Saturday, 15 April 2017

COPY OF MISSING GIRL'S FATHER NIC FOUND FROM LAHORE GUN BATTLE SCENE

ACTION RESERACH OPINION: 


**** 
Source: https://arynews.tv/en/nic-of-missing-lumhs-girls-father-found-from-lahore-gun-battle-scene/ 



PAKISTAN

Copy of missing Sindh girl’s father’s NIC found from Lahore gun battle scene


LAHORE: Intelligence agencies have found copy of a Sindh University professor from the scene of Lahore’s factory area gun battle, sources told ARY News on Saturday.
Professor Abdul Jabbar, copy of whose NIC was found from the scene, is the father of Naureen Laghari, the Liaquat University of Medical and Health Science (LUMHS) student who went missing from her hometown Hyderabad in February.
Naureen had messaged her brother through a friend’s Facebook profile that she has reached the land of Khilafah (caliphate). Police, however, had said that she was traced coming to Lahore through a bus.
Reports suggest that Naureen Laghari herself has been arrested during the encounter.
Military said Saturday it had thwarted a plot to launch a major terror attack in Lahore on Easter Sunday, after an army raid in the city that killed a suspected militant.

Facebook blocked her account
The girl named Naureen left her Hyderabad home on February 10 and was missing since then but her brother received a message from another girl’s Facebook profile today that the girl has reached some ‘Land of Khilafah’.
“Brother, I am Naureen, I hope yo all are fine, I am fine and happy too, I have contacted you to inform you that by the grace of God, I have migrated to the land of Khilafah and hope that you all will someday migrate (to this land),” read the message reportedly sent by Naureen.
SSP Hyderabad Irfan Baloch had told ARY News that the girl took a bus ticket last month and left for Lahore and expressed fear that the girl was in contact with extremist groups.
“She held extremist views and Facebook had blocked her account for the same reason,” added the SSP.

RELATED 

SINDH: LUMHS STUDENT DISAPPEARS, CLAIMS REACHING ‘LAND OF KHILAFAT’

Please follow and like us:
**** 
Source: https://arynews.tv/en/female-terror-suspect-arrested-lahore-operation-identified/ 

PAKISTAN



Female terror suspect arrested in Lahore operation identified




LAHORE: A woman among two who were arrested during a joint operation by Counter Terrorism Department (CTD) and intelligence agencies on Saturday near Punjab Housing Society, has reportedly been identified as Noreen Jabbar Laghari — a medical student from Jamshoro, ARY News reported.  
Noreen Jabbar Laghari had gone missing in February and was feared to have joined Islamic State militants in Syria.
During an intelligence-based operation (IBO) yesterday by CTD, security officials claimed to find Noreen’s college card and identity card of her father.
Moreover, a terrorist was killed while security officials claimed to have arrested two of his accomplices including Noreen Laghar after an exchange of fire.
Two CTD personnel also allegedly sustained injures in the operation.
However, the security officials did not disclose the identity of arrested suspects until late night yesterday.

READ: TERRORIST KILLED, TWO ARRESTED IN LAHORE CTD RAID

Noreen Jabbar Laghari, the second year student of MBBS in Liaquat University of Medical Science (LUMS) Jamshoro, arrested along with another suspected terrorist.
While Tariq, an alleged terrorist, was killed during the operation. Moreover, suicide jackets and explosives were also recovered during the operation.

*** 
Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39599926


’میری بیٹی انتہا پسند نہیں، اسے اغوا کیا گیا‘ نورین لغاری کے والد

نورین لغاری
Image captionنورین کے والد کو کسی بھی سرکاری ذریعے سے نورین لغاری کی برآمدگی کے بارے میں باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔
جامشورو کی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ نورین 10 فروری کی صبح گھر سے یونیورسٹی کا کہہ کر نکلی تھیں لیکن واپس نہیں لوٹیں۔ والدین پریشانی کا شکار ہوئے، در در اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے نکلے، اور جب کہیں سراغ نہ ملا تو 25 فروری کو حیدرآباد کے ایک تھانے حسین آباد میں بیٹی کے اغوا کی رپورٹ درج کرائی۔
رپورٹ درج کرانے کے بعد پولس کی تحقیقات کی صورت میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ لاہور کی بس میں سوار ہوئی تھیں۔ پھر سوشل میڈیا پر ان کے حوالے سے یہ بیان نشر ہوتا ہے کہ وہ ’خلافت‘ کی سرزمین پر پہنچ گئی ہیں۔
ان کے والد پروفیسر عبدالجبار لغاری نے اس بیان کو یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ یہ تحقیقات کا رخ موڑنے کی کوشش ہے۔ نورین کے والد سندھ یونیورسٹی میں شعبہ کیمسٹری میں استاد ہیں۔
سنیچر کے روز ذرائع ابلاغ پر جب یہ خبر نشر ہوئی کہ لاہور میں دہشت گردوں کے ساتھ ایک مقابلے میں ایک دہشت گرد مارا گیا ہے، اور ان کے دو ساتھی حراست میں لیے گئے ہیں جن میں ایک خاتون شامل ہے تو ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ حراست میں لی جانے والی خاتون نورین لغاری ہیں۔
ان کے والد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے علم میں نہیں ہے کہ کیا ہوا ہے؟
نورین کے بارے میں کئے گئے براہ راست سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی تک ان کے بارے میں لا علم ہیں۔
نورین کے والد کو کسی بھی سرکاری ذریعے سے اتوار کی دوپہر تک نورین لغاری کی برآمدگی کے بارے میں باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا ہے۔
حیدرآباد میں جہاں ان کے اغوا کی رپورٹ درج ہے، پولیس کو بھی علم نہیں کہ نورین لاہور میں بازیاب ہوئی ہیں اور حراست میں ہیں۔
حیدرآباد کے ایس ایس پی عرفان بلوچ نے ہفتے کی رات فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں علم نہیں کہ حراست میں لی جانے والے خاتون نورین ہیں۔
نوریں کی بازیابی میں تاخیر کی وجہ سے ان کے والد نے 26 مارچ کو حیدرآباد پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ جب ان سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا نورین انتہا پسندوں کے ساتھ رابطے میں تھیں یا ان سے مرعوب تھیں تو پروفیسر لغاری نے جواب میں کہا تھا کہ ایسا ہرگز نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان کی بیٹی کے بارے میں انھیں علم ہے کہ اس کے کسی کے ساتھ روابط نہیں تھے۔
نورین لغاری کے والد نے سوال کرنے والے صحافی سے کہا `آپ کی داڑھی ہے اور میری داڑھی نہیں ہے، مجھے تو آپ پر بھی (انتہا پسندی کا) شک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’نماز پڑھنے کی وجہ سے کوئی انتہا پسند نہیں ہوجاتا۔ میں بھی نماز پڑھتا ہوں تو کیا میں انتہا پسند ہوں یا مجھ پر لیبل لگ گیا۔‘
نورین کے مبینہ اغوا کی رپورٹ درج ہونے کے بعد پروفیسر لغاری نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے۔
نورین کے بھائی افضل لغاری کا اتوار کی صبح کہنا تھا کہ ’یہ موقف پولیس کا تھا اور ہے، ہم اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔ ہم تو ابھی تک اس کیس کو اغوا کا سمجھتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اگر وہ لڑکی نورین لغاری ہے تو ممکن ہے کسی دہشت گرد تنظیم نے اغوا کیا ہوگا۔ ہم سے تو رابطہ نہیں کیا گیا ہے اب تک۔ ہم آئی ایس پی آر اور چیف جسٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہماری بہن کو بازیاب کیا جائے۔ ایک اور بات پھیلائی جارہی ہے کہ وہ ا نتہا پسند خیالات رکھتی تھی لیکن کالج میں تو اس کی بہترین دوست ایک ہندو طالبہ ہے۔‘

No comments:

Post a Comment