Tuesday, 4 April 2017

SCIENTIST HAVE DISCOVERED CONVERTING SEA WATER UBTO SWEET WATER


http://www.bbc.com/urdu/science-39487652

'سمندر کا کھارا پانی پینے کے قابل میٹھا بنایا جا سکے گا'

گریفین آکسائڈ پر مبنی چھلنیتصویر کے کاپی رائٹUNI MANCHESTER
Image captionسائنسدانوں کے مطابق گریفین آکسائڈ پر مبنی چھلنی تیار کرنا بہت آسان ہے
سمندر کا نمکین پانی پینے کے قابل نہیں ہوتا لیکن سائنسدانوں نے ایک نسبتا آسان اور سستا طریقہ دریافت کر لیا ہے جس کے ذریعے اسے اب وسیع پیمانے پر پینے کے قابل بنایا جا سکے گا۔
اس دریافت کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ پینے کے میٹھے اور صاف پانی کے لیے محتاج لاکھوں لوگوں کو راحت مل سکے گی۔
برطانیہ میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے گریفین آکسائڈ کی ایک ایسی چھلنی تیار کی ہے جو سمندر کے کھارے پانی سے نمک کو علیحدہ کرکے اسے پینے لائق بنا دے گی۔
پہلے بڑے پیمانے پر گریفین پر مبنی کسی چھلنی کے بنائے جانے کو ایک مشکل امر کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
گریفین گریفائٹ کا پتلی پٹی جیسا عنصر ہے اور گریفین آکسائڈ کی یہ چھلنی سمندر کے پانی سے نمک جدا کرنے میں بہت موثر ہے۔
پانی سے نمک جدا کرنے کے موجودہ طریقوں کے مقابلے میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ آسان کہا جا رہا ہے۔
پہلے یہ کہا گیا تھا کہ گریفین پر مبنی ٹیکنالوجی کا بڑے پیمانے پر استعمال مشکل اور مہنگا ہوگا۔
پانیتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionپینے کے صاف پانی تک رسائی ابھی لاکھوں لوگوں کا مسئلہ ہے
لیکن ڈاکٹر راہل نائر کی قیادت میں یونیورسٹی آف مانچسٹر کے سائنسدانوں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ گریفین آکسائڈ سے کھارے پانی کو پینے لائق بنانا آسان ہے۔
ان کی یہ تحقیق سائنس کے معروف جریدے 'نیچر نینوٹكنالوجي نے شائع ہوئی ہے۔
موجودہ دستیاب ٹیکنالوجی سے سنگل لیئر والے گریفين کی بڑے پیمانے پر پیداوار ایک مہنگا سودا تھا۔
لیکن نئی ٹیکنالوجی کے متعلق ڈاکٹر نائر نے بی بی سی کو بتایا: 'گریفين آکسائڈ لیب میں عمل تکسید کے ذریعے بہ آسانی تیار کیا جا سکتا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'ہم اسے روشنائی یا دوسرے محلول کی طرح کسی طبق یا چھاننے والے میٹیریئل پر لگا سکتے ہیں اور پھر ہم اسے کسی جھلی یا پتلے استر کی طرح استعمال کر سکتے ہیں۔'
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سنہ 2025 تک دنیا کی 14 فیصد آبادی کو پانی کے بحران کا سامنا ہوگا۔
دنیا میں پانی صاف کرنے کی موجودہ ٹیکنالوجی پولیمر فلٹر پر مبنی ہے۔
ڈاکٹر نائر کا کہنا ہے کہ ان کا 'اگلا قدم مارکیٹ میں دستیاب ٹکنالوجی سے اس کا موازنہ کرنا ہے۔'

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment