INDIAN SUB-CONTINENT BLOODLINE TO AUSTRALIA 40000 YEARS BACK- bbc uk
INDIAN SUB-CONTINENT BLOODLINE TO AUSTRALIA 40000 YEARS BACK
4000 سال قبل بھارتیوں کی آسٹریلیا ہجرت
آخری وقت اشاعت: منگل 15 جنوری 2013 , 09:23 GMT 14:23 PS
جینیات سے متعلق ایک تازہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے تقریبا چار ہزار برس پہلے بڑی تعداد میں بھارتی لوگوں نے آسٹریلیا میں نقل مکانی کی تھی۔
یہ سمجھا جاتا ہے کہ آسٹریلوی براعظم پر چالیس ہزار قبل جب انسان پہنچے تھے اس کے بعد وہ باقی دنیا سے تب تک کٹا ہوا تھا جب تک اٹھارویں صدی میں یورپی وہاں پہنچے تھے۔
سائنسدانوں نے آسٹریلیا کی قدیم ترین ایبورجنیز انسانی نسل کے ڈی این اے پر تحقیق کی ہے جس کے بعد انہوں نے کہا ہے کہ آسٹریلوی باشندوں کے ڈی این کی جڑیں برصغیر سے بھی ملتی ہیں۔
یہاں ایک اور تحقیق کا ذکر جس کے مطابق، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آسٹریلوی براعظم، تاریخ میں، باقی دنیا سے اِس قدر کٹا نہیں رہا جتنا کہ اب تک خیال کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق، کوئی چار ہزار سال پہلے، برصغیر کے باشندے آسٹریلیا پہنچے تھے اور عندیہ ملتا ہے کہ انہوں وہاں پر پہلے سے مقیم انسانوں کو اُس وقت کے لحاظ سے، پتھروں کے جدید اوزار بنانے سکھائے۔
اس کے علاوہ کتوں کی ایک نسل بھی اسی دوران برصغیر سے آسٹریلیا پہنچی تھی۔
جرمنی کے لیپزگ میں واقع میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار ایوالوشنری اینتھروپولوجی میں پروفیسر مارک سٹونکنگ کا کہنا ہے ’بہت وقت تک یہ تصور عام تھا کہ ابتدائی کولنائزیشن یا نوآبادکاری کے بعد آسٹریلیا باقی دنیا سے کٹا ہوا تھا‘۔
آسٹریلیا کی آبادی کی قدیم ترین نسل کے بارے میں تحقیق کے لیے محقیقن نے ایبورجن آسٹریلین نسل کے ڈی این اے کا موازنہ نیوگنی، جنوب مشرقی ایشیا اور بھارت کے لوگوں سے کیا۔
ڈی این اے کے ان نمونوں کا گہرہ مطالعہ کرنے کے بعد سائنسدان یہ نتیجہ نکال پائےکہ کس کے جین کس سے ملتے ہیں۔
اس تحقیق میں پایا گیا کہ پینتیس سے پیتالیس ہزار قبل کے آسٹریلیا کے لوگوں اور نیو گینی کے لوگوں کے جین میں مشہابیت ہیں جبکہ تحقیق میں یہ بھی پایا گیا کہ بھارت اور آسٹریلیا کے لوگوں کے درمیان بھی جین کا تبادلہ ہوا ہے۔
اس بارے میں پروفیسر سٹانکنگ کا کہنا ہے کہ جینیاتی ڈیٹا سے یہ بات نہیں معلوم ہوئی کہ بھارتی لوگوں نے آسٹریلیا پہنچنے کا کون سا راستہ اپنایا تھا لیکن یہ بات صاف ہے کہ آسٹریلیا براعظم باقی دنیا سے اتنا الگ تھلگ نہیں تھا جیسا کہ سوچا جاتا تھا۔
Advertisements
No comments:
Post a Comment