Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-42804832
مہاتما گاندھی کے قتل سے انڈیا کے مسلمانوں کو سکتہ ہوگیا
30جنوری 1948 کی شام دہلی میں البقرق روڈ پر واقع بِرلا ہاؤس میں قتل کی ایک ایسی واردات ہوئی جس سے ہندوستان کے عوام، بالخصوص مسلمان، سکتے میں آگئے۔
مگر اس خبر میں مسلمانوں کے لیے شاید رنج کے مقابلے میں خوف کا پہلو زیادہ نمایاں تھا۔
اُس شام برصغیر کی تحریک آزادی کے ایک بڑے راہنما موہن داس کرم چند گاندھی یا مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔
دلی کا بِرلا ہاؤس اب 'گاندھی سمرِتی' یعنی گاندھی کی یادگار کہلاتا ہے جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے آخری 144 ایّام گزارے تھے۔ البقرق روڈ اب اُس تاریخ کی نِسبت سے 'تیس جنوری مارگ (روڈ)' کہلاتی ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر/نومبر میں جب میں بی بی سی کے کام سے دلی گیا تو گاندھی سمرِتی جانا لازمی تھا، اس لیے نہیں کہ میرا ویزا اس یاترا سے مشروط تھا۔ بلکہ میں وقوعہ کی جگہ کھڑے ہوکر اُس لمحے کا تصور کرنا چاہتا تھا جو میرے بزرگوں کی یادداشت میں ستّر برس بعد بھی تازہ ہے۔
مسلمانوں میں خوف
بی بی سی کے سابق براڈکاسٹر اور میرے مربی، علی احمد خان، جن کی عمر اُس وقت آٹھ برس تھی اور یو پی کے قصبے زمانیہ میں رہتے تھے، اُس وقت کو یوں یاد کرتے ہیں: 'مجھے اچھی طرح یاد ہے جب مہاتما گاندھی کا قتل ہوا تو ایک سنّاٹے کی سی کیفیت ہوگئی ۔۔۔ تھوڑی دیر میں جب پتہ چلا کہ قاتل مسلمان نہیں بلکہ ہندو ہے تو میرے دادا اور گھروالوں نے سکون کا سانس لیا۔'
خود میرے والد ملازمت کے سلسلے میں ان دنوں ممبئی میں تھے۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا: 'ہم بمبئی میں رہتے تھے۔ شام کو علاقے کا تھانیدار آیا اور تمھارے نانا کو بتایا کہ گاندھی کا قتل ہوگیا ہے ۔ اپنے لوگوں کو آس پاس آنے جانے میں احتیاط برتنے کا کہدو۔ کچھ دیر بعد وہ ہی تھانیدار پھر آیا اور کہا قاتل ہندو ہے اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔'
برِصغیر کی تقسیم کے ستّر سال کی نسبت سے گزشتہ برس جب میں نے ممبئی میں پینتیس برس گزارنے والے نناوے برس کے اپنے رشتے کے چچا سعید سلام کا انٹرویو کیا تو ان کے ذہن میں بھی اس دن کی یاد تازہ تھی: 'جب گاندھی کا قتل ہوا تو ہم گھبرا گئے۔ مگر جب تھوڑی دیر کے بعد اعلان ہوا کہ گاندھی کا قاتل ہندو ہے، مسلمان نہیں، تو ہم سب نے سکون کا سانس لیا۔'
یہ تین شواہد اس روز ہندوستان کے مسلمانوں کی ذہنی کیفیت کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔
گاندھی کی سمرِتی میں پہلا پاکستانی
میں نے جب گاندھی سمرِتی کے استقبالیہ کلرک کو بتایا میں پاکستانی ہوں تو اس نے بڑی حیرانی سے کہا: 'میں تین سال سے یہاں کام کر رہا ہوں۔ آپ پہلے پاکستانی ہیں جو گاندھی سمرِتی دیکھنے آئے ہیں۔'
قائداعظم محمد علی جناح کا خراجِ عقیدت
پتہ نہیں دلی جانے والے پاکستانی وہاں کیوں نہیں جاتے۔ حالانکہ قائداعظم محمد علی جناج نے تو مہاتما گاندھی کے قتل کی خبر سن کر اسی روز اپنے تعزیتی پیغام میں کہا تھا:
'مجھے مسٹر گاندھی پر حملے اور اس کے نتیجے میں ان کی موت کا جان کر صدمہ ہوا۔ ہمارے اختلافات اپنی جگہ مگر وہ ہندوؤں میں پیدا ہونے والی عظیم شخصیتوں میں سے ایک تھے۔ انھیں اپنے لوگوں کی مکمل تعظیم اور اعتماد حاصل تھا۔ ہندوستان کے لیے یہ نقصانِ عظیم ہے۔ ان کی موت سے پیدا ہونے والا خلا پُر ہونا بہت دشوار ہے۔'
مہاتما گاندھی 30 جنوری 1948 کو قتل سے پہلے بِرلا ہاؤس کے سبزہ زار پر حسبِ معمول پرارتھنا سبھا یا اجتماعی دعا میں شرکت کے لیے آ رہے تھے۔ اس محفل میں ہندو، مسلمان، سکھ، پارسی، الغرض مختلف عقائد والے شریک ہوتے تھے۔
اجتماع میں باچا خان کی شرکت
بی بی سی اردو کے سابق براڈ کاسٹر اور میرے سینئر ساتھی آصف جیلانی اس زمانے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیر تعلیم تھے۔ ایک بار انھیں بھی اس اجتماع میں جانے کا اتفاق ہوا۔
بقول ان کے جب 1946 میں باچا خان (خان عبدالغفار خان یا سرحدی گاندھی) کیبنٹ مشن کے مذاکرات کے سلسلے میں دلی آئے تو جامعہ میں قیام کیا۔ ان کی دیکھ بھال آصف جیلانی کے سپرد تھی۔ ایک دن باچا خان کے کہنے پر وہ انھیں بِرلا ہاؤس لے گئے۔
آصف جیلانی پرارتھنا سبھا کا احوال یوں بیان کرتے ہیں: 'گاندھی جی جو سفید چادر اوڑھے ہوئے تھے سب کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کرتے ہوئے چوکی پر بیٹھ گئے۔ پہلے ایک صاحب نے قرآن پاک کی آیت پڑھی، پھر زرتشتیوں کی مقدس کتاب اوستا کے اووستان پڑھے گئے، اس کے بعد وید کے اشلوک، اور گرو گرنتھ صاحب کی گروبانی پڑھی گئی۔ بھجن شروع ہوا تو گاندھی جی نے آنکھیں کھولیں اور سب کے ساتھ شامل ہوگئے: ایشور اللہ تیرے نام، سب کو سنمتی دے بھگوان۔۔۔'
مہاتما گاندھی کا قاتل
20 اپریل 1947 ایک موقع پر انھوں نے خود کہا تھا: 'اگر میں قتل بھی کر دیا جاؤں تو میں رام اور رحیم کے ناموں کا ذِکر، جن کا مطلب میرے لیے ایک ہی خدا ہے، کرنا نہیں چھوڑوں گا۔ اپنے لبوں پر ان ناموں کا وِرد لیے میں بخوشی موت کو گلے لگا لوں گا۔'
ٹھیک نو ماہ اور دس روز بعد 30 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کے قاتل، ناتھو رام گوڈسے، جن کا تعلق مبینہ طور پر ایک ہندو شدت پسند تنظیم سے تھا، اسی سبزہ زار پر اجتماعی دعا کے لیے موجود مجمع میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔
چشم دید گواہوں کے مطابق ناتھو رام مجمع میں سے اٹھے اور پرنام یا تعظیم کرنے کے انداز میں آگے بڑھ کر مہاتما گاندھی پر فائرنگ کر دی۔
مہاتما گاندھی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ’اہنسا‘ یعنی عدم تشدد پر مبنی احتجاجی تحریک کے قائل تھے اور تمام عمر اسی کا پرچار کیا۔ انھوں نے ہندو مسلم بھائی چارے اور ہندوستان کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے بھی کوششیں کیں۔
باوجود اس کے کہ 30 جنوری مارگ پر واقع گاندھی سمرِتی میں آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے، آج کے انڈیا میں مہاتما گاندھی کی فکر کا چرچا کم اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کا نظریہ سیاست چھایا نظر آتا ہے۔
No comments:
Post a Comment