GURMAHAR DELHI UNIVERSITY GIRL DESPERATE TO KNOW WHO KILLED MY DAD - Ind. or Pak.?
گر مہر کے باپ کو کس نے مارا ؟
تصویر کے کاپی رائٹFACEBOOK
دلی یونیورسٹی کے رامجس کالج میں دائیں اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے درمیان جھڑپوں کے بعد اب تمام نگاہیں ایک لڑکی پر ٹکی ہوئی ہیں۔
لڑکی کا نام گر مہر کور ہے جو دلی کے مشہور لیڈی سری رام کالج میں پڑھتی ہے۔ انہوں نے 22 فروری کو اپنی فیس بک پروفائل بدلی تھی جس کے بعد سے وہ سرخیوں میں ہیں۔ تصویر میں گر مہر نے ایک پوسٹر اٹھا رکھا ہے جس پر لکھا ہے کہ "میں دلی یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں اور میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے نہیں ڈرتی، انڈیا کا ہر طالب علم میرے ساتھ ہے۔‘
۔
لیکن گر مہر کی کچھ تاریخ بھی ہے اور ہنگامہ اسی کی وجہ سے ہے۔
اس سے پہلے انھوں نے اسی طرح کی ایک تصویر فیس بک پر ڈالی تھی جس پر لکھا تھا کہ "پاکستان نے نہیں میرے والد کو جنگ نے مارا تھا۔" ان کے والد بھارتی فوج میں کپتان تھے اور کارگل کی جنگ کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ ہنگامہ نبیادی طور پر اسی پیغام پر ہے۔ اس کے بعد سے گر مہر کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انھیں مبینہ طور پر ریپ کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں جس کی شکایت انھوں نے دلی میں خواتین کے کمیشن سے بھی کی ہے۔

سوشل میڈیا پر ویریندر سہواگ جیسے لوگوں نے بھی ان پر تنقید کی ہے۔ سہواگ نے ٹوئٹر پر کہا کہ " میں نےتین ٹرپل سینچریاں نہیں بنائیں، میرے بیٹ نے بنائی تھیں۔"
گر مہر کا کہنا ہے کہ "ہماری مہم کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ہم صرف کیمپس کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔"

تو سوال یہ ہے کہ جس پوسٹر پر اتنا ہنگامہ ہو رہا ہے وہ کب کا ہے؟ در اصل یہ پوسٹر گزشتہ برس اپریل کا ہے، اسوقت گرمہر نے یو ٹیوب پر ایک ویڈیو ڈالی تھی جس میں کچھ بولے بغیر ہی انھوں نے اپنی پوری کہانی بیان کی تھی۔ یہ ویڈیو اکہتر ہزار بار دیکھی جاچکی ہے اور اس کے بعد پاکستان سے بھی اسی طرح کے ویڈیو پیغامات سامنے آئے تھے۔

گر مہر کا کہنا ہے کہ کئی بڑے لوگ میرے حب الوطنی پر شک کر کر رہے ہیں۔ مجھے غدار کہا جارہا ہے لیکن انہیں معلوم ہی نہیں کہ حب الوطنی کیا ہوتی ہے۔"
ان کا کہنا ہے کہ "ہماری مہم کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ہم صرف کیمپس کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔"


اس ویڈیو میں گر مہر نے لکھا تھا کہ " میں بھارت کے جالندھر شہر کی رہنے والی ہوں، میرے والد کیپٹن مندیپ سنگھ ہیں، وہ کرگل کی لڑائی میں مارے گئے تھے۔میں اسوقت دو سال کی تھی، میرے پاس ان کی بہت کم یادیں ہیں۔۔۔ والد نہ ہوں تو کیسا لگتا ہے، اس کی یادیں زیادہ ہیں میرے پاس۔"

وقت لگا لیکن آج میں اپنی نفرت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہوں، یہ آسان نہیں تھا لیکن مشکل بھی نہیں تھا۔۔۔اگر میں ایسا کر سکتی ہوں تو آپ بھی کرسکتے ہیں۔ میں بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کے لیے لڑ رہی ہوں، کیونکہ اگر ہمارے درمیان جنگ نہ ہوتی تو آج میرے والد زندہ ہوتے۔ میں نے یہ ویڈیو اس لیے بنائی تاکہ دونوں ملکوں کی حکومتیں دکھاوا بند کریں اور اصل مسئلے پر توجہ دیں۔۔۔ میں ایسی دنیا چاہتی ہوں جہاں کوئی گر مہر کور نہ ہو جسے اپنے والد کی یاد ستاتی ہو۔"

لیکن اتنے لمبے پیغام میں سے صرف ایک لائن سرخیوں میں آگئی۔ ان کا اصل پیغام تو کھو گیا اور کہانی کچھ اور بن گئی۔

لیکن اتنے لمبے پیغام میں سے صرف ایک لائن سرخیوں میں آگئی۔ ان کا اصل پیغام تو کھو گیا اور کہانی کچھ اور بن گئی۔
No comments:
Post a Comment