BACK TO PARENTS’ MOTHERLAND – GOOD BYE WEST - bbc urdu
BACK TO PARENTS’ MOTHERLAND – GOOD BYE WEST
والدین کے وطن واپسی
آخری وقت اشاعت: پير 29 اکتوبر 2012 , 15:24 GMT 20:24 PS
کنور وزیر ماڈل ہیں اور ممبئی آنا چاہتی ہیں۔
بھارتی نژاد شہری جن کے والدین عشروں پہلے بہتر مواقعے کی تلاش میں ہندوستان چھوڑ گئے تھے، واپس ہندوستان لوٹ رہے ہیں۔ اس کی وجہ بھارت کی ترقی کرتی ہوئی معیشت اور اپنی ثقافت سے تعلق جوڑنے کا ایک موقع بھی ہے۔
سنہ دو ہزار پانچ سے اب تک گیارہ لاکھ لوگ بھارت کی اس سکیم سے فاہدہ اٹھا چکے ہیں جس کے تحت ہندوستان میں پیدا ہونے والے اور متعلقہ ملکوں کی شہریت حاصل کرنے والے افراد کے بچوں کو تاحیات ویزا دینے کی سہولیات فراہم کی گئی ہے۔
مختلف مغربی ممالک کے مقابلے بھارتی معیشت زیادہ تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ ایسے میں کیا یہ مشرق کی جانب سفر تو نہیں؟ اس کی حقیقت کیا ہے اس بارے میں بی بی سی کے قارئین اپنے تاثرات میں ہمیں بھی شریک کر رہے ہیں۔
ممبئی سے دلیپ ڈی سوزا
میں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مزید آٹھ سال تک وہاں قیام کیا۔ لیکن میں بھارت واپس آنا چاہتا تھا۔ وہاں سماجی، ماحولیاتی اور سیاسی مسائل تھے اور میں ان کے بارے میں فکرمند تھا۔ میں اپنے بوڑھے ہوتے ہوئے والدین سے قریب ہونا چاہتا تھا۔ میں انیس سو بانوے میں واپس آگیا اور مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے امریکہ پسند نہیں تھا بلکہ میں وہاں ہمیشہ اطمینان محسوس کرتا تھا۔ اس کے برعکس بھارت کئی معاملوں میں مایوس کن غیر معقول تھا اور اسی مایوسی اور ناامیدی کے سبب میں اسے دنیا کا سب سے پرکش ملک مانتا ہوں۔
بنگلور سے بیدیشا بھٹّاچاریہ
اس سال کے اوائل میں میں نے امریکی سینیٹ میں پالیسی مشیر کی اپنی نوکری چھوڑ دی اور بھارت چلا آيا۔ میں وسکانسن کے میڈیسن میں پلا بڑھا۔ میرے والدین کافی روایتی تھے اور میری پرورش دوہرے انداز میں ہوئی۔ گھر میں بنگالی کلچر اور گھر سے باہر امریکی ثقافت۔ میں جب دس سال کا تھا تو میں پہلی بار بھارت آیا اور مجھے یہ پسند آیا۔ جب میں یہاں رہنے آیا تو میرے والدین کے خیال میں یہ پچیس سال پہلے کا بھارت تھا۔ وہ گھر سے زیادہ دور رہنے کے میرے خیال سے متفق نہیں تھے اور انہیں میری سلامتی کی فکر تھی۔ لیکن میں یہاں مزے میں ہوں اور اس ترقی پذیر معیشت کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔
دلی سے جوش اسرائیل
میں بارہ سال کا تھا جب میں ہندوستان آیا۔ میری بڑی آنت میں سوزش ہوگئی اور پھر کبھی مجھے واپس جانے کی خواہش نہیں ہوئی۔ میرے والد ایک بہتر زندگی کی تلاش میں امریکہ چلے گئے اور اب میں یہاں بھارت میں ہوں اور یہاں مواقع دیکھ کر حیران ہوں۔ میں مسلسل یہ سوچ رہا ہوں ’انہیں یہاں ہونا چاہیے‘ ۔ میں امریکہ میں شاپنگ کے لیے کار پر کسی وال مارٹ جاتا اور تمام سامان خرید لیتا لیکن یہاں مجھے چار پانچ دوکانوں میں جانا پڑتا ہے اور وہ بھی بغیر کار کے۔ لیکن آپ بیس ڈالر میں دن بھر کے لیے کار ڈرائیور کے ساتھ لے سکتے ہیں۔ اس کا تو جواب نہیں ہے۔
ممبئی سے انوج رنجن ریڈی
میں نسلی طور پر بھارتی ہوں اور میں وہاں ایک ہی بار گیا تھا، بارہ سال کی عمر میں۔ مجھے اس جگہ سے نفرت ہے۔ جب میری کمپنی نے ممبئی میں آفس شروع کیا تو انھوں نے مجھ سے اسے قائم کرنے کے لیے کہا۔ میں نے سوچا کہ میں ایک سال سے زیادہ نہیں رہ سکوں گا۔ ابھی تین ہی دن ہوئے تھے وہاں گئے ہوئے کہ نومبر دوہزار آٹھ میں اس ہوٹل پر حملہ ہوا جہاں میں ٹھہرا تھا۔ لیکن میں وہاں رہا اور اس ملک سے مجھے محبت ہو گئي۔ چار سال بعد بھی میں یہیں ہوں اور بھارت میں ہمارے تین دفتر ہیں۔ اب جبکہ میری بیگم پریا بھی کینیڈا سے یہاں آ گئی ہے تو ہمارا خیال ہے کہ ہمارا قیام یہاں اچھا ہے۔’
ممبئ سے پلّوی ملہوترا
میں نشریات کے شعبے کی تعلیم اور تجربے کے لیے کچھ عرصہ قبل لندن چلی گئی تھی۔ اور یہ دور بہتر رہا۔ لیکن میں وہاں کار، نوکر چاکر اور بے شمار تقریبات کی کمی محسوس کرتی رہی۔ مجھے لندن کی ٹھنڈک اور ماحول کی مستقل اداسی پسند نہیں آئی۔ اس لیے میں نے لندن چھوڑ دیا۔ یہ میری غلطی تھی۔ بھارت میں خواتین کے ساتھ سلوک بد سے بدتر ہو گیا ہے۔ میں لندن میں زیادہ محفوظ محسوس کرتی تھی۔ کام کے حالات بھی یہاں بہت اچھے نہیں ہیں۔ میڈیا میں کم تنخواہیں ہیں اور یہ شعبہ منظم نہیں ہے۔ ان سب کے باوجود مجھے بھارت سے محبت ہے اور خاص طور سے اپنی فیلمی سے قربت ہے یہاں۔
سڈنی، آسٹریلیا سے کنور وزیر
میں بھارت میں پیدا ہوئی اور اب میں ایک ماڈل کے طور پر سڈنی میں کام کرتی ہوں لیکن میرے لیے بالی وڈ ہی تھی۔ ممبئی میں رہنا آسان نہیں ہے۔ ایک بار میں نے اپنا پورٹ فولیو ایک ماڈلنگ ایجنٹ کو روانہ کیا۔ اسے میرا پروفائل پسند آیا اور اس نے کہا کہ وہ مجھے ایک فیشن میگزین میں جگہ دلا سکتا ہے۔ لیکن پھر اس نے پوچھا کہ کیا میں ’جھکنے‘ کے لیے تیار ہوں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کام کے عوض جنسی تعلقات کے لیے تیار ہوں۔ مجھے اس بات سے زبردست صدمہ پہنچا اور میں نے نہ سمجھنے کا بہانہ بنا دیا۔ وہاں کچھ خوفناک لوگ ہیں لیکن پھر بھی میں ممبئی جا رہی ہوں کیونکہ میں کامیاب ہونا چاہتی ہوں۔
امت نول رائے جو پہلے ممبئی میں رہتے تھے
جو وہاں جانا چاہتے ہیں ان کے لیے نیک خواہشات۔ آپ کو اس کی ضرورت ہوگی۔ میں نے بہت دیکھا اور اب اسے چھوڑ چکا ہوں۔ ممبئی بہت زیادہ پسماندہ ہے اور دوسرے شہر تو اس سے بھی بدتر ہیں۔ ہر چیز کو ضرورت سے زیادہ پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر وہاں کوئی بھی وقت کا پابند نہیں اور اسی وجہ سے آپ انھی کی طرح کرنے لگتے ہیں۔ وہاں بہت زیادہ بدعنوانی ہے۔ میرے ڈرائیونگ ٹسٹ کے لیے ایک منٹ لگا اور میں تھوڑا زیادہ پیسہ دے کر اس سے بھی بچ سکتا تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر جگہ بکھرے ہوئے افلاس کے بجائے بالی وڈ کو اہمیت دی جاتی ہےاور یہ سب کچھ خود بخود بیان کر دیتا ہے۔’
دہلی سے اکھلیش ماگل
میں نے دوہزار گیارہ میں امریکہ سے گریجویشن کیا اور بھارت واپس آکر کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں امریکی معیشت کے بارے میں مایوس تھا اور بھارت کے معیشت کے بارے پرامید۔ ابھی بھی میرا یہی خیال ہے۔ بھارت میں آلودگی، شور اور حفظان صحت کی کمی جیسے بڑے مسائل ہیں۔ میں فی الحال ڈنگو بخار سے صحت یاب ہو رہا ہوں۔ کام پر ہمیں ہمیشہ بجلی کی کٹوتی، ٹیکس کے مسئلے اور پیچیدہ دفترشاہی کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی چیلنج لینا چاہتا ہے تو اسے یہاں ضرور آنا چاہیے۔
—————
SHARE WITH FRIENDS WISDOM POSTINGS:
- CAUSE AND EVENTS – SPATIAL And TEMPORAL RESPECTIVELY
- WHETHER ‘BRAIN-POWER’ OR ‘HEART-IMPULSE’ PLINTHS ‘HUMAN GEN’?
************
Advertisements
No comments:
Post a Comment