Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-42800062
عالمی تنظیموں کی بندش: صحرائے تھر کا کیا ہو گا؟
دیا رام مینگھواڑ کاشت کے لیے پہلے سال بھر بارش کا انتظار کرتے تھے لیکن اب انھیں ایسا نہیں کرنا پڑتا، وہ زیر زمین کھارے پانی کو استعمال کر کے سبزیاں اگا لیتے ہیں۔
دیا رام صحرائے تھر کے گاؤں چارنور کے رہائشی ہیں، کراچی سے 450 کلومیٹر دور انڈین سرحد کے قریب واقع اس گاؤں کے آس پاس کے علاقے میں پانی چار سو فٹ زیر زمین موجود ہے، جسے نکالنے کے لیے شمسی توانائی کا استعمال کیا گیا۔
ایسوسی ایشن فار اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ رینوایبل انرجی یعنی اوئر نے دیا رام کو کھارے پانی سے سبزیوں کی کاشت کی تربیت فراہم کی تھی۔
دیا رام کے چھوٹے سے باغیچے میں گاجر، مولی، پالک اور سرسوں لگی ہوئی تھیں، انھوں نے بتایا کہ وہ پیاز اور بھنڈی کی بھی کاشت کر چکے ہیں۔
’ان سبزیوں میں سے کچھ ہم گھر میں استعمال کرتے ہیں جبکہ باقی فروخت کر کے بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، گذشتہ دو سالوں میں کچھ رقم جمع کرکے میں اپنا قرضہ بھی ادا کر چکا ہوں جو میں نے اس وقت اٹھایا تھا جب بئراجی علاقے میں کسان تھا۔‘
چار نور گاؤں کے علاوہ دیگر 15 دیہات کی آبادی اب اس منصوبے سے مستفید ہو کر تازہ سبزیاں حاصل کر رہی ہے، جہاں 200 خاندان یہ سبزیاں اگا رہے ہیں۔
تھر ایک سال قبل تک مسلسل قحط سالی کا شکار رہا، جس وجہ سے یہاں خوراک کی کمی نے بحرانی صورتحال اختیار کر لی جس کا نشانہ نومولود بچے اور خواتین زیادہ ہوئیں۔
مقامی میڈیا نے گذشتہ سال ایک ہزار سے زائد نومولود بچوں کی اموات کی خبریں شائع کیں، صوبائی وزیر صحت سکندر مندھرو کا کہنا ہے کہ تھر میں ماؤں کی صحت پر توجہ کی ضرورت ہے۔
تھر میں زراعت کا دارو مدار بارشوں پر ہے جبکہ گزر بسر کا دوسرا ذریعہ مال مویشی ہیں جو قحط کے دوران چارے کے فقدان کی وجہ سے پہلے کمزور ہوتے ہیں اور پھر ہلاک ہو جاتے ہیں، غیرسرکاری تنظیم اوئر نے ان جانوروں کی ویکیسینیشن کا بھی پروگرام شروع کر رکھا تھا۔
نصراللہ ساند گاؤں کی رضیہ ساند تین بچوں کی ماں ہیں، وہ بچپن میں تعلیم حاصل نہیں کر سکیں۔ اب انھوں نے یہ شوق پورا کرلیا ہے، اوئر کے ایسے نو سینٹرز ہیں جہاں تعلیم بالغان، مقامی معلومات، ماحول اور عام استعمال کے الفاظ کی روشنی میں دی جا رہی ہے، صرف نصراللہ گاؤں میں 18 سے 40 سال کی عمر کی 30 خواتین اب خواندہ ہیں۔
رضیہ ساند کا کہنا ہے کہ وہ اب گھر کے راشن کا حساب کتاب لکھ لیتی ہیں، مرد شہر سے جو جلد بازی میں دوا لے کر آتے ہیں اب ان کی مدت میعاد بھی پڑھ لیتے ہیں۔ پہلے ان کے شناختی کارڈ پر انگوٹھے کے نشانات تھے لیکن اب وہ دستخط کر سکتی ہیں۔
خواتین کے اس گروپ نے گاؤں میں بچوں کی نو شادیوں کو بھی روکا اور ایک سکیم شروع کی ہے جس کے تحت 18 سال کی عمر میں شادی کرانے والے خاندان کی سلائی مشین، برتن اور کپڑوں کی امداد کی صورت میں مدد کی جاتی ہے۔
تھر کے پسماندہ علاقے میں ان منصوبوں کے لیے اوئر کو ایکشن ایڈ نامی عالمی سماجی تنظیم کی مالی مدد حاصل تھی، جس کو حکومت پاکستان نے کام کرنے سے روک دیا نتیجے میں ان منصوبوں کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔
ایکشن ایڈ پاکستان کے 23 اضلاع میں کام کر رہی تھی، جس کا مرکز خواتین کے حقوق کا فروغ، صنفی برابری، لوگوں کو خوراک کے حقوق، انسانی ذرائع شامل تھا۔ کیا حکومت ان منصوبوں کو خود سنبھالنےکی اہلیت رکھتی ہے؟
ایسوسی ایشن فار اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ رینو ایبل انرجی کے ڈائریکٹر علی اکبر راہموں کا کہنا ہے کہ 18ویں آئینی ترامیم کے بعد بیشتر محکمے اور ذمہ درایاں اب صوبائی حکومت کے پاس ہیں لیکن ان کے پاس ایسے کوئی منصوبے نہیں ہیں۔
’تھر میں خوراک کی کمی کے حوالے سے جو شکایات ہیں، ان کے ازالے کے لیے محکمہ صحت دوائیں اور فوڈ سپلیمنٹ تو فراہم کر رہا ہے لیکن یہاں ایگریکلچر ایکسٹینشن ہے یا ایگریکلچر ریسرچ کا کوئی کام نظر نہیں آتا۔‘
علی اکبر کا کہنا ہے کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی، تعلیم اور بجلی یہ سہولیات تو شہروں تک محدود ہیں اور ان سہولیات کے لیے شہروں میں زیادہ آواز اٹھتی ہے لہذٰا حکومت کا فوکس زیادہ تر وہاں ہوتا ہے کیونکہ ان کے سیاسی نمبر وہاں ہی بنتے ہیں۔ پسماندہ علاقے ان کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ جہاں غیر سرکاری تنظیمیں یہ کمی دور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
بنیادی سہولیات اور انسانی حقوق ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن مبصرین کے مطابق ان کی فراہمی میں کمزوری کی وجہ سے غیر سرکاری تنظیموں کا ان شعبوں میں کردار سامنے آیا نتیجہ یہ ہوا کہ شعور، آگاہی اور سماجی مواقع ملنے پر لوگوں نے ریاست کے کردار پر سوالات بھی اٹھائے ۔ یہ صورتحال، بظاہر ریاستی اداروں کے لیے قابل قبول دکھائی نہیں دیتی۔
No comments:
Post a Comment