Wednesday, 19 April 2017

PAKITAN: TORTUROUS INVESTIGATION OF PUNJAB POLICE



Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39627543

’تشدد بندے کو خوفزدہ کر سکتا ہے مگر اسے بدل نہیں سکتا‘

پولیس تشددتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionانسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں پانچ برسوں میں تشدد کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی کسی ایک شق پر بھی پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا
انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں تشدد کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی کسی ایک شق پر بھی پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ بعض ماہرین اس کی وجہ پاکستان میں زیرحراست تشدد کو روکنے میں حکومتی ناکامی کو قرار دیتے ہیں جہاں ریاستی اداروں کی تحویل میں تشدد معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس تشدد کے لیے کیا طریقے استعمال کیے جاتے ہیں اس کی ایک جھلک ان تین افراد کی کہانیوں میں ملتی ہے جو حال ہی میں اس تشدد کا نشانہ بنے اور انھوں نے اپنے تجربات بی بی سی اردو سے شیئر کیے۔

’تشدد بندے کو خوف زدہ کر سکتا ہے مگر اسے بدل نہیں سکتا‘، احمد وقاص گورایہ

تشدد اغوا کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے، کالے شیشوں والی گاڑی میں تھپڑ، مکے اور پھر ہتھوڑے وغیرہ۔
مجھے جس بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا اس کا آغاز تھکانے اور انسان کو نفسیاتی طور پر توڑ دینے والے تشدد سے ہوا۔ اغوا کاروں کے تشدد میں غصے اور خود لذتی کا عنصر اور اپنی طاقت کا اظہار غالب تھا۔
تشدد کے لیے مخصوص آلات اور پھر ٹارچر سیل میں جسمانی نفسیاتی تشدد کے علاوہ جس تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ تھا چوبیس گھنٹے میں سے 20 گھنٹے کھڑے رہنا ، چار گھنٹے سونا۔ 24 گھنٹے منہ پر کالا کپڑا۔
اور یہی نہیں بلکہ دوسروں پر ہوتے تشدد کی آوازیں، لوگوں کی چیخیں اور التجائیں ابھی تک مجھے یاد آتی ہیں اور میں سو نہیں پاتا۔
اور پھر آخری دو ہفتے کی قید تنہائی۔ جسمانی تشدد تو جیسے ہی بندہ باہر آتا ہے ختم ہو چکا ہوتا ہے مگر نفسیاتی اور معاشرتی تشدد کا سامنا کرنا زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔
تشدد کی ایک اہم جہت یہ تھی کہ میرے خاندان پر کیا گزری۔ میری والدہ آج بھی اکثر رات کو چیخ مار کر اٹھ بیٹھتی ہیں۔ خاندان سے اور زندگی سے خوشی جیسے غائب کر دی گئی ہے۔ ارسطو (میرا بیٹا) جو تین سال کا ہے، اس کے رویے میں غصہ، بےاعتباری اور دوستوں، جاننے والوں کا سامنا کرنے سے کترانا اس کا ثبوت ہے۔
پھر 'بلاسفیمی' کے جھوٹے الزامات کی وجہ سے جو معاشرتی دباؤ اور جان کا خطرہ رہا، تو کبھی کبھی بندہ کہتا ہے شاید اندر ہی محفوظ تھا، مار پیٹ رہے تھے مگر ماں باپ اور خاندان پر گزرنے والے عذاب کو تو نہیں دیکھ رہا تھا۔
تشدد آخر کیوں! اگر آپ کے اغوا کاروں نے آپ کو سیاسی یا نظریاتی اختلاف کی وجہ سے اٹھایا تو کیا تشدد سے انسان کے نظریات بدل جاتے ہیں؟
ہر طرح کے تشدد اور روزانہ کے درد کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ تشدد وقتی طور پر تو بندے کو خوف زدہ کر سکتا ہے مگر اس کو بدل نہیں سکتا۔
تشددتصویر کے کاپی رائٹAFP

جبر کی دنیا، سلمان حیدر

زندگی کا ہیولہ سرچ ٹاور پر گھومتے سورج کی طرح
سیاہ پٹی سے ڈھکی آنکھوں کے سامنے
رات جیسے دن میں کئی بار گزرتا ہے
دن کو کرۂ ارض پر بچھی سرد ٹائلیں تلووں سے گننے میں صرف ہوتا ہے
کرۂ ارض جس کا شمالی قطب اس کے جنوبی قطب سے نو قدم دور ہے
رزق کا دروازہ مجھے کل تک زندہ رکھنے کے لیے دن میں تین بار کھولا جاتا ہے
میں من و سلویٰ کی چھلکتی پلیٹ ہتھکڑی لگے ہاتھ سے سنبھالنے میں مہارت حاصل کر چکا ہوں
مجھے یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ شہادت کی انگلی گلے پر پھیری جائے تو پسینہ پیشانی سے پھوٹتا ہے
پیشاب کی بوتل جس نل کے نیچے خالی کی جاتی ہے اس سے پینے کا پانی بھرنا مشکل ہوتا
اگر گالیوں اور کراہوں کے بیچ کی خاموشی پر مجھے موت کا گمان نہ ہوتا
انگلیوں کی پوریں دیوار پر کھدے وہ سب نام یاد کر چکی ہیں
جنھوں نے جبر کی دنیا مجھ سے پہلے دریافت کی
رینجرزتصویر کے کاپی رائٹAFP

'تلووں میں لگی چوٹ کا اثر دماغ پر ہوتا تھا'، تنویر

بستر پر لیٹے، کمرے کی چھت کو مسلسل گھورنے والا تنویر (فرضی نام) بقول اس کے گوجرانوالہ کی ضلعی عدالتوں میں وثیقہ نویسی کا کام کرتا تھا اور اسے کچھ عرصہ قبل پڑوس میں ایک 80 سالہ خاتون کے قتل کے بعد 25 محلہ داروں سمیت حراست میں لیا گیا۔
ان افراد کو کسی تھانے میں یا پولیس کے تفتیش کے محکمے میں بھی نہیں رکھا گیا بلکہ اس کے لیے علاقے کے چوہدری کا ڈیرہ استمال کیا گیا جہاں پر مقامی تھانے کی پولیس ان افراد سے پوچھ گچھ کرتی تھی۔
تنویر نے بی بی سی کے شہزاد ملک کو بتایا کہ چونکہ چوہدری کا ڈیرہ آبادی سے زیادہ دور نہیں تھا اس لیے تفتیش کا مرحلہ دن کی بجائے رات نو بجے کے بعد شروع کیا جاتا تھا۔ اُنھوں نے بتایا کہ روزانہ رات کو پانچ افراد سے اس قتل کی تفتیش پنجاب پولیس کے 'روایتی' انداز میں کی جاتی تھی۔
تنویر کے بقول جب اُنھیں تفتیش کے لیے بلایا جانا تھا تو اُس سمیت دیگر پانچ افراد کو دن بھر بھوکا رکھا گیا۔ رات کو جب تفتیش کے لیے بلایا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے سامنے مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے۔
تفتیشی اہلکار اس کے ساتھ بڑے پیار سے پیش آئے اور سب نے مل کر کھانا کھایا۔ تنویر کا کہنا تھا کہ اسے پولیس والوں کے رویے پر بڑی حیرانی ہوئی اور 'میں نے دل میں سوچا کہ پولیس کے محکمے میں بھی اچھے لوگوں کی کمی نہیں۔'
تنویر کے مطابق کھانے سے فارغ ہونے کے بعد باقی افراد کو تو الگ کمرے میں بھیج دیا گیا مگر اسے تفتیش کے لیے بٹھا لیا گیا۔
'دو منٹ تک تو پولیس اہلکار آرام سے بات کرتے رہے، پھر اچانک ایک پولیس والا اُٹھا اور اس نے تھپڑوں اور مکّوں کی برسات کر دی۔ معاملہ یہاں پر ہی نہیں رکا بلکہ تحقیقات کی نگرانی کرنے والے اہلکار نے اپنے ماتحتوں کو حکم دیا کہ 'اینہوں لمیا پا لئو' (اس کو لٹا دو)۔'
تنویر کا کہنا ہے کہ اس کے بعد دو پولیس اہلکاروں نے اس کی ٹانگیں پکڑ لیں اور ایک پولیس اہلکار پاؤں کے تلووں پر چھتر(چمڑے کا بڑا سا ٹکڑا) مارنے لگا۔ تنویر کے بقول پاؤں کے تلووں پر لگنے والی چوٹ کا اثر دماغ تک پہنچتا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سر پر کوئی ہتھوڑے برسا رہا ہے اور یہ عمل رات گئے تک وقفے وقفے سے جاری رہا۔
تنویر کے بقول جب اُنھوں نے اعتراف جرم کرنے سے انکار کیا تو اگلی شب دو 'ہٹے کٹے' اہلکار لوہے کا ایک راڈ لائے اور اُن کی ٹانگوں پر رکھ کر اس پر اپنا پورا وزن ڈال کر اسے رولر کی طرح چلا دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس عمل کی تکلیف اتنی شدید تھی کہ وہ ہوش کھو بیٹھے۔
تنویر کے بقول پھر تین دن تک انھیں تفتیش کے لیے نہیں بلایا گیا اور جب دوبارہ باری آئی تو اہلکاروں کا ہدف ان کے بازو تھے۔
اُنھوں نے کہا کہ لوہے کا راڈ اُنھی صحت مند پولیس اہلکاروں نے اسی طرح ان کے بازوؤں پر پھیرا جس سے بازوؤں کی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں۔
تنویر کے بقول حراست کے دوران ان کا علاج بھی ہوتا رہا اور پھر انھیں اور حراست میں لیے گئے دیگر افراد کو 40 دن کے بعد بےگناہ قرار دے کر رہا کر دیا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ان افراد کے بارے میں نہ تو متعلقہ تھانے میں کوئی رپورٹ درج کی گئی تھی اور نہ ہی متعلقہ عدالت کو اس بارے میں آگاہ کیا گیا۔
تنویر کا کہنا تھا کہ انہوں نے رہائی کے بعد اپنی بساط کے مطابق علاج بھی کروایا لیکن بازو ٹھیک نہیں ہوئے۔

No comments:

Post a Comment