Monday 24 April 2017

COW WILL RULE FORESTS NOT LION

ACTION RESERACH FORUM: INDIA  VOTE BANK IS MILKLESS COW , Hinduata has to choose out Cow and Modi, at the end Modi will go with the wind, Cow will liveand looking for Modi  


**** 

Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-39689607

India Hinduata: Cow will rule forests not lions 



جنگل کا راج بدلنے کو ہے!


ایک گائےتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionایک اخبار کے مطابق ایک گائے کے چارے پر روزانہ ساٹھ روپے خرچ ہوتے ہیں
کس نے سوچا ہوگا کہ گائے کے دن کچھ یوں بدلیں گے کہ شیر دم دبا کر بھاگتے نظر آئیں گے اور جنگلوں میں یہ معصوم سے جانور دندناتے پھریں گے!
جنگل سے شیروں کا راج ختم ہونے کو ہے اور اب وہاں گایوں کی حکمرانی ہوگی، اور اس میں غلط بھی کچھ نہیں، ایک جمہوری نظام حکومت میں یہ ہونا ہی تھا۔
لیکن پہلے تھوڑا پس منظر۔ ۔ ۔
انڈیا میں وفاقی حکومت گائے کے تحفظ کو اپنی سب سے اہم ذمہ داریوں میں شمار کرتی ہے۔ بہت سے نوجوان جنھیں لگتا ہے کہ حکومت اور پولیس یا تو نااہل ہیں یا سنجیدہ نہیں، وہ خود سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ یہ وہ نام نہاد 'گو رکشک' (گائے کے محافظ) ہیں جو گائے کی حفاظت کی ذمہ داری اور قانون دونوں کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے گریز نہیں کرتے۔
لیکن اس پورے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت ایک غیر معمولی حکمت عملی وضع کر رہی ہے۔ سنہ 1970 کے عشرے میں شیروں کو بچانے کے لیے 'پراجیکٹ ٹائیگر' شروع کیا گیا تھا جو بہت کامیاب ثابت ہوا تھا اور شاید اس کی کامیابی دیکھ کر حکومت کے دماغ کی بتی جلی ہے اور اب اسی طرز پر گایوں کے لیے بھی 'فاریسٹ ریزرو' بنانے پر غورکیا جارہا ہے!

شیر
Image captionپراجیکٹ ٹائیگر کے نتیجے میں انڈیا میں شیروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے
یہ بات نائب وزیر داخلہ ہنس راج اہیر نے اخبار انڈین ایکسپریس کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ مسٹر اہیر کا کہنا تھا کہ مویشیوں کے تحفظ کی راہ میں سب سے بڑا 'اڑنگا' یا مسئلہ یہ ہے کہ 'انھیں پالے کون؟'
اخبار نے گائے کے تحفظ کے لیے جنگلات میں محفوظ علاقے قائم کرنے کی تجویز کو کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب یہ معلوم ہے کہ ملک میں شیروں کی تعداد گھٹ کر صرف دو ہزار کے قریب رہ گئی ہے، اور ان کے ناپید ہونے کا خطرہ ہے، تو شیر کے شکار پر پابندی لگا دی گئی۔ سنہ 1973 میں حکومت نے 'پراجیٹ ٹائیگر' شروع کیا جو شیر کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔
مسٹر اہیر کا کہنا ہے کہ وہ گائے کے تحفظ کے لیے بھی اسی طرز پر اقدامات کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں انھوں نے ماحولیات اور جنگلات کی وزارت سے صلاح مشورہ بھی کیا ہے اور کہا ہے 'ہم اس پر تیزی سے عمل کرنا چاہتے ہیں۔'
بس مسئلہ یہ ہے کہ مویشیوں کی آخری ’مردم شماری' میں گائے کی آبادی لاکھوں میں نھیں کروڑوں میں تھی، دس کروڑ سے زیادہ، اور ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں۔ اخبار کےمطابق گائے ہر جگہ نظر آتی ہیں، گلی محلوں میں، شاہراہوں پر اور کھانے کی تلاش میں کوڑے کے ڈھیر کے قریب اور مسٹر اہیر کے خیال میں آسان حل یہ ہے کہ ان کے لیے محفوظ پناہ گاہیں بنا دی جائیں کیونکہ جنگلات میں ان کے لیے چارے کی کمی نہیں ہوگی۔

گؤ رکشک
Image captionانڈیا میں گؤ رکشکوں کی زیادتیوں کا لوگ آئے دن شکار ہو رہے ہیں
یہ بحث بہت پیچیدہ ہے اور بنیادی سوال یہ ہے کہ جب گائے دودھ دینے لائق نہیں رہتی تو اس کی دیکھ بھال کون کرے اور کیوں؟ ایک گائے کے چارے پر روزانہ تقریباً ساٹھ روپے خرچ ہوتے ہیں اور اخبار کے اندازے کے مطابق صرف ایک کروڑ ایسے مویشیوں کی دیکھ بھال پر، جو دودھ دینے لائق نہ رہے ہوں، ہرسال 22 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔
سوال یہ بھی ہے کہ انھیں ان محفوظ پناہ گاہوں تک پہنچایا کیسے جائے گا؟ اور ان سے ان کی مرضی معلوم کی جائے گی یا نہیں؟ یا بس ٹرکوں میں بٹھا کر جنگلوں میں چھوڑ دیا جائے گا؟ اور اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے تو بے چارے گو رکشک کس کا تحفظ کریں گے؟ کیا انھیں بھی ساتھ بھیجا جاسکتا ہے؟
بہرحال، سوال بہت ہیں اور جواب کم کیونکہ یہ تجویز ابھی شاید ابتدائی مراحل ہی میں ہے۔ یہ شیروں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ ان کی بادشاہت اب ختم ہونے کو ہے۔
لاکھوں پر ہزاروں کی حکمرانی کے دن اب ختم ہوئے، جتنا جلدی شیروں کی سمجھ میں یہ بات آجائے، ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا! ہاں، پراجیکٹ ٹائگر پوری توانائی کے ساتھ جاری رہے گا، شیر جنگل کا بادشاہ تھا تو اس کا یہ حشر ہوا، حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اس کا کون پرسان حال ہوگا؟

*** 
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-39819231

اب ڈاکٹرز مارشل آرٹس سیکھیں گے

انڈین ڈاکٹرزتصویر کے کاپی رائٹTHINKSTOCK
انڈیا کے سب سے مشہور سرکاری ہسپتال آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں اب ڈاکٹر مارشل آرٹس کی بھی تربیت حاصل کریں گے۔
اگر آپ نے جیکی چن یا ان سے پہلے بروس لی کی فلمیں دیکھی ہوں، تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ٹریننگ کے بعد ہسپتالوں کا ماحول کیسا ہو جائے گا؟
آپریشن تھیئٹر میں ڈاکٹر ادھر سے ادھر چھلانگیں مارتے پھریں گے، ایک ہاتھ سے سرجری کریں گے اور دوسرے ہاتھ سے چاؤ مِن کھائیں گے اور اسی دوران اگر کسی مریض یا تیماردار نے زیادہ بات کی تو بس اس کی خیر نہیں، ہوا میں گھوم کر ایک 'ریورس کک' ماری اور ہوش ٹھکانے۔
ہاں اگر زیادہ زور سے بھی لگ جائے، ڈاکٹر زیادہ طاقتور ہو یا مریض زیادہ بیمار، تو فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ آپ ملک کے سب سے بہترین ہسپتال میں جو ہیں۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے 'ٹراما سینٹر' کی مثال پورے ملک میں دی جاتی ہے، اس لیے آپ بھی گھبرائیے گا مت!
ڈاکٹر مارشل آرٹس ضرور سیکھیں لیکن ایک بار ٹھنڈے دماغ سے یہ ضرور سوچیں کہ مریضوں یا ان کے رشتے داروں کو پیٹتے ہوئے وہ کیسے لگیں گے؟ دوائی ٹھیک سے نہیں کھائی، ڈشوم! خوراک پوری نہیں لی، رات کو وقت پہ نہیں سوئے، یہ لو ایک اور ڈاکٹروں کا تحفظ بھی ضروری ہے لیکن مارشل آرٹس کا استعمال شاید اس کا بہترین طریقہ نہیں۔
پھر تصویر کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ ملک بھر سے مریض آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ میں علاج کے لیے آتے ہیں، زیادہ تر اس حالت میں کہ جب کہیں اور کوئی امید باقی نہ رہی ہو۔ اگر وہ بھی سفر پر نکلنے سے پہلے مارشل آرٹس کی تربیت لینے لگے تو کیا ہوگا؟
بھائی، آل انڈیا جانا ہے علاج کے لیے، یہ مارشل آرٹس تو اپنی سمجھ میں آتی نہیں، کوئی اچھا سا اکھاڑہ تو بتاؤ جہاں جاکر دو چار داؤ پینچ سیکھ لیں دھوبی پچھاڑ وغیرہ، یا بس عامر خان کی فلم دنگل دیکھ کر بھی کام چل جائے گا؟ سنا ہے کہ آج کل ڈاکٹر جب نبض بھی پکڑتے ہیں تو آسانی سے چھوڑتے نہیں، بس اپنی 'گرپ' ٹیسٹ کرتے رہتے ہیں، اس لیے پوری تیاری کے ساتھ جانا ہی ٹھیک ہے، بیماری سے مر گئے تو کوئی فکر نہیں لیکن بچ گئے تو عزت کے ساتھ واپس تو لوٹ آئیں گے!
لیکن آج کل کہاں کیا ہو جائے، کہنا مشکل ہے۔ حکومت گائیوں کو ادھار کارڈ جاری کرنے کی تیار کر رہی ہے، ہر گائے کا ایک الگ انفرادی نمبر ہوگا اور ان کی اپنی الگ شناخت ہوگی اور اتر پردیش میں ان کے لیے الگ ایمبولنس سروس شروع کی گئی ہے۔
گائیں تو ظاہر ہے کہ خوش ہیں، ان کی زندگی تو بن گئی، ان کے لیے جگہ جگہ 'اولڈ ایج ہوم' قائم کیے جا رہے ہیں۔
کسی نے ایک کارٹون بنایا تھا جس میں ایک گائے اپنی کسی دوست یا رشتے دار سے کہہ رہی ہے 'بس بڑھاپے کے لیے پینشن کا انتظام اور ہو جاتا تو کوئی فکر باقی نہ رہتی۔'
لیکن جو گائے نہیں ہیں، ان میں سے کچھ لوگ خوش نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی نے لکھا کہ گائیوں کا تحفظ ضروری ہے لیکن اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اب انھیں اپنی حفاظت کے لیے ہتھیاروں کے لائسنس جاری کر دیے جائیں۔
جہاں تک ڈاکٹروں کے مارشل آرٹس سیکھنے کا سوال ہے، ممکن ہو تو اپنی صحت کا خود ہی خیال رکھیے گا، پِٹ کر ٹھیک ہوئے، تو یہ زخم تمام زندگی ہرا رہے گا۔

No comments:

Post a Comment