Thursday, 23 February 2017

PIONEER CREATIVE POET OF URDU- MEERAJI By Zafar- bbc urdu Posted on December 26, 2012

Meta Knowledge/ Knowledge Calculus - classification of Action Research

PIONEER CREATIVE POET OF URDU- MEERAJI By Zafar- bbc urdu

PIONEER CREATIVE POET OF URDU- MEERAJI By Zafar

میرا جی: جنسی مریض یا جینئس؟

ظفر سید   
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت:  منگل 25 دسمبر 2012 , 03:42 GMT 08:42 PS
جدید اردو شاعری کے ارکانِ اربعہ میں سے ایک میرا جی
دو ہزار دس فیض صدی تھی، دو ہزار گیارہ راشد صدی، دو ہزار بارہ منٹو صدی۔ اس دوران اردو کے ان گراں ڈیلوں پر درجنوں تحقیقی و تنقیدی کتابیں چھاپی گئیں، پر مغز سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کی گئیں، الیکٹرانک میڈیا نے خصوصی پروگرام ترتیب دیے، ادبی رسالوں نے خاص نمبر چھاپے۔
لیکن اس تمام ہاؤ ہو میں کسی کو ایک نام یاد ہی نہ رہا، یا اگر یاد بھی رہا تو محض سر سے بوجھ اتارنے کی مانند۔ وہ نام جس نے اردو میں جدیدیت کی داغ بیل ڈالی۔ جس نے کہنہ روایات کی برف کو توڑ کر راستا بنایا، جس نے جدید شاعروں کی ایک نسل کی آبیاری کی۔ یہ میرا جی ہیں، وہ میرا جی جو راشد سے زیادہ رواں، مجید امجد سے زیادہ جدید اور فیض سے زیادہ متنوع ہیں۔
س سال کو منٹو صدی کے ساتھ ساتھ میرا جی صدی کےطور پر بھی منایا جانا چاہیے تھا کیوں کہ میرا جی اور سعادت حسن منٹو نہ صرف ایک ہی سال (1912) بلکہ ایک ہی مہینے (مئی) میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن سوائے جرمنی سے شائع ہونے والے ایک رسالے کے میرا جی نمبر، اور کراچی میں اردو کانفرنس کے ایک اجلاس کے علاوہ کہیں کچھ دیکھنے سننے یا پڑھنے میں نہیں آیا۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا میرا جی کا فن اختر شیرانی کی طرح وہ خوش نظر بیل تھی جو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئی لیکن اس کے اندر دوام کے بیج نہیں تھے؟
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ میرا جی بہ ہر طور راشد، فیض اور مجید امجد کے ساتھ ساتھ جدید اردو شاعری کے ارکانِ اربعہ میں شمار ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بہت سے جدید شعرا کی جڑیں بھی میرا جی کے چھتنار کے اندر تلاش کی جا سکتی ہیں۔
میرا جی پر جنسی کج روئی، بے راہ روی اور مریضانہ شخصیت کے ایسے ایسے اشتہاری پوسٹر چسپاں کر دیے گئے کہ اصل میرا جی کے نقش و نگار کہیں چھپ کر رہ گئے۔ میرا جی کے نادان دوستوں اور بدخواہ حریفوں نے ان کی ذہنی و جسمانی غلاظتوں کے وہ خاکے اڑائے کہ انھیں عام انسانوں کی دنیا سے الگ تھلگ کوئی جناتی مخلوق بنا کر رکھ دیا۔ شہر کے لوگ تو ظالم تھے ہی، خود میرا جی کو بھی مرنے کا کچھ ایسا شوق تھا کہ وہ اپنے آپ کو اپنے گرد لپیٹے ہوئے خول کے اندر ہی محفوظ سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا ہے:
لوگ مجھ سے میرا جی کو نکالنا چاہتے ہیں، مگر میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ یہ نکل گیا تو میں کیسے لکھوں گا، یہ کمپلیکس ہی میری تحریریں ہیں۔‘
چند نصابی تحریروں سے قطع نظر اگر کسی نقاد نے میرا جی پر جم کے لکھا تو وہ وزیر آغا ہیں۔ لیکن انھوں نے میرا جی کو قدیم یونان کے کردار کی طرح ’دھرتی پوجا‘ کی چارپائی پر یوں لٹا دیا کہ اگر پاؤں لمبے پڑ گئے تو انھیں قطع کر دیا اور اگر چارپائی لمبی ہو گئی تو شاعر کو کھینچ کر لمبا کر دیا۔ گویا میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو۔
میرا جی پر سب سے بڑا الزام ابہام کا لگا۔ اس شاعری کو الجھی ہوئی شخصیت کا مظہر قرار دے کر اس پر انتشار اور پراگندگی کا ٹھپا تو لگا دیا گیا لیکن یہ سوچا ہی نہ گیا کہ ابہام تو اچھی شاعری کی روح ہوتا ہے۔ سیدھی سادی بات سے بڑا فن تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ غالب کہہ گئے ہیں کہ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ ویسے بھی بقول مشتاق یوسفی: جو شعر بیک وقت دو ہزار سامعینِ مشاعرہ کی سمجھ میں آ جائے وہ بڑا شعر نہیں ہو سکتا۔
چاہے خاکہ نگار کچھ بھی کہیں، شواہد بتاتے ہیں کہ میرا جی بے حد سلجھی ہوئی اور منظم شخصیت کے مالک تھے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ صرف 37 برس کی عمر میں وہ ایک نسل کے برابر کام چھوڑ گئے ہیں۔ ذرا اس’نفسیاتی مریض‘ کے کام پر ایک نظر دوڑائیے:
  • 223 نظمیں، 136 گیت، 17 غزلیں، 23 مختلف زبانوں کے شعرا کے تراجم پر مبنی 225 نظمیں اور متفرق چیزیں
  • تین برس ریڈیو پاکستان کی باقاعدہ ملازمت
  • اپنے دور کے معروف ادبی رسالے ادبی دنیا کے نائب مدیر
  • ماہنامہ خیال کے مدیر
  • اردو تنقید میں پہلی بار نظموں کے تجزیوں کی کتاب ’اس نظم میں‘۔
  • حلقۂ اربابِ ذوق کی آبیاری، جلسوں میں بڑھ چڑھ کر شرکت اور جدید نظم نگاروں کی ایک نسل کی قیادت
کیا یہ کام کوئی الجھا ہوا شخص کر سکتا ہے؟
****
     SHARE WITH FRIENDS WISDOM POSTINGS:
  1. CAUSE AND EVENTS – SPATIAL And TEMPORAL RESPECTIVELY
  2. WHETHER ‘BRAIN-POWER’ OR ‘HEART-IMPULSE’ PLINTHS ‘HUMAN GEN’?
************
Advertisements

No comments:

Post a Comment