GREENHORN MUSING OF BHARAT IN 1962 WAR WITH CHINA, Indra Malhotera- bbc urdu
GREENHORN MUSING OF BHARAT IN 1962 WAR WITH CHINA, Indra Malhotera
بھارت اور چین میں جنگ کی یادیں
اندر ملہوترا
سینیئر صحافی، دلی
آخری وقت اشاعت: جمعرات 18 اکتوبر 2012 , 08:32 GMT 13:32 PST
سنہ انیس سو باسٹھ میں چین کے ساتھ جنگ میں بھارت کو شکست ہوئی تھی
کوئی بھی شخص جو میری طرح ہمالیہ کی بلندیوں میں چین کے ساتھ عارضی لیکن تلخ سرحدی جنگ کا گواہ ہے، وہ نصف صدی کے بعد بھی وہ صدمہ بھولا نہیں ہے جس میں بھارتی فوج کی شکست ہوئی تھی اور سیاسی طور پر ناکامی بھی۔
اس جنگ کی تاریخ کو اتنی باریکی سے لکھا گیا ہے کہ اس زمین پر دوبارہ چلنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس پر بہت اچھی طرح سے کام کیا جا چکا ہے۔
یہ کہنا کافی ہوگا جیسا جواہر لال نہرو کے سرکاری سوانح عمری لکھنے والے ایس گوپال نے لکھا تھا ’چیزیں اتنی بری طرح غلط ہوئیں کہ اگر ایسا واقعی میں نہیں ہوتا، تو ان پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا۔‘
لیکن ایسا ہوا کہ بھارت کے اس وقت کے صدر ایس رادھاكرشن نے اپنی حکومت پر آسانی سے یقین کرنے اور نظر انداز کرنے کا الزام لگا دیا۔
جواہر لال نہرو نے بھی خود پارلیمنٹ میں کہا تھا ’ہم جدید دنیا کی حقیقت سے رابطہ بھول گئے تھے اور ہم ایک مصنوعی ماحول میں رہ رہے تھے جسے ہم نے ہی تیار کیا تھا۔‘
اس طرح انہوں نے اس بات کو تقریباً قبول کر لیا تھا کہ انہوں نے یہ یقین کرنے میں بڑی غلطی کی کہ چین سرحد پر جھڑپوں، گشتی پارٹی کی سطح پر تصادم اور تو تو میں میں سے زیادہ کچھ نہیں کرے گا۔
اگرچہ چین کے ساتھ جاری تنازعہ نومبر 1959 کے ابتداء میں اس وقت پرتشدد ہو گیا تھا جب لداخ کے كوگكالا میں پہلی بار چین نے خون بہایا تھا۔
اس کے بعد یہ واقعہ ہر اس غلطی کی جڑ بن گیا جو اس کے بعد سرزد ہوئی۔ اس کے لیے ہمارے معزز وزیر اعظم کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔
لیکن ان کے مشیر، افسر اور فوج بھی اس معاملے میں برابر کے مجرم ہیں کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی ان سے اکیلے میں بھی اس پر بحث نہیں کی کہ وہ غلطی پر تھے۔
ان کا یہ بہانہ ایک عام اصول تھا کہ ’ نہرو سب سے بہتر جانتے تھے‘۔ چین کے ساتھ تنازع کے بعد فوج کے سربراہ بنے جنرل ’مچچھو‘ چودھری کا خیال تھا ’ہم نے یہ سوچا تھا کہ ہم چینی شطرنج کھیل رہے ہیں، لیکن وہ روسی رولیٹ نکلا۔‘
جن لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے، ان کی فہرست کافی طویل ہے۔ لیکن اوپر جو دو نام ہونے چاہیئں، ان میں پہلے ہیں کرشنا مینن جو 1957 سے ہی ملک کے وزیر دفاع تھے۔
بھارتی فوج چین کے منصوبوں کا پتہ کرنے میں ناکام رہی
دوسرا نام لیفٹیننٹ جنرل بی ایم کول کا ہے جن پر کرشنا مینن کی خاص نظرِ کرم تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل کول کو شمال مشرقی علاقے کا کمانڈر بنایا گیا تھا۔ اس علاقے کو اب اروناچل پردیش کہا جاتا ہے۔
کول پہلے درجے کے فوجی نوکر شاہ تھے۔ ساتھ ہی وہ غضب کے جوش کے باعث بھی مشہور تھے۔ لیکن انہیں جنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔
ایسی تباہ کن تقرری کرشنا مینن کی وجہ سے ممکن ہوئی کیونکہ وزیر اعظم سے قربت کے باعث مسٹر مینن جو بھی چاہتے تھے، وہ کرنے کے لیے آزاد تھے۔
مینن ایک ذہین لیکن چڑچڑی شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں فوج کے سربراہان کو ان کے جونيئرز کے سامنے بے عزتی کرنے میں مزا آتا تھا۔ وہ فوجی تقرریوں اور پروموشنز میں اپنے چہیتوں پر کافی مہربان رہتے تھے۔
یقینی طور پر انہیں وجوہات کے سبب ایک اڑيل وزیر اور مشہور جنرل كے ایس تھمیا کے درمیان بڑی بحث ہوئی۔ معاملے نے اتنا طول پکڑا کہ مینن نے استعفیٰ دے دیا، لیکن انہیں اپنا استعفی واپس لینے کے لیے منا لیا گیا۔
لیکن اس کے بعد فوج اصلی شکل میں مینن کی نوکرانی بن گئی۔
ہمالیہ پر کول شدید طور پر بیمار پڑگئے اور انہیں دلی واپس لایا گیا لیکن مینن نے حکم دیا کہ وہ اپنا کمانڈ برقرار رکھیں گے اور دلی ہی سے وہ جنگ کی کمانڈ سنبھالیں گے۔
فوج کے سربراہ جنرل پی این تھاپر اس نظریہ کے مکمل طور پر خلاف تھے، لیکن وہ مینن سے ٹکراؤ نہیں لینا چاہتے تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جرنل کول واضح طور پر بہت سے معاملات میں غلط تھے، جنرل تھاپر ان کے فیصلے کو تبدیل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔
چین کی فوج نے بھارت کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا
س کا نتیجہ بلکل واضح تھا۔ کانگریس پارٹی کے بیشتر لوگ اور پارلیمنٹ نے اپنا زیادہ وقت اور توانائی حملہ آوروں کو بھگانے کے بجائے مینن کو وزارت دفاع سے ہٹانے میں صرف کیا۔
نہرو پر بھی کافی دباؤ پڑا اور بالآخر انہوں نے مینن کو سات نومبر کو برخواست کر دیا اور کول کے معاملے میں تو صدر رادھاكرشن نے جیسے سب کچھ کہہ دیا ہو۔
19 نومبر کو دلی آئے امریکی سينٹرز کے ایک وفد نے بھارتی صدر سے ملاقات کی۔ ان میں سے ایک نے یہ پوچھا کہ کیا جنرل کول کو قیدی بنا لیا گیا ہے؟ اس پر صدر رادھاكرشن کا جواب تھا ’بدقسمتی سے یہ سچ نہیں ہے‘۔
قومی سلامتی پر فیصلہ کرنا اتنا غیر منظم تھا کہ مینن اور کول کے علاوہ صرف تین لوگ سیکرٹری خارجہ ایم جے دیسائی، خفیہ سروسز کے سربراہ بي این ملک اور وزارت دفاع کے طاقتور جوائنٹ سیکریٹری ایچ سی سرین کی ہی پالیسی سازی میں چلتی تھی۔
ان میں سے سبھی کرشنا مینن کے معاون تھے۔ بی این ملک کا کردار بڑا تھا اور زیادہ وقت بدنام کرنے میں لگے رہتے تھے۔ ملک پالیسیاں بنانے میں افراتفری پھیلاتے تھے، جو ایک خفیہ چیف کا کام نہیں تھا۔
’بدقسمتی سے یہ سچ نہیں ہے‘
نہرو پر بھی کافی دباؤ پڑا اور بالآخر انہوں نے مینن کو سات نومبر کو برخواست کر دیا اور کول کے معاملے میں تو صدر رادھاكرشن نے جیسے سب کچھ کہہ دیا ہو۔
19 نومبر کو دلی آئے امریکی سينٹرز کے ایک وفد نے بھارتی صدر سے ملاقات کی۔ ان میں سے ایک نے یہ پوچھا کہ کیا جنرل کول کو قیدی بنا لیا گیا ہے؟ اس پر صدر رادھاكرشن کا جواب تھا ’بدقسمتی سے یہ سچ نہیں ہے‘۔
اگر مسٹر ملک اپنے کام پر توجہ دیتے اور یہ پتہ لگاتے کہ چین اصل میں کیا کر رہا ہے، تو ہم اس شرمناک اور ہتک آمیز صورتحال سے بچ سکتے تھے۔
لیکن اس کے لیے یہ پتہ کرنا ہوتا ہے کہ ایک طرف جب ہم پوری طرح اس بات سے مطمئن تھے کہ کوئی بھی بڑی چیز نہیں ہوگی، چینی ہنما ماؤ، ان کے اعلی فوجی افسر اور سیاسی مشیر بڑی چالاکی سے اس منصوبہ بندی میں مصروف تھے کہ کس طرح بھارت کے خلاف محتاط رہ کر حملہ کیا جائے، جو انہوں نے کیا بھی۔
نہرو نے یہ سوچا کہ بھارت اور چین کی جنگ میں چین اور سوویت کے درمیان پھوٹ ایک اہم بات ہوگي اور یہ چین کے لیے خوف کی ایک بڑی وجہ ہوگي۔
لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ کیوبا کے میزائل بحران کی معلومات کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے نہرو کو سبق سکھانے کا ماؤ کا پیغام نكتا كھرشچیو کے لیے بھی تھا اور اس وجہ سے سوویت لیڈر نے احتیاط برتا۔
بھارت کو اس میزائل کے بحران کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔ 25 اکتوبر کو روسی اخبار پراودا نے بھارت کو كپكپا دیا۔ اس اخبار نے ’ہمارے چینی بھائی اور ہندوستانی دوست‘ کی بات کی۔
پراودا نے یہ بھی مشورہ دیا کہ بھارت کو عملی طور پر چین کی شرائط پر چین سے بات کرنی چاہئے۔ یہ الگ بات ہے کہ کیوبا کے بحران کا حل قریب آتے ہی روس اپنی پرانی پالیسی پر آ گیا۔
لیکن ماؤ نے حملے کا وقت اسی حساب سے ہی طے کیا تھا۔ آخر میں ماؤ نے بھارت میں وہ حاصل کر لیا، جو وہ چاہتے تھے۔ وہ كھرشچیو پر كریبین میں بزدلی اور ہمالیہ میں غداری کے لیے طعنہ زنی بھی کر سکتے تھے۔
****
SHARE WITH FRIENDS WISDOM POSTINGS:
- CAUSE AND EVENTS – SPATIAL And TEMPORAL RESPECTIVELY
- WHETHER ‘BRAIN-POWER’ OR ‘HEART-IMPULSE’ PLINTHS ‘HUMAN GEN’?
************
Advertisements
No comments:
Post a Comment