Wednesday, 24 January 2018

DETORIARATING DEMOCRACY IN WORLD POLITCAL SCENARIO


Source: http://www.bbc.com/urdu/world-42792059

دنیا میں جمہوریت زوال پذیر

جمہوریت کا بحرانتصویر کے کاپی رائٹFREEDOM HOUSE
Image captionجمہوریت کو درپیش مسائل کا نتیجہ یہ ہے کہ عوامیت پسند یا پاپولِسٹ رہنما مقبول ہوتے جا رہے ہیں جو تارکین وطن کے خلاف ہیں
دنیا بھر میں جمہوریت مخالف رجحانات بڑے تشویشناک انداز میں بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے مطلق العنان حکمرانی اور عدم استحکام معمول بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جہاں لوگوں کو گذشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی اور شخصی آزادی کی ضمانت حاصل تھی، اب ان ممالک میں بھی عوام کو دوسری جنگ کے عظیم کے بعد کے سب سے بڑے جمہوری بحران کا سامنا ہے اور جوں جوں امریکہ اپنے روائتی قائدانہ کردار سے کنارہ کشی کر رہا ہے، دنیا ایک تاریک تر دور کی جانب بڑھ رہی ہے۔
’دنیا بھر میں آزادی اور جمہوریت کے فروغ‘ کے لیے کام کرنے والے ایک امریکی تھِنک ٹینک فریڈم ہاؤس کے عالمی جمہوریت کے سالانہ جائزے کے نتائج کے مطابق دنیا میں جمہوریت کو ایک بحران کا سامنا ہے۔ جائزے کے مطابق سنہ 2017 وہ مسلسل 12واں سال تھا جب دنیا بھر میں جمہوریت تنزلی کا شکار رہی۔ اس عرصے میں ان ممالک کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی جہاں سیاسی حقوق اور شخصی آزادیوں پر پابندیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ کچھ ممالک میں حالات بہتر ہوئے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق آج سے ربع صدی پہلے، جب سرد جنگ ختم ہوئی تو ایسا لگتا تھا کہ اب آمریت اور مطلق العنان حکومتیں ماضی کا قصہ بن جائیں گی اور بیسویں صدی کی نظریات کی عظیم جنگ آخر کار جمہوریت نے جیت لی ہے، لیکن آج دنیا بھر میں جمہوریت پہلے کے مقابلے میں کمزور تر ہو چکی ہے۔
جن ممالک میں جمہوریت زوال کا شکار ہے ان میں اکثریت ایسے ممالک کی ہے جن سے جمہوریت کے حوالے سے اچھی امیدیں وابستہ کی جا رہی تھی۔ وینز ویلا، جو ایک پھلتا پھولتا جمہوری ملک تھا، اب وہاں فوجی آمریت کا دور ہے۔ صدر رجب طیپ اردوگان نے اپنے ہزاروں حقیقی اور خیالی مخالفین کو جیلوں میں پھینک کر اُس ترکی کو ایک ایسے مسلمان اکثریتی جمہوری ملک سے آمریت میں بدل دیا ہے جس سے دنیا کو بہت امید تھی۔ اس کے مقابلے میں وہ ممالک جہاں جمہوریت کو ماضی میں خطرے کا سامنا تھا، وہاں صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان ہے جس کی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے لیکن پاکستان اب بھی ایسے ملکوں کی فہرست میں شامل ہے جو فریڈم ہاؤس کے مطابق جزوی طور پر آزاد ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionصدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ نے جس تیزی کے ساتھ خود کو عالمی منظر نامے سے دور کیا ہے اس کی مثال گذشتہ عشروں میں دکھائی نہیں دیتی۔
ہنگری اور پولینڈ، جو ماضی میں بہت کامیابی سے اشتراکیت کے دور سے نکل کر جمہوری دور میں داخل ہو چکے تھے، اب وہ بھی ان لبرل ممالک میں شامل ہو چکے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی اور ذرائع ابلاغ کی آزادی کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ سنہ 2017 میں تھائی لینڈ کی فوج نے ملکی سیاست میں اپنے عمل دخل میں مزید اضافہ کرلیا ہے، جبکہ میکسیکو میں ملکی اشرافیہ کی بدعنوانیوں نے قانون کی حکمرانی کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔
فریڈم ہاؤس کے سالانہ جائزے کے چیدہ چیدہ نکات درجہ ذیل ہیں:
  • سنہ 2017 میں دنیا میں جمہوریت کو گذشتہ کئی عشروں کے سب سے بڑے بحران کا سامنا رہا، اور اس دوران آزادنہ و منصفانہ انتخابات، اقلیتوں کے حقوق، پریس کی آزادی، اور قانون کی حکمرانی جیسی بنیادی جمہوری اقدار مسلسل دباؤ کا شکار رہیں۔
  • دنیا کے 71 ممالک میں سیاسی حقوق اور شخصی آزادی میں کمی آئی جبکہ صرف 35 ممالک میں ان شعبوں میں بہتری دکھائی دی ۔ یہ سال عالمی آزادی کے حوالے سے مسلسل ایسا 12واں سال رہا جس میں ان اقدار میں زوال دیکھنے میں آیا۔
  • سنہ 2017 میں امریکہ کے اندر سیاسی حقوق اور شخصی آزادی میں تنزل کے ساتھ ساتھ امریکہ نے اپنے اس روایتی کردار سے ہاتھ کھینچ لیا جس میں اسے دنیا بھر میں جمہوریت اور جمہوری روایات کے فروغ کا چیمپئن سمجھا جاتا تھا۔
فریڈم ہاؤس کا کہنا ہے کہ جمہوری ممالک میں جمہوریت کو درپیش مسائل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں ایسے عوامیت پسند یا پاپولِسٹ رہنما مقبول ہوتے جا رہے ہیں جو تارکین وطن کے خلاف ہیں اور بنیادی اسنانی حقوق کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس کی حالیہ مثال ہالینڈ، فرانس، جرمنی اور آسٹریا میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ووٹوں میں کئی گنا اضافہ ہے۔ اگرچہ آسٹریا کے علاوہ، باقی یورپی ممالک میں یہ جماعتیں حکومت بنانے میں ناکام رہیں، لیکن انتخابات میں ان کی کامیابی کے نتیجے میں ان ممالک میں پرانی سیاسی جماعتیں کمزور پڑ گئی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پریشان کُن بات یہ ہے کہ آج کل کے نوجوان، جنھیں فسطائی یا فاشسٹ حکمرانوں اور کیمونسٹ حکومتوں کے خلاف لوگوں کی طویل جد وجہد کے بارے میں علم نہیں، ان کا جمہوریت پر اعتبار اٹھتا جا رہا ہے اور وہ جمہوریت کے خاطر کسی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوانوں میں جمہوریت کے حوالے سے ایک خطرناک لاپرواہی پروان چڑھ رہی اور ان کے خیال میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے ہاں جمہوریت ہے یا نہیں۔
چینی صدر شی جنگ پنگتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionبڑے ممالک کی دیکھا دیکھی کئی چھوٹے ممالک میں بھی جمہورت مخالف رجحانات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
حالیہ عرصے میں روائتی طور پر جمہوری ممالک میں جمہوریت کو جس پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ نہایت فکرمندی کی بات ہے۔ اس کا ایک اور نقصان یہ ہوا ہے کہ چین اور روس جہاں شخضی حکمرانی کا رواج ہے، وہاں ان حکمرانوں نے اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف اندرونی طور پر اپنے ہاتھ مضبوط کر لیے ہیں بلکہ وہ دوسرے ممالک پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ان بڑے ممالک کی دیکھا دیکھی کئی چھوٹے ممالک میں بھی جمہورت مخالف رجحانات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ پُر اعتماد چینی صدر شی کا ایک حالیہ بیان میں دعوی تھا کہ چین ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک ایسا ’دھکتا ہوا، روشن راستہ‘ بنا رہا ہے جس پر چل کر یہ ممالک بھی ترقی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ دھکتا ہوا راستہ وہ راستہ ہے جو عدالتوں پر سیاسی دباؤ، عدم برداشت اور اپنی مرضی کے نتائج والے انتخابات سے عبارت ہے۔
فریڈم ہاؤس کے بقول دنیا بھر میں جمہوریت مخالف رجحانات کے پھیلاؤ سے صرف بنیادی حقوق کو ہی خطرہ نہیں، بلکہ اس سے دنیا کی معیشت اور سکیورٹی کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ اگر دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک میں بنیادی حقوق اور سیاسی آزادی ہوتی ہے، تو اصل میں زیادہ سے زیادہ ممالک محفوظ اور خوشحال ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ان ممالک میں شخصی حکمرانی اور آمریت پروان چڑھتی ہے تو بین الاقوامی معاہدے توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتے ہیں اور دنیا زیادہ غیر محفوظ اور عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس قسم کی صورت حال میں دہشتگردی پنپتی ہے اور دہستگردوں کا دائرہ کار بڑھ جاتا ہے۔
سنہ 2017 میں جن عوامل سے جمہوریت کو نقصان پہنچا ان میں سے سب سے اہم امریکہ کا بدلتا ہوا رویہ تھا۔ اس سال کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ نے جس تیزی کے ساتھ خود کو عالمی منظر نامے سے دور کیا ہے اس کی مثال گذشتہ عشروں میں دکھائی نہیں دیتی۔
صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے قبل، امریکی حکومتوں کی کئی غلطیوں کے باوجود امریکہ عوام اور ان کے رہنما عمومی طور پر اس بات کے قائل رہے کہ دوسرے لوگوں کے حقوق کے لیے کھڑا ہونا نہ صرف امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ اس کے مفاد میں بھی ہے۔ لیکن افغانستان اور عراق میں دو طویل جنگوں اور عالمی معاشی بحران نے امریکی عوام کو بین الاقوامی معاہدوں اور جہموری اقدار کے فروغ جیسی اقدار سے قدرے بیزار کر دیا ہے۔


No comments:

Post a Comment