Monday, 29 January 2018

KARAM CHAND GHANDI MURDER MOMENT: MUSLIMS WERE IN HVAOC + WAIT AND SEE


Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-42804832

مہاتما گاندھی کے قتل سے انڈیا کے مسلمانوں کو سکتہ ہوگیا


مہاتما گاندھی کی نعشتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionمہاتما گاندھی کو 30 جنوری 1948 کو دہلی میں قتل کیا گیا

30جنوری 1948 کی شام دہلی میں البقرق روڈ پر واقع بِرلا ہاؤس میں قتل کی ایک ایسی واردات ہوئی جس سے ہندوستان کے عوام، بالخصوص مسلمان، سکتے میں آگئے۔
مگر اس خبر میں مسلمانوں کے لیے شاید رنج کے مقابلے میں خوف کا پہلو زیادہ نمایاں تھا۔
اُس شام برصغیر کی تحریک آزادی کے ایک بڑے راہنما موہن داس کرم چند گاندھی یا مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔

جائے وقوعہ
Image captionبِرلا ہاؤس کے سبزرہ زار پر وہ جگہ جہاں مہاتما گاندھی کو گولیاں ماری گئیں

دلی کا بِرلا ہاؤس اب 'گاندھی سمرِتی' یعنی گاندھی کی یادگار کہلاتا ہے جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے آخری 144 ایّام گزارے تھے۔ البقرق روڈ اب اُس تاریخ کی نِسبت سے 'تیس جنوری مارگ (روڈ)' کہلاتی ہے۔

تیس جنوری مارگ
Image captionمہاتما گاندھی کے قتل کی تاریخ کی نسبت سے تیس جنوری مارگ جس کا پرانا نام البقرق روڈ تھا

گزشتہ سال اکتوبر/نومبر میں جب میں بی بی سی کے کام سے دلی گیا تو گاندھی سمرِتی جانا لازمی تھا، اس لیے نہیں کہ میرا ویزا اس یاترا سے مشروط تھا۔ بلکہ میں وقوعہ کی جگہ کھڑے ہوکر اُس لمحے کا تصور کرنا چاہتا تھا جو میرے بزرگوں کی یادداشت میں ستّر برس بعد بھی تازہ ہے۔

مہاتما گاندھی کا ترکہ
Image captionمہاتما گاندھی کا ترکہ بِرلا ہاؤس میں محفوظ - ’بعد مرنے کے میرے گھر سے یہ ساماں نکلا‘

مسلمانوں میں خوف
بی بی سی کے سابق براڈکاسٹر اور میرے مربی، علی احمد خان، جن کی عمر اُس وقت آٹھ برس تھی اور یو پی کے قصبے زمانیہ میں رہتے تھے، اُس وقت کو یوں یاد کرتے ہیں: 'مجھے اچھی طرح یاد ہے جب مہاتما گاندھی کا قتل ہوا تو ایک سنّاٹے کی سی کیفیت ہوگئی ۔۔۔ تھوڑی دیر میں جب پتہ چلا کہ قاتل مسلمان نہیں بلکہ ہندو ہے تو میرے دادا اور گھروالوں نے سکون کا سانس لیا۔'
خود میرے والد ملازمت کے سلسلے میں ان دنوں ممبئی میں تھے۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا: 'ہم بمبئی میں رہتے تھے۔ شام کو علاقے کا تھانیدار آیا اور تمھارے نانا کو بتایا کہ گاندھی کا قتل ہوگیا ہے ۔ اپنے لوگوں کو آس پاس آنے جانے میں احتیاط برتنے کا کہدو۔ کچھ دیر بعد وہ ہی تھانیدار پھر آیا اور کہا قاتل ہندو ہے اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔'

مہاتما گاندھی کی کھڑاؤں کے نشان
Image captionموت سے پہلے مہاتما گاندھی کھڑاؤں پہنے اس راستے سے پرارتھنا سبھا کے لیے گزرے تھے

برِصغیر کی تقسیم کے ستّر سال کی نسبت سے گزشتہ برس جب میں نے ممبئی میں پینتیس برس گزارنے والے نناوے برس کے اپنے رشتے کے چچا سعید سلام کا انٹرویو کیا تو ان کے ذہن میں بھی اس دن کی یاد تازہ تھی: 'جب گاندھی کا قتل ہوا تو ہم گھبرا گئے۔ مگر جب تھوڑی دیر کے بعد اعلان ہوا کہ گاندھی کا قاتل ہندو ہے، مسلمان نہیں، تو ہم سب نے سکون کا سانس لیا۔'
یہ تین شواہد اس روز ہندوستان کے مسلمانوں کی ذہنی کیفیت کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔
گاندھی کی سمرِتی میں پہلا پاکستانی
میں نے جب گاندھی سمرِتی کے استقبالیہ کلرک کو بتایا میں پاکستانی ہوں تو اس نے بڑی حیرانی سے کہا: 'میں تین سال سے یہاں کام کر رہا ہوں۔ آپ پہلے پاکستانی ہیں جو گاندھی سمرِتی دیکھنے آئے ہیں۔'
قائداعظم محمد علی جناح کا خراجِ عقیدت
پتہ نہیں دلی جانے والے پاکستانی وہاں کیوں نہیں جاتے۔ حالانکہ قائداعظم محمد علی جناج نے تو مہاتما گاندھی کے قتل کی خبر سن کر اسی روز اپنے تعزیتی پیغام میں کہا تھا:
'مجھے مسٹر گاندھی پر حملے اور اس کے نتیجے میں ان کی موت کا جان کر صدمہ ہوا۔ ہمارے اختلافات اپنی جگہ مگر وہ ہندوؤں میں پیدا ہونے والی عظیم شخصیتوں میں سے ایک تھے۔ انھیں اپنے لوگوں کی مکمل تعظیم اور اعتماد حاصل تھا۔ ہندوستان کے لیے یہ نقصانِ عظیم ہے۔ ان کی موت سے پیدا ہونے والا خلا پُر ہونا بہت دشوار ہے۔'

مہاتما گاندھی اور قائدِ اعظمتصویر کے کاپی رائٹTOPICAL PRESS AGENCY
Image captionقائدِ اعظم محمد علی جناج نے مہاتما گاندھی کے قتل پر کہا تھا: ’مجھے مسٹر گاندھی پر حملے اور اس کے نتیجے میں ان کی موت کا جان کر صدمہ ہوا‘

مہاتما گاندھی 30 جنوری 1948 کو قتل سے پہلے بِرلا ہاؤس کے سبزہ زار پر حسبِ معمول پرارتھنا سبھا یا اجتماعی دعا میں شرکت کے لیے آ رہے تھے۔ اس محفل میں ہندو، مسلمان، سکھ، پارسی، الغرض مختلف عقائد والے شریک ہوتے تھے۔
اجتماع میں باچا خان کی شرکت
بی بی سی اردو کے سابق براڈ کاسٹر اور میرے سینئر ساتھی آصف جیلانی اس زمانے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیر تعلیم تھے۔ ایک بار انھیں بھی اس اجتماع میں جانے کا اتفاق ہوا۔

مہاتما گاندھی اور سرحدی گاندھیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption9 مئی 1938، مہاتما گاندھی، خان عبدالغفار خان اور گانگریس حامیوں کے ساتھ انڈین اور افغان سرحد پر

بقول ان کے جب 1946 میں باچا خان (خان عبدالغفار خان یا سرحدی گاندھی) کیبنٹ مشن کے مذاکرات کے سلسلے میں دلی آئے تو جامعہ میں قیام کیا۔ ان کی دیکھ بھال آصف جیلانی کے سپرد تھی۔ ایک دن باچا خان کے کہنے پر وہ انھیں بِرلا ہاؤس لے گئے۔

مہاتما گاندھی اور سرحدی گاندھی
Image captionمہاتما گاندھی اور سرحدی گاندھی سیاسی مقاصد اور سماجی تبدیلی کے لیے نظریہ عدم تشدد کے داعی تھے

آصف جیلانی پرارتھنا سبھا کا احوال یوں بیان کرتے ہیں: 'گاندھی جی جو سفید چادر اوڑھے ہوئے تھے سب کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کرتے ہوئے چوکی پر بیٹھ گئے۔ پہلے ایک صاحب نے قرآن پاک کی آیت پڑھی، پھر زرتشتیوں کی مقدس کتاب اوستا کے اووستان پڑھے گئے، اس کے بعد وید کے اشلوک، اور گرو گرنتھ صاحب کی گروبانی پڑھی گئی۔ بھجن شروع ہوا تو گاندھی جی نے آنکھیں کھولیں اور سب کے ساتھ شامل ہوگئے: ایشور اللہ تیرے نام، سب کو سنمتی دے بھگوان۔۔۔'

بِرلا ہاؤس کے سبزہ زار میں مہاتما گاندھی کی نشست
Image captionبِرلا ہاؤس کے سبزہ زار میں مہاتما گاندھی کی نشست جس کے عقب میں لکھا ہے کہ وہ رام اور رحیم کا ذکر کرتے ہوئے خوشی سے مرنا چاہیں گے۔

مہاتما گاندھی کا قاتل
20 اپریل 1947 ایک موقع پر انھوں نے خود کہا تھا: 'اگر میں قتل بھی کر دیا جاؤں تو میں رام اور رحیم کے ناموں کا ذِکر، جن کا مطلب میرے لیے ایک ہی خدا ہے، کرنا نہیں چھوڑوں گا۔ اپنے لبوں پر ان ناموں کا وِرد لیے میں بخوشی موت کو گلے لگا لوں گا۔'
ٹھیک نو ماہ اور دس روز بعد 30 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کے قاتل، ناتھو رام گوڈسے، جن کا تعلق مبینہ طور پر ایک ہندو شدت پسند تنظیم سے تھا، اسی سبزہ زار پر اجتماعی دعا کے لیے موجود مجمع میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔

قاتل ناتھو رام گوڈسے کمرۂ عدالت میںتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionدائیں جانب انتہائی نیچے مہاتما گاندھی کو قتل کرنے والے ناتھو رام گوڈسے کو گاندھی کے فلسفۂ عدم تشدد سمیت کئی باتوں سے اختلاف تھا

چشم دید گواہوں کے مطابق ناتھو رام مجمع میں سے اٹھے اور پرنام یا تعظیم کرنے کے انداز میں آگے بڑھ کر مہاتما گاندھی پر فائرنگ کر دی۔
مہاتما گاندھی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ’اہنسا‘ یعنی عدم تشدد پر مبنی احتجاجی تحریک کے قائل تھے اور تمام عمر اسی کا پرچار کیا۔ انھوں نے ہندو مسلم بھائی چارے اور ہندوستان کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے بھی کوششیں کیں۔

گاندھی سمرِتی میں آنے والے

باوجود اس کے کہ 30 جنوری مارگ پر واقع گاندھی سمرِتی میں آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے، آج کے انڈیا میں مہاتما گاندھی کی فکر کا چرچا کم اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کا نظریہ سیاست چھایا نظر آتا ہے۔

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment