Thursday 23 February 2017

OPIUM WAR OF BRITAIN ON CHINA – 1840 COLONIAL EXPANSIONISM- bbc urdu Posted on December 5, 2012

Meta Knowledge/ Knowledge Calculus - classification of Action Research

OPIUM WAR OF BRITAIN ON CHINA – 1840 COLONIAL EXPANSIONISM- bbc urdu

OPIUM WAR OF BRITAIN ON CHINA – 1840 COLONIAL EXPANSIONISM

’اوپیئم وار‘چینیوں کو یاد ہے

آخری وقت اشاعت:  منگل 4 دسمبر 2012 , 17:14 GMT 22:14 PST
سنہاٹھارہسوچالیسمیںایکبرطانویبحریبیڑہچینکےپرلدریاکےدہانےمیںداخلہوااورچینکیکمزوربحریہکوصرفپانچگھنٹوںمیںتباہوبربادکردیا۔
انسانی تاریخ میں ’آزاد تجارت‘ کے نام پر یہ پہلی جنگ تھی جس کا مقصد چین میں افیون بیچنا تھا۔ برطانیہ اس وقت مشرقی ہندوستان میں اپنے قدم جما چکا تھا اور بنگال میں پیدا ہونے والی افیون چین میں بیچ کر دولت کمانا چاہتا تھا۔
چین میں افیون کی فروخت انتہائی منافع بخش کاروبار تھا لیکن چین میں اس کی تجارت پر پابندی عائد تھی۔
برطانیہ کے دو تاجروں، ولیم جارڈین اور جیمز میتھسن نے برطانیہ کی چین کے ساتھ ’جنگِ افیون‘ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔
ولیم جارڈین اور جیمز میتھسن کی پہلی ملاقات چین کے ایک قحبہ خانے میں ہوئی اور دونوں نے تجارتی شراکت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
انیس سو بتیس میں انہوں نے جنوبی چین کے شہر کینٹن میں جارڈین میتھیسن اینڈ کمپنی کے نام کی ایک فرم قائم کی۔ کینٹن چین کا واحد علاقہ تھا جہاں غیر ملکیوں کو تجارت کی اجازت تھی۔
جارڈین، میتھسن اینڈ کمپنی نے چین میں چائے کے بدلے افیون بیچنا چاہی لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
اٹھارہویں صدی میں برطانیہ میں چائے کی مانگ انتہائی حد تک بڑھ چکی تھی اور برطانیہ ہر سال چین سے ساٹھ لاکھ پاؤنڈ کی چائے درآمد کرتا تھا۔ برطانیہ کو چائے کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے میں دقت کا سامنا تھا کیونکہ چین چاندی کے علاوہ کوئی اور چیز لینے پر رضامند نہ تھا۔
برطانیہ نے چین کو سائنسی آلات ، پشم کی مصنوعات اور مٹی کے برتن بیچنے کی کوشش کی لیکن چین کے شہنشاہ، کون لانگ نے یہ کہہ کر خریدنے سے انکار کر دیا کہ یہ سب کچھ بیکار ہے اور ان کے ہم وطنوں کے لیے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
برطانیہ کے لیے چائے کی درآمد روزبروز مشکل ہو رہی تھی اور برطانیہ چین سے دولت کمانے میں کامیابی حاصل نہیں کر پا رہا تھا۔
برطانوی تاجروں نے بالآخر چین میں دولت کمانے کا ایک ذریعہ ڈھونڈ ہی نکالا۔ بنگال کی فتح کے بعد برطانیہ کو افیون کی بڑی مقدار ہاتھ آگئی جو اس نے غیر قانونی طور پر چین کو بیچنی شروع کر دی۔ چینی ادویات میں افیون کا صدیوں سے استعمال کیا جا رہا تھا لیکن اس کی فروخت پر پابندی عائد تھی۔
پندرہویں صدی کے چین میں افیون کو تمباکو میں ملا کر نشے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جلد ہی چین کی آبادی کا ایک بڑا حصہ افیون کا رسیا ہوگیا اور افیون کے نشے کے عادی اس کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔
چینی شہنشاہ یانگزنگ نے سنہ سترہ سو انتیس میں افیون کی فروخت پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن برطانوی تاجروں نے افیون پر پابندی کو نظر انداز کرتے ہوئے چین کو افیون کی غیر قانونی برآمد یا سمگلنگ جاری رکھی۔ سن اٹھارہ سو چھتیس میں ہر سال انڈیا سے افیون سے بھرے تیس ہزار صندوق چین پہنچ رہے تھے۔
چین کے شہنشاہ نے جب برطانیہ کی طرف سے افیون برآمد کو روکنے کی کوشش کی اور تیرہ فیکٹریوں میں بیالیس ہزار افیون کے پائپ، اور بیس ہزار افیون سے بھرے صندوق قبضے میں لیے تو برطانوی تاجروں نے لندن پہنچ کر حکومت کو قائل کر لیا کہ وہ چین سے بدلہ لے۔ برطانوی سلطنت چین کے خلاف کارروائی پر فوری رضامند ہو گئی۔
برطانیہ کے جدید بحری بیڑے کے سامنے چین کی بحری فوج انتہائی کمزور ثابت ہوئی اور صرف پانچ گھنٹوں میں اس نے گھٹنے ٹیک دیے۔ برطانوی حملے میں چین کے بیس سے پچیس ہزار فوجی ہلاک ہوئے جبکہ برطانیہ کے صرف انہتر فوجی ہلاک ہوئے۔
برطانیہ نے چین کو فتح کرنے کے بعد ایک ایسا معاہدہ کیا جس کے تحت اس نے پانچ بندرگاہیں کھولنے کی اجازت لی۔ برطانیہ نے اس معاہدے کے تحت ہانگ کانگ جزیرے کو اپنے اختیار میں لے لیا جہاں سے افیون کی تجارت ہوتی تھی۔
برطانیہ نے تو افیون کی جنگ کو تاریخ کے حوالے کر دیا ہے لیکن چین نے ایسا نہیں کیا ہے۔ یونیورسٹی آف مانچسٹر کی ڈاکٹر زینگ یانگون کے مطابق چین میں بچوں کو ابتدائی تعلیم کے دوران افیون کی جنگ سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ چینی بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ برطانوی سلطنت نے ان پر کیا کیا ظلم ڈھائے۔
زینگ یانگون کہتی ہیں کہ چینی نوجوان نسل کو بتایا جاتا ہے کہ یاد رکھو ہمارے ساتھ کیا ظلم کیا گیا تھا۔
————–

     SHARE WITH FRIENDS WISDOM POSTINGS:
  1. CAUSE AND EVENTS – SPATIAL And TEMPORAL RESPECTIVELY
  2. WHETHER ‘BRAIN-POWER’ OR ‘HEART-IMPULSE’ PLINTHS ‘HUMAN GEN’?
************
Advertisements

No comments:

Post a Comment