ACTION RESEARCH OPINION; Faith fundamentalist criminality in action in High Lands Master of Life, as well Modi Hinduate on same pitch.
God may save life.
More on: Mashal Khan killed student : http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39596466
****
Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39590534
God may save life.
More on: Mashal Khan killed student : http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39596466
****
Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39590534
مردان: توہینِ مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں طالب علم ہلاک
- 9 گھنٹے پہلے
- یہ بیرونی لنک ہیں جو ایک نئی ونڈو میں کُھلیں گے
- اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک
- اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر
- اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger
- اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل
- شیئر
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل طلبا نے توہین رسالت کے الزام پر یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو تشدد کرکے ہلاک کردیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی جہاں پر بقول پولیس کے مشتعل مظاہرین مقتول کی لاش کو جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق ڈی پی او مردان ڈاکٹر میاں سعید احمد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پولیس نے لاش اپنی تحویل میں لی۔
بیان میں ڈی پی او کا مزید کہنا تھا کہ واقعے کے بعد سرچ اپریشن کے دوران 59 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
طالب علم کی ہلاکت کا مقدمہ تھانہ شیخ ملتون میں درج کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے مردان پولیس کے ایک اہلکار نے نامہ نگار عزیز اللہ خان کو بتایا تھا کہ اطلاعات کے مطابق یہ جھگڑا مبینہ گستاخانہ گفتگو کی بنیاد پر شروع ہوا جس پر کچھ طالب علم مشتعل ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں ایک طالب علم ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ طالب علم فائرنگ سے ہلاک ہوا یا پھر جھگڑے کے دوران تشدد سے اس کی موت ہوئی۔
اس واقعے کے بعد عبدالولی خان یونیورسٹی اور مردان شہر میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔
ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے طالب علم کا نام مشعل تھا، اور وہ کچھ عرصہ ملک سے باہر بھی گزار چکا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے پہلے تو مشعل کے دوستوں کو مارنا شروع کیا تاہم وہاں موجود چند لوگوں نے جب انھیں بتایا کہ ان میں سے کوئی بھی مشعل نہیں تو ان افراد نے ان دو طالب علموں کو شدید زخمی کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔
اطلاعات کے مطابق بعد میں چند طالب علموں نے مشعل کو ڈھونڈ کر پہلے تو مبینہ طور پر گولیاں ماریں اور پھر مبینہ طور پر ان کی لاش کو گھسیٹے ہوئے لے کر آئے۔
گورنر خیبر پختونخوا نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
ہلاک ہونے والے طالب علم کا تعلق صوابی سے بتایا گیا ہے اور وہ یونیورسٹی میں شعبۂ صحافت میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
طالب علم کے ایک استاد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یقین نہیں آ رہا کیونکہ مذکورہ طالب علم سے انھوں نے ایسی کوئی بات کبھی نہیں سنی تھی۔
کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں
*****
Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39597778
توہین مذہب کے الزام پر طالبعلم کے قتل کا مقدمہ درج، آٹھ ملزمان گرفتار
- 47 منٹ پہلے
- یہ بیرونی لنک ہیں جو ایک نئی ونڈو میں کُھلیں گے
- اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک
- اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر
- اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger
- اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل
- شیئر
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں پولیس کا کہنا ہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل طلبا کے ہاتھوں توہین مذہب اور توہینِ رسالت کے الزام پر قتل ہونے والے طالب علم مشعل خان کی ہلاکت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور نامزد ملزمان میں سے آٹھ کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔
مردان میں پولیس کے ضلعی سربراہ ڈاکٹر میاں سعید احمد کے مطابق مشعل خان کی ہلاکت کا مقدمہ شیخ ملتون تھانے میں درج کیا گیا ہے اور اس میں قتلِ عمد کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات بھی شامل کی گئی ہے۔
ڈی پی او کے مطابق اس مقدمے میں 20 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے جن میں سے آٹھ کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملزمان کی شناخت ویڈیوز کے ذریعے کی گئی اور بقیہ ملزمان کی گرفتاری کیلئے پولیس کی تین ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔
ادھر ہلاک ہونے والے طالبعلم مشعل خان کو جمعے کی صبح صوابی میں ان کے گاؤں زیدہ میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
صوابی سے ہمارے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ مشعل خان کے جنازے میں 400 سے 500 افراد شریک تھے۔
توہینِ مذہب کے الزام پر یونیورسٹی کے طلبا کے ہاتھوں مشعل خان کی ہلاکت کا واقعے جمعرات کی صبح پیش آیا جب سینکڑوں طلبا نے ہوسٹل میں گھس کر مشعل خان سمیت تین طلبا پر شدید تشدد کیا۔
اس تشدد کے نتیجے میں مشعل خان ہلاک ہو گئے جبکہ دیگر دو طلبا شدید زخمی ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق مقامی پولیس جب یونیورسٹی پہنچی تو مشتعل مظاہرین مقتول کی لاش جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ڈی پی او مردان ڈاکٹر میاں سعید احمد نے کہا کہ پولیس نے لاش اپنی تحویل میں لی اور اسے ہسپتال منتقل کیا۔
اس واقعے کے بعد عبدالولی خان یونیورسٹی اور مردان شہر میں کشیدگی پائی جاتی ہے اور یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
ہلاک ہونے والے طالب علم مشعل خان یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ان کے ایک استاد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یقین نہیں آ رہا کیونکہ مذکورہ طالب علم سے انھوں نے ایسی کوئی بات کبھی نہیں سنی تھی۔
عینی شاہد
ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ مشعل کچھ عرصہ ملک سے باہر بھی گزار چکا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے پہلے تو مشعل کے دوستوں کو مارنا شروع کیا تاہم وہاں موجود چند لوگوں نے جب انھیں بتایا کہ ان میں سے کوئی بھی مشعل نہیں تو ان افراد نے ان دو طالب علموں کو شدید زخمی کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔
اطلاعات کے مطابق بعد میں چند طالب علموں نے مشعل کو ڈھونڈ کر پہلے تو مبینہ طور پر گولیاں ماریں اور پھر مبینہ طور پر ان کی لاش کو گھسیٹے ہوئے لے کر آئے۔
***
SOURCE: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39609187مقامی مسجد کے امام نے مشال خان کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا
- 46 منٹ پہلے
- یہ بیرونی لنک ہیں جو ایک نئی ونڈو میں کُھلیں گے
- اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک
- اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر
- اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger
- اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل
- شیئر
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں نے توہین رسالت کے الزام میں تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے طالبعلم مشال خان کے جنازے میں مقامی مسجد کے امام نے ان کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جس شخص نے بعد میں نماز پڑھائی اُس سے بھی بعد میں لوگوں نے نماز پڑھانے پر بحث مباحثہ کیا۔
مشال کو اب دفنایا جا چکا ہے لیکن یونیورسٹی میں اس کے کمرے میں ابھی بھی کمیونزم کے بانی کارل مارکس اور کیوبن انقلاب کے رہنما چے گیؤویرا کی تصاویر لگی ہوئی ہیں اور ان دیوار پر ان کے قول درج ہیں جن میں سے ایک پر لکھا ہوا ہے 'ہمیشہ متجسس ، جنونی اور پاگل رہو۔'
یاد رہے کہ اپنی موت سے ایک دن قبل یونیورسٹی میں مشال خان کی ساتھی طالب علموں کے ساتھ گفتگو میں مذہبی بحث چھڑ گئی جس کے بعد مشتعل طلبا نے اس کے ہوسٹل کے کمرے تک اس کے پیچھا کیا اور الزام لگایا کہ اس نے توہین آمیز گفتگو کی ہے۔
عینی شاہدین اور پولیس کے مطابق اس ہجوم نے مشال خان کو ہوسٹل میں اس کے کمرے سے کھینچ کر باہر نکالا اور تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔
مشال خان کو جاننے والوں نے کہا کہ وہ ایک متجسس طبیعت رکھنے والا طالبعلم تھا جس نے ہمیشہ اسلام سے اپنی محبت کا اظہار کیا لیکن ساتھ ساتھ سوالات بھی اٹھاتا تھا۔
روئٹرز سے بات کرتے ہوئے مشال خان کے ایک استاد نے بتایا کہ 'وہ ہمیشہ کھل کے بات کرتا تھا لیکن اس کو احساس نہیں تھا کہ وہ کیسے ماحول میں رہ رہا ہے۔'
مشال خان کے ہوسٹل میں کام کرنے والے عزیز الرحمان جس نے مشال کی ساتھی طلبہ کے ساتھ بحث دیکھی تھی، کہا کہ وہ ہمیشہ پیچیدہ اور مختلف نوع کے موضوعات پر بات کرتا تھا۔
پولیس نے کہا ہے کہ مشال خان کے قتل کے مقدمے میں انھوں نے اب تک 20 افراد کو حراست میں لے لیا ہے اور اب تک انھیں ایسے کوئی ثبوت نہیں ملے جس سے ظاہر ہو کہ مشال نے توہین مذہب کی ہو۔
عزیز الرحمان نے رؤٹرز کو بتایا کہ جب پولیس پہنچی تو مشال خان اس وقت تک زندہ تھا جب تک وہ ہوسٹل پہنچی اس وقت تک مشال خان کی موت واقع ہو گئی۔
'وہ آرام سے اس کی جان بچا سکتے تھے لیکن وہ ہجوم سے دور رہے۔ میں نے ایک پولیس والے کو یہ کہتے سنا کہ اچھا ہوا اس دہریے کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے۔'
مردان پولیس کے افسر عالم شنواری نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ ان کے اہلکاروں نے مشال خان کو بچانے کے کوششیں نہیں کیں۔
'جب ہم یونیورسٹی داخل ہوئے تو اس وقت تک مشعل خان کو قتل کیا جا چکا تھا اور ہجوم اس کی نعش کو جلانے کی کوششیں کر رہا تھا۔
پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں قتل کیے جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ملک میں توہین مذہب کے بہت سخت قوانین ہیں جن میں سے کچھ کی سزا موت ہے۔
اسلام آباد کے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز کے مطابق 1990 کے بعد سے اب تک ملک میں کم از کم 65 افراد کو توہین مذہب کے الزامات کے نتیجے میں ہلاک کیا جا چکا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ توہین مذہب کے الزامات میں جیلوں میں بند ہیں اور کئی لوگوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔
اس سال مارچ میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے حکم دیا تھا کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے توہین آمیز مواد کو مکمل طور پر ہٹایا جائے اور جس فرد نے ایسے مواد کو شائع کیا ان کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جائے۔
مشعل کے آْبائی شہر صوابی میں اس کے والد اقبال شاعر نے کہا کہ ان کے بیٹے پر لگائے جانے والے توہین مذہب کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ 'پہلے انھوں نے میرے بچے کو مارا اور اب ہمارے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔'
اقبال شاعر نے کہا کہ ہمیشہ سے شاعری اور ادب کے دلدادہ رہے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی ترغیب دی ہے۔
میری بیوی نے مجھ سے آج صبح کہا کہ 'اس نے اپنے پوری زندگی ہمارے بیٹے کو پالنے میں صرف کر دی لیکن جنھوں نے اس کو قتل کیا، انھوں نے اس تمام محنت کو ضائع کر دیا۔'
متعلقہ عنوانات
SOURCE: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39611682
چیف جسٹس نے طالبعلم مشال خان کے قتل کا نوٹس لے لیا
- 16 اپريل 2017
- یہ بیرونی لنک ہیں جو ایک نئی ونڈو میں کُھلیں گے
- اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک
- اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر
- اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger
- اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل
- شیئر
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طالبعلم مشال خان کو مبینہ توہین مذہب کے الزام پر تشدد کر کے قتل کرنے کا نوٹس لے لیا ہے۔
سنیچر کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی خیبرپختونخوا سے آئندہ 36 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔
واضح رہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں دو روز قبل مشتعل ہجوم نے شعبہ صحافت کے طالبعلم مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کر دیا تھا۔ تشدد کے اس واقعے میں دو طالبعلم زخمی ہوئے تھے جنھیں ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے میڈیا پر شائع ہونے والی خبروں اور معلومات پر یہ نوٹس لیا گیا ہے۔
اس سے قبل پولیس نے سنیچر کو ہی ان آٹھ افراد کو عدالت میں پیش کیا جنہیں گذشتہ روز گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت نے ملزمان کو چار روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق اس واقعہ کی تفتیش جاری ہے اور اس حوالے سے تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ مردان پولیس کے مطابق سی سی ٹی وی کیمروں اور ویڈیوز کے ذریعے سپیشل آپریشن اور ٹیکنیکل ٹیموں نے مزید ملزمان کی شناخت کی ہے جن میں سے پانچ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس نے بتایا ہے کہ مشال خان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ موصول ہو گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گولی لگنے سے موت واقع ہوئی ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ کے مطابق مردان کے ضلعی ناظم حمایت اللہ مایار نے کہا ہے کہ پولیس بے گناہ افراد کو حراست میں نہ لے۔
ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کی ذمہ داری اب ضلعی انتظامیہ یا ناظمین کے پاس نہیں بلکہ ضلعی پولیس افسر کے پاس ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب کوششیں جاری ہیں کہ یونیورسٹی بھی جلد از جلد دوبارہ کھولی جائے تاکہ تدریسی عمل شروع کیا جا سکے۔
واضح رہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں دو روز قبل مشتعل ہجوم نے شعبہ صحافت کے طالبعلم مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کر دیا تھا۔ تشدد کے اس واقعے میں دو طالبعلم زخمی ہوئے تھے جنھیں ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد یونیورسٹی غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی گئی تھی۔ یونیورسٹی انتطامیہ کے مطابق انھیں ایسا کوئی علم نہیں تھا کہ یونیورسٹی میں اس بارے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔
****
Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-40143749:
مشال خان کا قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا: جے آئی ٹی رپورٹ
- 3 گھنٹے پہلے
- یہ بیرونی لنک ہیں جو ایک نئی ونڈو میں کُھلیں گے
- اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک
- اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر
- اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger
- اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل
- شیئر
مشال خان قتل کیس میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی یا جے آئی ٹی کی رپورٹ مکمل ہو گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور جس میں یونیورسٹی ملازمین بھی ملوث ہیں۔
عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے شعبہ صحافت کے طالبعلم مشال خان کو 13 اپریل کو یونیورسٹی کے اندر مشتعل افراد نے فائرنگ اور تشدد کرکے ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے واقعے کی تحقیق کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔
نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق بی بی سی کو موصول ہونے والی جے آئی ٹی رپورٹ کی کاپی کے ساتھ 12 رکنی تحقیقاتی ٹیم کے اہلکاروں کے نام اور دستخط بھی دیے گئے ہیں۔
تاہم مردان پولیس نے اس رپورٹ کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پی ایس ایف کے صدر اور یونیورسٹی کے ایک ملازم نے واقعے سے ایک ماہ قبل مشال خان کو ہٹانے کی بات کی تھی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک مخصوص سیاسی گروہ کو مشال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا جبکہ مشال خان یونیورسٹی میں بے ضابطگيوں کے خلاف بھی کھل کر بات کرتے تھے جس سے یونیورسٹی انتظامیہ ان سے خوف زدہ تھی۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پر لوگوں کو مشال خان کے خلاف اکسایا جبکہ رپورٹ میں مشال خان اور اس کے ساتھیوں کے خلاف توہین رسالت یا مذہب کے کوئی ثبوت موجود نہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد اور فائرنگ کے بعد مشال خان سے آخری بار ہاسٹل وارڈن کی بات ہوئی جس میں مشال خان نے ان سے کہا کہ وہ مسلمان ہیں اور پھر انھیں کلمہ بھی پڑھ کر سنایا اور ان سے یہ التجا بھی کی کہ انھیں ہسپتال پہنچایا جائے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی میں رجسٹرار سے لے کر سیکورٹی افسر تک تمام عہدوں پرنااہل سفارشی اور سیاسی بنیادوں پر ملازمین کی تقرریاں کی گئی ہیں جس سے یونیورسٹی کا سارا ڈھانچہ درہم برہم ہوگیا ہے۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں منشیات، اسلحے کا استعمال اور طالبات کا استحصال عام ہے۔
یونیورسٹی کے بیشتر ملازمین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں چھان بین کی ضرورت ہے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکے۔
رپورٹ میں پولیس کے کردار پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس کی طرف سے بروقت کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق غفلت کے مرتکب افسران اور اہلکاروں کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔
خیال رہے کہ مشال خان قتل کیس میں اب تک 57 ملزموں میں سے 54 کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں 12 یونیورسٹی کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ اس کیس میں کچھ افراد اب بھی رپورش ہیں جن کی گرفتاری کےلیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
****
Source: http://www.bbc.com/urdu/42764160
Source: http://www.bbc.com/urdu/42764160
’میرے وجود کو مار سکتے ہو، سوچ کو نہیں‘
عمر آفریدیبی بی سی اردو سروس لندن
گذشتہ برس مردان میں ہلاک کیے گئے طالبعلم مشال خان کے والد اقبال خان کا کہنا ہے کہ 'ملک پر چھائے تشدد کے اندھیرے کو دور کرنے کے لیے چاہیے کہ عدم تشدد کی تحریک چلائی جائے۔'
مشال خان کو عبدالولی خان یونیورسٹی میں گذشتہ برس ایک بے قابو ہجوم نے مبینہ توہین مذہب کے الزام میں وحشیانہ طریقے سے ہلاک کر دیا تھا۔
مزید پڑھیے
ان کے والد اقبال خان سنیچر کی شام یونیورسٹی آف لندن میں بلومزبری پاکستان کے زیرِ اہتمام عبدالغفار خان کی تیسویں برسی پر منعقدہ باچا خان لکچر میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ انھیں باچا خان کے لقب سے مشہور خان عبدالغفار خان کو قریب سے دیکھنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
اقبال خان کا کہنا تھا کہ 'باچا خان کے خدائی خدمتگاروں کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا۔ جو تھا وہ عدم تشدد تھا۔'
اقبال خان نے خدائی خدمتگار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان کی زندگی، پختونوں کی بیداری اور برصغیر کی تحریک آزادی میں باچا خان کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
ان کا کہنا تھا کہ پختون قوم کو تعلیم سے روشناس کرانے میں باچا خان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اقبال خان کے مطابق وہ فلسفۂِ عدم تشدد کے داعی تھے۔ پختون قوم کو آزادی کے حصول کے لیے یہ ہی راستہ اپنانے کا درس دیا اور خود بھی تمام عمر اس پر کاربند رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ باچا خان اپنے پیروکاروں کو عدم تشدد اور پر امن احتجاج کے ذریعے مقصد کے حصول کا درس دیتے تھے اور کہتے تھے کہ عدم تشدد میں شکست نہیں کیونکہ یہ مکمل فلسفۂ حیات ہے۔
اقبال خان نے کہا کہ نوجوانی کے زمانے میں وہ باچا خان کے ساتھ گدون امازئی گئے تھے جہاں لوگ حکومت کے خلاف مشتعل تھے تو 'باچا خان نے ان سے کہا کہ حکومت کی مثال ایک پہاڑ کی سی ہے۔ اس سے اپنا سر مت ٹکراؤ۔ اس پہاڑ میں راستہ بنانے کی کوشش کرو۔ عدم تشدد کا راستہ اپناؤ۔'
باچا خان کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ عدم تشدد کا فلسفہ انھوں نے مہاتما گاندھی سے لیا تھا۔ تاہم بی بی سی پشتو کے داؤد اعظمی کا کہنا ہے کہ باچا خان کے فلسفۂ عدم تشدد کی بنیاد پیغمبرِ اسلام کا سفرِ طائف تھا کہ جب وہ اسلام کی دعوت لے کر شہر کے لوگوں کے پاس گئے تو شہر والوں نے انھیں پتھر مارے۔ مگر پیغمبرِ اسلام نے ان کے لیے یہ کہہ کر خدا سے دعا مانگی کہ یہ لوگ جانتے نہیں۔
باچا خان کے فلسفے پر سختی سے کاربند اقبال خان نے کہا کہ سنہ انیس سو ستتّر میں بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک کی، جس میں نیشنل عوامی پارٹی بھی شامل تھی، باچا خان نے مخالفت کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ اس ملک پر گہرا اندھیرا چھانے والا ہے۔ جو بقول اقبال خان کے ستتّر کے مارشل لا کی صورت میں ظاہر ہوا۔
اپنے بیٹے مشال خان کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ وہ صوفی سوچ کا پرچار کرنے والے، علم دوست اور کتاب دوست تھے۔
اقبال خان کے بقول مشال خان خود کو بشر دوست یا انسان دوست کہتے تھے۔
اقبال خان کا کہنا تھا کہ مشال خان نے مرنے سے کچھ وقت پہلے پشتو زبان میں فیس بک پر پوسٹ کی تھی کہ 'اگر میرے قتل میں تمھارے بچوں کا رزق رکھا ہے تو بچوں کا پیٹ بھرو، مگر یہ سن لو کہ کافر نہیں ہوں۔'
انھوں نے بتایا کہ موت سے پہلے مشال کے الفاظ تھے کہ 'تم میرے وجود کو مار سکتے ہو لیکن میری فکر، نظریے اور شعور کو نہیں مار سکتے۔'
No comments:
Post a Comment