Monday 27 February 2017

GURMAHAR DELHI UNIVERSITY GIRL DESPERATE TO KNOW WHO KILLED MYDAD - Ind. or Pak.? http://www.bbc.com/urdu/india-39105736 Posted 27/02/17

studentkaur

GURMAHAR DELHI UNIVERSITY GIRL DESPERATE TO KNOW WHO KILLED MY DAD - Ind. or Pak.? 
DELHI STUDENT
student

http://www.bbc.com/urdu/india-39105736 Posted 27/02/17

گر مہر کے باپ کو کس نے مارا ؟


·         27 فروری 2017
تصویر کے کاپی رائٹFACEBOOK
دلی یونیورسٹی کے رامجس کالج میں دائیں اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے درمیان جھڑپوں کے بعد اب تمام نگاہیں ایک لڑکی پر ٹکی ہوئی ہیں۔
لڑکی کا نام گر مہر کور ہے جو دلی کے مشہور لیڈی سری رام کالج میں پڑھتی ہے۔ انہوں نے 22 فروری کو اپنی فیس بک پروفائل بدلی تھی جس کے بعد سے وہ سرخیوں میں ہیں۔ تصویر میں گر مہر نے ایک پوسٹر اٹھا رکھا ہے جس پر لکھا ہے کہ "میں دلی یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں اور میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے نہیں ڈرتی، انڈیا کا ہر طالب علم میرے ساتھ ہے۔
(اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد بی جے پی کی طلبہ تنظیم ہے)۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر دوسرے بہت سے طلبہ نے بھی اس طرح کے پیغامات ڈالنے شروع کر دیے۔ جھگڑا جے این یو کے دو رہنماؤں کو ایک سیمنار میں شرکت کے لیے رام جس کالج مدعو کیے جانے پر تھا، جس کی اے بی وی پی مخالفت کر رہی تھی۔
kaurstudentkaurstudent
kaurتصویر کے کاپی رائٹYOUTUBE GRAB
۔
لیکن گر مہر کی کچھ تاریخ بھی ہے اور ہنگامہ اسی کی وجہ سے ہے۔
اس سے پہلے انھوں نے اسی طرح کی ایک تصویر فیس بک پر ڈالی تھی جس پر لکھا تھا کہ "پاکستان نے نہیں میرے والد کو جنگ نے مارا تھا۔" ان کے والد بھارتی فوج میں کپتان تھے اور کارگل کی جنگ کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ ہنگامہ نبیادی طور پر اسی پیغام پر ہے۔ اس کے بعد سے گر مہر کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انھیں مبینہ طور پر ریپ کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں جس کی شکایت انھوں نے دلی میں خواتین کے کمیشن سے بھی کی ہے۔
وریندر سہواگتصویر کے کاپی رائٹFACEBOOK
سوشل میڈیا پر ویریندر سہواگ جیسے لوگوں نے بھی ان پر تنقید کی ہے۔ سہواگ نے ٹوئٹر پر کہا کہ " میں نےتین ٹرپل سینچریاں نہیں بنائیں، میرے بیٹ نے بنائی تھیں۔"
گر مہر کا کہنا ہے کہ "ہماری مہم کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ہم صرف کیمپس کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔"
kaurتصویر کے کاپی رائٹYOUTUBE GRAB
تو سوال یہ ہے کہ جس پوسٹر پر اتنا ہنگامہ ہو رہا ہے وہ کب کا ہے؟ در اصل یہ پوسٹر گزشتہ برس اپریل کا ہے، اسوقت گرمہر نے یو ٹیوب پر ایک ویڈیو ڈالی تھی جس میں کچھ بولے بغیر ہی انھوں نے اپنی پوری کہانی بیان کی تھی۔ یہ ویڈیو اکہتر ہزار بار دیکھی جاچکی ہے اور اس کے بعد پاکستان سے بھی اسی طرح کے ویڈیو پیغامات سامنے آئے تھے۔
kaurتصویر کے کاپی رائٹYOUTUBE GRAB
گر مہر کا کہنا ہے کہ کئی بڑے لوگ میرے حب الوطنی پر شک کر کر رہے ہیں۔ مجھے غدار کہا جارہا ہے لیکن انہیں معلوم ہی نہیں کہ حب الوطنی کیا ہوتی ہے۔"
ان کا کہنا ہے کہ "ہماری مہم کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ہم صرف کیمپس کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔"
kaurتصویر کے کاپی رائٹYOUTUBE GRAB
studentمجھے یاد ہے کہ میں پاکستانیوں اور پاکستان سےکتنی نفرت کرتی تھی کیونکہ انہوں نے میرے والد کو مارا تھا، میں مسلمانوں سے بھی نفرت کرتی تھی کیونکہ میں سمجھتی تھی کہ سبھی مسلمان پاکستانی ہوتے ہیں، جب میں چھ سال کی ہوئی تو میں نے ایک برقعہ پوش عورت کو چاقو مارنے کی کوشش کی تھی۔۔۔کسی وجہ سے مجھے لگا کہ اس نے میرے والد کو مارا ہوگا۔ میری ماں نے مجھے روکا اور سمجھایا کہ میرے والد کو پاکستان نے نہیں جنگ نے مارا تھا۔"
student

تصویر کے کاپی رائٹYOUTUBE GRAB

اس ویڈیو میں گر مہر نے لکھا تھا کہ " میں بھارت کے جالندھر شہر کی رہنے والی ہوں، میرے والد کیپٹن مندیپ سنگھ ہیں، وہ کرگل کی لڑائی میں مارے گئے تھے۔میں اسوقت دو سال کی تھی، میرے پاس ان کی بہت کم یادیں ہیں۔۔۔ والد نہ ہوں تو کیسا لگتا ہے، اس کی یادیں زیادہ ہیں میرے پاس۔"
kaurتصویر کے کاپی رائٹYOUTUBE GRAB
وقت لگا لیکن آج میں اپنی نفرت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہوں، یہ آسان نہیں تھا لیکن مشکل بھی نہیں تھا۔۔۔اگر میں ایسا کر سکتی ہوں تو آپ بھی کرسکتے ہیں۔ میں بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کے لیے لڑ رہی ہوں، کیونکہ اگر ہمارے درمیان جنگ نہ ہوتی تو آج میرے والد زندہ ہوتے۔ میں نے یہ ویڈیو اس لیے بنائی تاکہ دونوں ملکوں کی حکومتیں دکھاوا بند کریں اور اصل مسئلے پر توجہ دیں۔۔۔ میں ایسی دنیا چاہتی ہوں جہاں کوئی گر مہر کور نہ ہو جسے اپنے والد کی یاد ستاتی ہو۔"
kaurتصویر کے کاپی رائٹYOUTUBE
لیکن اتنے لمبے پیغام میں سے صرف ایک لائن سرخیوں میں آگئی۔ ان کا اصل پیغام تو کھو گیا اور کہانی کچھ اور بن گئی۔
kaurتصویر کے کاپی رائٹYOUTUBE GRAB
لیکن اتنے لمبے پیغام میں سے صرف ایک لائن سرخیوں میں آگئی۔ ان کا اصل پیغام تو کھو گیا اور کہانی کچھ اور بن گئی۔

    

No comments:

Post a Comment