Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-42792744
انڈیا: ہسپتال میں بدل جانے والے بچوں کا حقیقی والدین کے پاس جانے سے انکار
یہ کسی بالی وڈ فلم کے سکرپٹ کا حصہ لگتا ہے۔
پہلے تو دو بچے ایک منٹ کے فرق سے پیدا ہوئے اور پھر حادثاتی طور پر ہسپتال میں ہی بدل گئے۔
اس کے بعد ہوا یہ کہ ان کا تعلق بالکل ہی مختلف پس منظر سے تھا۔ ایک کے والدین قبائلی ہندو اور دوسرے بچے کے والدین مسلمان تھے۔
اصل موڑ کہاں آیا؟ حکام کے ساتھ ایک طویل لڑائی کے بعد آخر کار دو سال اور نو ماہ بعد ڈی این اے ٹیسٹ آ گئے تو بچوں نے ان والدین کو چھوڑ کر جانے سے انکار کر دیا جنھوں نے انھیں پال کر بڑا کیا۔
یہ بھی پڑھیے
بدھ کو دونوں بچوں کے والدین عدالت میں ہیش ہوئے اور اس بات کی تصدیق کی کہ وہ بچوں کو لے کر آئیں گے۔
یہ کہانی انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کی ہے۔
شہاب الدین احمد کا کہنا ہے کہ وہ 11 مارچ 2015 کی صبح چھ بجے اپنی بیوی سلمہ پروین کو منگلدائی سول ہسپتال لے کر گئے جہاں ایک گھنٹے بعد ان کے ہاں ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ نارمل ڈیلیوری ہوئی تھی اس لیے اگلے ہی دن ہسپتال والوں نے ان کی بیوی کو گھر جانے دیا۔
’ایک ہفتے بعد میری بیوی نے مجھ سے کہا، یہ بچہ ہمارا نہیں ہے۔ میں نے کہا تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟ تمھیں معصوم بچے کے بارے میں ایسا نہیں کہنا چاہیے۔ لیکن میری بیوی نے کہا کہ لیبر روم میں ہی ایک بوڈو قبیلے کی خاتون بھی موجود تھی اور میرے خیال میں بچے بدل گئے ہیں۔ میں نے اپنی بیوی کی باتوں پر یقین نہیں کیا، لیکن وہ بار بار کہتی رہی۔‘
سلمہ پروین نے اس بارے میں کہا کہ انھیں شروع سے ہی شک تھا کہ جنید ان کا بیٹا نہیں ہے۔
’جب میں نے اس کا چہرہ دیکھا تو مجھے شک ہو ا۔ مجھے لیبر روم میں موجود دوسری خاتون کا چہرہ یاد ہے اور یہ بچہ اس خاتون جیسا لگتا ہے۔ میں اس کی آنکھوں کو دیکھ کر کہہ سکتی ہوں، اس کی آنکھیں چھوٹی ہیں اور میرے خاندان میں کسی کی آنکھیں اس جیسے نہیں۔‘
جب شہاب الدین احمد نے ہسپتال کی سپریٹینڈنٹ کو اپنی بیوی کے شک کے بارے میں بتایا تو انھوں نے کہا کہ ان کی بیوی ذہنی بیمار ہیں اور انھیں نفسیاتی ماہر کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد شہاب الدین احمد نے معلومات کے حصول کے حق کے تحت اس دن سات بجے کے آس پاس پیدا ہونے والے تمام بچوں کی معلومات کے لیے درخواست دی۔
ایک ماہ بعد انھیں سات خواتین کی معلومات موصول ہوئیں۔ اس ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد انھوں نے اس ’قبائلی خاتون‘ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس کے مطابق کئی چیزوں میں مماثلت تھی، دونوں خواتین نے لڑکوں کو جنم دیا، دونوں ہی کا وزن تین کلو گرام تھا اور دونوں کی پیدائیش پانچ منٹ کے فرق سے ہی ہوئی تھی۔
شہاب الدین احمد کا کہنا ہے کہ ’میں دو بار ان کے گاؤں گیا لیکن مجھ میں ان کے گھر جانے کی ہمت نہیں تھی۔‘
’تو میں نے انھیں ایک خط لکھا اور کہا کہ میری بیوی کو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بچے بدل گئے ہیں، اور ان سے پوچھا کہ کیا انھیں بھی ایسا کچھ شک ہے۔ میں نے خط کے آخر میں اپنا فون نمبر لکھا اور ان سے کال کرنے کو کہا۔‘
شہاب الدین کے گھر سے تقریباً 30 کلو میٹر دور ہی انیل اور شیوالی بورو اپنے بچے ریان چندرا کے ہمراہ رہتے ہیں۔
جب تک انھیں شہاب الدین کا خط نہیں ملا تھا اس سے پہلے تک انھیں کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا تھا کہ بچے آپس میں بدلے ہیں۔ انیل بورو، ان کی بیوی اور گھر والوں کو یقین نہیں آیا کہ ایسا بھی مکمن ہے، لیکن چیزیں اس وقت تبدیل ہو گئیں جب دونوں خاندان آپس میں ملے۔
شیوالی بورو کہتی ہیں کہ ’جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو مجھے لگا کہ وہ بالکل اپنے باپ جیسا ہے، مجھے بہت دکھ ہوا اور میں رو پڑی۔ ہم بوڈو قبیلے کے ہیں اور دیگر آسام کے رہنے والوں یا مسلمانوں جیسے نہیں ہیں۔ ہماری آنکھیں اوپر کی طرف اٹھی ہوئی ہوتی ہیں اور ہمارے گال اور ہاتھ گول مٹول ہوتے ہیں۔ ہم مختلف ہیں ہمارے خد وخال منگولیوں جیسے ہیں۔‘
سلمہ پروین کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے ریان کو پہلی بار دیکھا تو انھیں یقین ہو گیا کہ وہی ان کا بیٹا ہے اور وہ اسی وقت اسی حالت میں بچے تبدیل کرنے کو تیار تھیں لیکن انیل بورو کی والدہ نے انکار کر دیا۔
شہاب الدین احمد کے اسرار پر ہسپتال انتظامیہ نے ان الزامات کی تحقیقات شروع کر دیں لیکن اس دن ڈیوٹی پر موجود نرس سے بات کرنے کے بعد انتظامیہ نے الزامات کو مسترد کر دیا۔
شہاب قائل نا ہوئے اور انھوں نے اپنی بیوی اور بچے کے خون کے نمونے اگست 2015 میں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے بھیج دیے اور جب رپورٹ آئی تو ان کے پاس آخر کار جواز موجود تھا، کہ سلمہ پروین اور جنید کے جینز آپس میں نہیں ملتے۔
اس کے بعد جب ہسپتال انتظامیہ نے ان سے کہا کہ یہ رپورٹ قانون کے مطابق قابل قبول نہیں تو انھوں نے اسی سال دسمبر میں پولیس کے پاس درخواست جمع کروائی۔
اس کیس کی تحقیقات کرنے والے سب انسپیکٹر ہیمانتا بروہا نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ہسپتال سے پیدائشی ریکارڈ حاصل کیا اور دونوں خاندانوں سے ملاقات کی تاکہ کہانی کو جوڑ سکیں۔
جنوری 2016 میں خون کے نمونوں کے ہمراہ کلتکہ گئے جہاں فارینزک لیبارٹری نے فارم میں غلطی کی بنا پر ٹیسٹ کرنے سے انکار کر دیا۔
’لہذا ہم نے گذشتہ سال اپریل میں دوسری مرتبہ نمونے لیے جن کا ریاستی دارالحکومت گوہاٹی میں تجزیہ کیا گیا، نومبر میں ہمیں اس کی رپورٹ ملی جس سے شہاب الدین احمد کی جانب سے پیدائش کے وقت بچے تبدیل ہونے کے الزامات صحیح ثابت ہوئے۔‘
ہیمانتا بروہا نے اس کے بعد شہاب الدین سے کہا کہ وہ عدالت جائیں اور مجسٹریٹ سے بچوں کو حقیقی والدین کے پاس بھیجنے کی درخواست کریں۔ لیکن جب چار جنوری کو دونوں خاندان بچوں کو تبدیل کرنے کے لیے عدالت آئے تو بچوں نے ان والدین کو چھوڑنے سے انکار کر دیا جنھوں نے انھیں پالا۔
سلمہ پروین کہتی ہیں کہ’میجسٹریٹ ہم سے کہا کہ اگر ہم ان بچوں کو واپس تبدیل کرنا چاہتے تو ہم کر سکتے تھے لیکن ہم نے کہا کہ ہم نہیں کریں گے، کیونکہ ہم نے انھیں تین سال تک پالا ہے، ہم ایسے ہی انھیں نہیں جانے دے سکتے۔‘
’جنید رو رہا تھا،وہ میرے دیور کی گود میں تھا اور اس نے انھیں زور سے پکڑا ہوا تھا، ان کی گردن میں باہیں ڈالی ہوئی تھیں اور وہ جانے سے انکار کر رہا تھا۔‘
ایسا ہی کچھ حال ریان کا بھی تھا۔ اس نے شیوالی بورو کی گردن میں باہیں ڈالیں اور روتے ہوئے جانے سے انکار کر دیا۔
انیل بورو کہتے ہیں کہ بچوں کو اس وقت تبدیل کرنا انھیں جذباتی طور پر تکلیف دے سکتا تھا کیونکہ وہ بہت چھوٹے ہیں اور انھیں نہیں معلوم کہ ہو کیا رہا ہے۔
لازمی بات ہے بچے اس خاندان کے ساتھ بہت جڑے ہوئے تھے جن کے ساتھ وہ اب تک رہ رہے تھے اور ایک گہرا تعلق بن چکا تھا۔
در حقیقت جب میں گذشتہ ہفتے ان کے گھر گئی تو ریان کی دادی اسے لے گئیں کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ کہیں ریان کو لے نہ جائیں۔
ایک گھنٹے بعد اس کے ایک چچا اسے واپس لے آئے ۔
جیسے ہی ریان ان کے پاس خوشی سے جا کر بیٹھا تو انھوں نے مجھ سے بیتابی سے پوچھا: ’کیا کوئی مسئلہ ہے؟ کیا وہ اسے لے جائیں گے؟‘
ساتھ ہی بچے کے چچا بھی بول پڑے: ’اس کے چہرے کو دیکھیں، یہ کتنا پیارا ہے، ہمیں کیسے اسے دے دیں؟‘
اس دوران ریان ایک لمحے کو بھی شیوالی بورو کے پاس سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔
جنید بھی احمد فیملی کے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔
سلمہ پروین کہتی ہیں کہ ’جس روز ہم بچوں کو بدلنے کے لیے عدالت جا رہے تھے تو میری آٹھ سالہ بیٹی نے کہا کہ ماں اسے دور نہ بھجیں، اگر یہ چلا گیا تو میں مر جاؤں گی۔‘
میں نے ان سے پوچھا کہ الگ الگ مذہب کسی روز مسئلہ بن سکتا ہے۔
ان کا جواب تھا: ’بچہ تو بچہ ہے۔ وہ خدا کا تحفہ ہے وہ نہ تو ہندو ہے اور نہ ہی مسلمان، سب کا حلیہ ایک سا ہی ہوتا ہے۔ وہ اس دنیا میں آکر ہندو یا مسلمان بنتے ہیں۔‘
شہاب الدین احمد کہتے ہیں کہ بچوں کو اگر پھر سے تبدیل کیا گیا تو وہ نہیں رہ پائیں گے کیونکہ دونوں خاندانوں کے زندگی گزارنے کا طریقہ کار، زبان، ثقافت، خوراک اور عادات میں فرق ہے۔
ماؤں کے لیے تو اندرونی بحث صاف واضح ہے لیکن یہ بات بھی ظاہر ہے کہ ان کا بچوں کے ساتھ گہرا تعلق قائم ہو چکا ہے، لیکن جسے انھوں نے اپنی کوکھ میں رکھا اس سے بھی جذبات جڑے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب بچے بڑے ہوں گے تو وہ خود فیصلہ کریں گے کہ وہ کہاں رہنا چاہتے ہیں۔
فی الحال دونوں خاندان کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے درمیان مسلسل ملاقتیں ہوں اور وہ دوست بن جائیں، تاکہ کسی طرح وہ اپنے حقیقی بچوں کی زندگی کا حصہ بن سکیں۔
No comments:
Post a Comment