتی ہے لیکن برطانوی حکومت نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ تعریف میں تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
ایک خاتون کیلی نے مجھے بتایا کہ ’ان سے عمر میں بڑی ایک خاتون 16 سال تک ریپ کرتی رہی تھی۔ انھوں نے اپنے قریبی دوستوں سے اس بابت بات بھی کی لیکن انھوں نے اسے پولیس میں شکایت درج کرانے سے باز رکھا۔‘
ایک دوسری خاتون لارن نے بتایا کہ ایک خاتون نے انھیں ریپ کیا اور اس میں ان کے بوائے فرینڈ نے اس کی مدد کی اور اس نے اس پر تشدد بھی کیا۔
لارن نے پولیس میں شکایت درج کی لیکن ان پر مقدم نہیں چلایا کیونکہ انھیں دھمکیاں مل رہی تھی۔
لارن نے بتایا کہ جب انھوں نے پولیس میں شکایت درج کی تو وہاں موجود خاتون پولیس نے کہا کہ تجربے کے طور پر اس کا ذکر کرنا اچھی بات ہے۔
تحقیق کے دوران جب میں نے ایک عورت سے پوچھا کہ وہ کیوں اس تحقیق میں شامل ہونا چاہتی ہیں، تو ان کا جواب تھا، 'بیداری بڑھانے کے لیے۔'
No comments:
Post a Comment