Friday 14 April 2017

INDIA GUJRAT - MUSLIMS REGROWING SELF CONFIDENCE IN ECONOMIC DEVELOPMENT

ACTION RESEARCH OPINION: INDIAN MUSLIM U TURN COMBATNG MODI HIDUATA, SEE IQBAL PREDICTIONS 
http://b4gen.blogspot.com/2017/04/allama-iqbals-predictions-for-21st.html 


***** 
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-39597788


گجرات کے مسلمانوں میں اب خود اعتمادی آرہی ہے



گجراتی مسلمان
Image captionشمع سکول کی یہ مسلم لڑکیاں ریاست گجرات کے سرکاری نصاب میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں

'میرا نام فردوس ہے، زبان گجراتی اور میں مسلمان ہوں۔ انڈیا پر مجھے فخر ہے۔' یہ الفاظ ایک 12 سالہ حجابی مسلم لڑکی کے ہیں جو احمد آباد کے شاه پور محلے کے شمع سکول میں پڑھتی ہیں۔ کچھ ایسے ہی خیالات کلاس کی دیگر لڑکیوں کے بھی ہیں۔
یہ ہیں گجراتی مسلمانوں کے نئے چہرے۔ یہاں مسلمانوں کی ایک نئی نسل تیزی سے تیار ہو رہی ہے۔ یہ نسل گجراتی ہونے پر فخر کرتی ہے اور اپنی مذہبی شناخت کو اجاگر کرنے سے نہیں ہچكچاتی۔
یہ نسل ریاست کے 2002 کے خوفناک مذہبی فسادات کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ گودھرا میں 59 ہندو کارسیوکوں کے قتل کے بعد ہونے والے تشدد میں 1000 سے بھی زیادہ مسلمان ہلاک کر دیے گئے تھے۔ ان کے ہزاروں مکانات اور دکانوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس فرقہ وارنہ تشدد کے بعد گجرات کا مسلمان خوفزدہ ہو کر اپنی بستیوں میں سمٹ کر رہنے لگا تھا۔


گجراتی مسلمان
Image captionنئی نسل کی سوچ کثیر الثقافتی معاشرے کی تعمیر ہے

شمع سکول کی یہ مسلم لڑکیاں ریاست گجرات کے سرکاری نصاب میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
ان کا يونیفارم اسلامی ہے، زبان گجراتی اور دل ہندوستانی۔ ان کے عزائم ہیں ڈاکٹر، انجینیئر اور فیشن ڈیزائنر بننے کے۔ ان کی سوچ کثیر الثقافتی معاشرے کی تعمیر ہے۔
شمع سکول گجرات عوامی ویلفیئر ٹرسٹ کے تعلیم مراکز کا ایک حصہ ہے جہاں 4500 مسلم لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس تنظیم کے سربراہ افضل میمن ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مسلم نوجوانوں کی تعلیم، ان کی صلاحیت کی ترقی اور اس کے سائنسی مزاج کو پیدا کرنا ان کی ترجیح ہے۔
میمن کہتے ہیں: 'یہ اسی طرح ہے جیسے کہ ایک آدمی کی آنکھیں ہیں لیکن آنکھوں کی روشنی نہیں۔ گجرات کے مسلمانوں کے پاس آنکھیں تھیں آنکھوں کی روشنی نہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی آنکھیں بھی ہوں گی اور آنکھوں کی روشنی بھی۔'


افضل میمن
Image captionافضل میمن کہتے ہیں کہ مسلم نوجوانوں کی تعلیم، ان کی صلاحیت کی ترقی اور اس کے سائنسی مزاج کو پیدا کرنا ان کی ترجیح ہے

ریاست میں 2002 کے تشدد کے بعد ڈرا، سہما اور لٹا ہوا مسلم سماج اب سر اٹھا کر جینا سیکھ رہا ہے۔ اس کے لیے مسلم سماج نے سب سے پہلے تعلیم حاصل کرنے کا کا فیصلہ کیا۔
فسادات کے متاثرین کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن حنیف لكڑاوالا کہتے ہیں کہ تشدد کے کچھ سالوں کے بعد ہی مسلمانوں نے تعلیم کے ذریعے اپنے معاشرے کی تعمیر نو شروع کر دیی تھی: 'فسادات کے وقت تعلیم کے 200 مسلم ادارے تھے۔ آج ان کی تعداد 800 ہے۔'
میمن تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں: 'ہم مسلمان اگر کیلے کا ٹھیلہ ہی لگاتے ہیں (تو کوئی بات نہیں) مگر اس کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔'
مسلم کمیونٹی میں سماجی بہتری لانے والے ایس اے قادری کہتے ہیں کہ آج گجرات میں کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں ہے جہاں مسلمانوں کا اپنا سکول نہ ہو۔


گجراتی مسلمان

حنیف لكڑاوالا کہتے ہیں: 'گجرات ہندوتوا کی لیبارٹری رہا ہے۔ ملک میں 2002 کے بعد جو کچھ بھی ہوا ہے گجرات میں اس کا استعمال کیا جا چکا ہے۔'
یوپی کے مسلمانوں کے ایک طبقے کو اس بات کا ڈر ہے کہ جو حال گجرات کے مسلمانوں کا ہوا وہی ان کے ساتھ بھی ہوگا۔ گجرات میں مسلمانوں کی آبادی ریاست کی آبادی کا 5۔9 فیصد جبکہ یوپی میں 20 فیصد ہے۔
یہ صحیح ہے کہ گجرات کا مسلمان دبا ہوا تھا۔ لیکن اب اس کا اعتماد واپس آ رہا ہے۔ اس کے لیے اس نے تعلیم کا سہارا لیا ہے۔
تعلیم پر زور دینے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ 15 سال پہلے مسلم بچوں کے سکول چھوڑنے کی شرح 40 فیصد تھی۔ آج یہ کم ہو کر صرف 2 فیصد رہ گئی ہے۔


حنیف لكڑاوالا
Image captionحنیف لكڑاوالا کہتے ہیں کہ گجرات ہندوتوا کی لیبارٹری رہا ہے

سماجی طور پر اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ مسلمان اب پڑھ لکھ کر اپنی بستیوں سے باہر نکل رہے ہیں۔ وہ تاجر پہلے بھی تھا لیکن اب وہ کاروبار میں ایک بار پھر سے پھل پھول رہا ہے۔ ان کے اور ہندوؤں کے درمیان فاصلے بھی کم ہوئے ہیں۔ لكڑاوالا کے مطابق مسلمانوں کی ہندو علاقوں میں قبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
ایس اے قادری کی رائے میں مسلم کمیونٹی کا قد اب کافی بہتر ہے۔ '1969 کے فساد میں وہ مبتلا ہوا۔ دس سال بعد وہ واپس آیا، اس کا قد بڑھ گيا۔ 2002 کے بعد اب وہ ایک بار پھر آگے بڑھا ہے۔ اس کا قد بلند ہوا ہے۔'
مسلم کمیونٹی کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ 25 سالوں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے انہیں اقتدار اور سیاست دور رکھا ہے۔ پارٹی ان کے ووٹ اور ان کے امیدواروں کے بغیر الیکشن جیتتی آ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی معاشرہ حکمران پارٹی سے برسوں دور رہے تو اس کی ترقی رک جاتی ہے۔
لیکن وقف بورڈ کے چیئرمین اور بی جے پی کے رکن اے آئی سید کہتے ہیں گجرات کے مسلمانوں کو مذہبی اور دوسری ہر طرح کی آزادی حاصل هے۔ اے آئی سید وزیر اعظم نریندر مودی کے کافی قریبی ساتھی مانے جاتے ہیں۔


گجراتی مسلمان
Image captionسیاست اور اقتدار میں مسلمانوں کی شراکت اب بھی بہت کم ہے

وہ کہتے ہیں کہ گجرات میں اسلام صرف زندہ ہی نہیں ہے بلکہ مسلم پھل پھول رہے ہیں۔ 'دیکھیے صاحب، یہاں مسجد میں اذانیں ہوتی ہیں، نماز پڑھی جاتی ہے، روزے رکھتے ہیں، جمعہ کی نماز ہوتی ہے، عید مناتے ہیں۔'
سیاست اور اقتدار میں مسلمانوں کی شراکت اب بھی بہت کم ہے لیکن کمیونٹی نے خود پر ترس کھانے کے بجائے اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا جس کے لیے تعلیم کو پہلی ترجیح دی۔
احمد آباد کے پرانے شہر میں تین دروازے اور اس کے آس پاس کے علاقے میں دور دور تک پھیلا ہوا بازار ہے۔ فٹ پاتھ پر ہزاروں دکانیں ہیں۔ زیادہ تر دکانوں کے مالک مسلمان ہیں۔ صابر خان نامی ایک دکاندار نے کہا کہ مسلمانوں میں غربت اب بھی کافی ہے لیکن فسادات کے بعد اقتصادی طور پر کافی ترقی بھی ہوئی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں: 'یہ مکمل مارکیٹ جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ ہندو گاہکوں پر ٹکی ہے۔ اگر وہ یہاں آنا بند کر دیں تو ہماری دکانیں بند ہو جائیں گی۔'


گجراتی مسلمان

سماجی کارکن صوفی انور حسین شیخ کے مطابق مسلمان خود سے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش تو کر رہا ہے لیکن حکومت اس میں کوئی مدد نہیں کر رہی ہے۔ تعلیم ایک الگ سیکٹر ہے جو نجی سیکٹر ہے۔ لوگوں نے وقت کی ضرورت کو سمجھا اور آگے بڑھے اور لوگوں نے پڑھائی لکھائی کی۔ حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے۔ حکومت مسلمانوں کو روزگار نہیں دے رہی ہے۔'
شمع سکول کے افضل میمن کہتے کہ پڑھائی کرو، حکومت کی طرف سے کام کی توقع مت رکھو۔ 'حکومت کی اپنی مجبوریاں ہو سکتی ہیں۔ ہم اگر پڑھ لکھ لیں گے تو ہماری عزت بڑھے گی اور پھر آپ کو لوگ پوچھیں گے بھی۔'
گجرات میں بی جے پی اقتدار میں 25 سالوں سے ہے۔ اتر پردیش میں حالیہ انتخابات میں پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کرکے وہاں حکومت بنائی ہے۔ ریاست کے مسلمان فکر مند ہیں کہ اب ان کا بھی وہی حشر ہو گا جو گجرات کے مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔


افسانہ انصاری

لیکن افضل میمن کہتے ہیں بھائی گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ گجرات کے مسلمانوں کا اتنا برا حال نہیں ہے کہ اس پر تشویش کی جائے۔ ان کا یوپی کے مسلمانوں کو مشورہ یہ ہے کہ وہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے ملیں۔
'مسلمانوں کو یوگی آدتیہ ناتھ سے ملنا چاہیے کیونکہ اقتدار میں جو ہوتا ہے اس سے ملنا پڑتا ہے۔ آپ کو ملنا پڑے گا۔ بی جے پی میں بھی ایسے بےشمار لوگ ہیں جو سیکولر ہیں اور وہ آپ کو سپورٹ بھی کرے گا۔'
شمع سکول کے بند ہونے کا وقت ہے۔ حجابي لڑکیاں کلاس سے باہر نکل رہی ہیں۔ سکول سے ملحق ایک قدیم مسجد سے اذان کی آواز آ رہی ہے۔ سکول کے ایک استاد نے کہا: 'یہ نظارہ کسی اسلامی معاشرے کا لگتا ہے، ہندو قوم کا نہیں۔'

متعلقہ عنوانات


**** 
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-39607184


'ڈرنے کی ضرورت نہیں، انشاءاللہ سب ٹھیک ہوگا'

اشوک بھائی بھٹ
Image captionگجرات میں رکن اسمبلی بھوشن اشوک بھائي بھٹ کہتے ہیں کہ مسلمان بہت بڑے کام کے لیے ان کے پاس نہیں آتے
انڈیا کی ریاست گجرات کے معروف شہر احمد آباد میں جمال پور کھڑیا رکن اسمبلی بھوشن اشوك بھائی بھٹ ایک معمولی سی کرسی پر بیٹھے ہیں اور معمول کے مطابق آج صبح بھی اپنے علاقے کے لوگوں سے مل رہے ہیں۔ ان کا دفتر بہت چھوٹا ہے۔ لہٰذا ان سے ملنے والے لوگوں کی لائن باہر سڑک تک لگی ہے۔
زیادہ تر رکن اسمبلی اور رکن پارلیمان کے ہاں عام طور سے ایسے نظارے روزانہ نظر آتے ہیں۔ بھوشن بھٹ کے گھر بھی ایک عام اجلاس ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ بھٹ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی ہیں اور وہاں موجود زیادہ تر فريادی مسلمان ہیں۔
گجرات سے باہر اس کا تصور کرنا بہت آسان نہیں کہ داڑھی والے مرد اور برقع پوش خواتین بی جے پی کے رکن اسمبلی سے اپنے مسائل پر بات کریں۔
لیکن یہ نظارہ یہاں روزانہ 9 بجے سے 11 بجے صبح تک دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ اس بات سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں لیکن کیا فرياديوں کی شکایتیں توجہ سے سنتے بھی ہیں؟
اس سوال پر وہ کہتے ہیں: نہ میں کسی کا نام پوچھتا ہوں، نہ کسی کا مذہب پوچھتا ہوں اور نہ کسی کی ذات پوچھتا ہوں۔ وہ اپنا کام لے کر آتے ہیں۔ میں ان کا کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
بھٹ سے ملنے آنے والوں میں حجابی فہمیدہ بانو اور سیاہ برقع میں ان کی بیٹی شاہین ہیں۔ خود کو تین طلاق کا شکار کہنے والی فہمیدہ بانو کہتی ہیں کہ ان کے شوہر نے طلاق کے بعد انھیں ان کے گھر سے نکال دیا تھا۔
مسلمان
Image captionبھوشن بھٹ جس اسمبلی حلقے سے منتخب ہوئے ہیں وہاں مسلمانوں کی آبادی 48 فی صد ہے
چہرے سے نقاب اٹھا کر ان کی بیٹی شاہین کہتی ہیں کہ رکن اسمبلی جی نے ان کی ماں کو ان کے گھر واپس بھیجنے میں مدد کی۔
وہ کہتی ہیں: ’میری ماں کا کیس چل رہا تھا۔ میں نے ان (بھوشن بھٹ) کی مدد لینے آئی تھی۔ ہمارا گھر سیل ہو گیا تھا۔ اس کا کھلنا مشکل تھا لیکن انھوں نے ہماری بہت مدد کی۔ ہمارا کام ہو گیا۔‘
ماں بیٹی کی اس جوڑی نے رکن اسمبلی سے ذاتی کام میں مدد لی۔ لیکن یہاں آدھار کارڈ (ایک طرح کا شناختی کارڈ) بنوانے میں مدد لینے آنے والے افراد بھی تھے، پولیس کے خلاف شکایت کرنے والے لوگ بھی اور کچھ ایسے جو کام ہونے جانے پر رکن اسمبلی کا شکریہ ادا کرنے آئے تھے۔
بھوشن بھٹ کہتے ہیں: ان (مسلمانوں) کو کوئی بڑا کام نہیں ہوتا ہے۔ ہسپتال کا کام ہوتا ہے، پانی کا کام ہوتا ہے، بجلی نہیں ہوتی ہے، اچھے سکول میں داخلہ کرانے کے لیے آتے ہیں۔ آپس میں جھگڑا ہوا تو آتے ہیں۔ پولیس کے خلاف شکایت لے کر آتے ہیں۔ میں ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
ان سے ملنے آنے والے ایک معمر شخص محمد اقبال کہتے ہیں: میں ان (بھوشن بھٹ) کے والد کے ساتھ بھی رہ چکا ہوں جو اسمبلی کے سپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا احساس کبھی نہیں ہوا۔ وہ ہمارے ہر پروگرام میں آتے ہیں۔ ہم ان کے ہر پروگرام میں جاتے ہیں۔
گجرات
Image captionہر روز اپنا کام کروانے کے لیے لوگ اپنے علاقے کے ایم ایل کے دفتر کے باہر نظر آتے ہیں
بھوشن بھٹ جمال پور کھڑیا انتخابی حلقے سے منتخب نمائندے ہیں جہاں سے ان کے والد اشوک بھٹ نے بھی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس علاقے میں 48 فیصد ووٹرز مسلمان ہیں۔ کچھ لوگوں کے مطابق مسلمانوں کے مسائل کو سننا دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں جیت کے لیے بھی ضروری ہو سکتا ہے۔
لیکن بھوشن بھٹ کا دعویٰ ہے کہ وہ ووٹوں کی سیاست نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں: سنہ 1857 سے لے کر سنہ 1947 تک ملک کی آزادی کی لڑائی میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب شامل تھے۔ آزادی کے بعد ووٹوں کی سیاست شروع ہوئی اور معاشرے کو توڑنے کی سیاست شروع ہوئی۔
ان کے مطابق اس وقت کے نریندر مودی نے سنہ 2001 میں وزیر اعلیٰ بننے کے بعد معاشرے کو متحد کرنے کا کام کیا۔ وہ کہتے ہیں: 'کانگریس سماج توڑنے کی سیاست کر رہی تھی، نریندر بھائی سماج کو جوڑنے کی سیاست کر رہے تھے، ترقی کی سیاست کر رہے تھے۔
بی جے پی گجرات میں نریندر مودی کے وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے سے اقتدار میں ہے۔ پارٹی نے مسلم امیدواروں کو انتخابات میں نظر انداز کیا اور ان کے ووٹوں کے بغیر پارٹی الیکشن جیتتی آ رہی ہے۔ مسلمانوں کو شکایت ہے کہ انھیں حکومت اور اقتدار سے دور رکھا جا رہا ہے۔
ماں بیٹی
Image captionماں بیٹی رکن اسمبلی بھوشن بھٹ کی شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ان کے ذاتی مسئلے حل کرنے میں ان کی مدد کی
گجرات میں دوسری پارٹیوں پر بھی مسلم کمیونٹی کو سیاست سے الگ رکھنے کا الزام ہے۔ مسلمان گجرات کی کل آبادی کا 9.5 فیصد ہیں۔ اس وقت 182 سیٹوں والی اسمبلی میں صرف دو مسلم ایم ایل اے ہیں اور دونوں کانگریس کے ہیں۔
جو گجرات میں برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے، وہ اتر پردیش میں حالیہ اسمبلی انتخابات میں ہوا۔ بی جے پی نے مسلم امیدوار اور مسلم ووٹ کے بغیر ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی۔ یو پی کے مسلمان گھبرائے ہوئے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ بی جے پی گجراتی مسلمانوں کی طرح انھیں بھی سیاست سے بے دخل کر سکتی ہے، ان کی شناخت مٹا سکتی ہی اور انھیں دوسرے درجے کا شہری بنا سکتی ہے۔
لیکن بھوشن بھٹ کے حامی محمد طارق کہتے ہیں: 'گجرات میں بھی جب بی جے پی پہلی بار اقتدار میں آئی تھی تو مسلمان بہت ڈرے ہوئے تھے۔ لیکن ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے گجرات میں تعلیم، حج اور وقف کا جو معاملہ ہے بی جے پی نے ان مسائل پر کام کیا ہے۔
مسلمان
Image captionمسلمانوں کی شکایت ہے کہ انھیں حکومت اور اقتدار سے باہر کیا جا رہا ہے
وہ یوپی کے مسلمان کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں: 'یہی اب یو پی میں ہو رہا ہے کہ وہاں مسلمان ڈر رہے ہیں، مسلمان کو کانگریس والے، سماج وادی پارٹی والے ڈرا رہے ہیں لیکن انھیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ انشاء اللہ اچھا کام ہوگا۔'
بھوشن بھٹ بھی کہتے ہیں کہ بی جے پی سے مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے مطابق پارٹی کے تمام ارکان اسمبلی مسلم کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتے۔ لیکن انھی کے گھر میں الگ تھلگ بیٹھی ایک مسلمان عورت زينا بی جے پی کی تنقید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں برابری کا حق چاہیے، لیکن بی جے پی حکومت کو برابری کا حق نہیں دیتی۔

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment