ACTION RESEARCH FORUM: ARMLESS GIRLS OF KASHMIR (INDIA) IN STRAIGHT COMBAT WITH OCCUPIED FORCES, COW IS 'MATA' BUT KSHMIRI GIRLS ARE FIGHTING FORCE. NO FORCE CAN FACE YOU.
****
Source: https://arynews.tv/en/india-blocks-social-media-held-kashmir/
INTERNATIONAL
****
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-39721890
****
Source: https://arynews.tv/en/india-blocks-social-media-held-kashmir/
India blocks social media in held-Kashmir
By
Posted on April 26, 2017
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-39721890
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سنگ بار لڑکیاں
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے آنے والی سنگ باری کی تصاویر میں پہلے زیادہ تر لڑکے دکھائی دیتے تھے لیکن اب سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والے جھڑپوں میں لڑکیاں بھی دکھائی دینے لگی ہیں۔
ایک ہفتے کی پابندی کے بعد وادی کشمیر کے سکول اور کالج جب دوبارہ کھلے تو سڑکوں پر کچھ اور ہی منظر دیکھنے کو ملا۔
ویسے تو کشمیر میں احتجاج اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن لڑکیوں کو سنگ باری میں شامل ہونے نئے رجحان کے طور پر ابھر رہا ہے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹوں میں کہا جا رہا ہے کہ اب کشمیری لڑکیاں بھی آزادی اور انڈیا مخالفت کے نعرے لگا رہی ہیں۔
ان میں سے اکثر سکول اور کالج جانے والی لڑکیاں ہیں۔ ان کی پیٹھ پر لدا بیگ اور یونیفارم اس تصدیق کرتے ہیں۔
کشمیر پر نظر رکھنے والے لوگ اس وادی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور پرتشدد جھڑپوں کا نیا چہرہ قرار دے رہے ہیں۔
نوجوان لڑکیاں سکیورٹی فورسز کے خلاف احتجاج کا جھنڈا بلند کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ تصاویر تقریباً وائرل ہو گئی ہیں۔
تصاویر میں لڑکیاں دیکھی جا سکتی ہیں جو پولیس اور سکیورٹی فورسز پر پتھر پھینک رہی ہیں۔
یہ تصاویر سری نگر کے مولانا آزاد روڈ پر موجود گورنمنٹ کالج فار ویمن کے قریب کی ہیں۔
سماجی حلقوں میں گورنمنٹ کالج فار ویمن کو ممتاز کالج سمجھا جاتا ہے۔
24 اپریل کو سری نگر کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ طالبات کی جھڑپیں ہوئیں۔
اپریل میں ہی سری نگر میں ہوئے ضمنی انتخابات کے دوران محض 7 فیصد ووٹنگ کے درمیان خوب تشدد دیکھنے کو ملا۔
صورت حال اس وقت اور کشیدہ ہو گئی جب سکیورٹی فورس اور کشمیری نوجوان اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی عکاسی والے ویڈیوز کو شیئرز کیا جانے لگا۔
کشمیر کی بگڑتی صورت حال سے پریشان وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو مرکزی حکومت سے بات چیت کرنے کے لیے نئی دہلی آنا پڑا۔
انھوں نے مرکزی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ بات چیت کی پیشکش کریں اور کوئی ہم آہنگی کا راستہ نکالیں۔
محبوبہ پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔
پالیسی کمیشن کی میٹنگ میں حصہ لینے نئی دہلی آئیں ریاست کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کشمیر مسئلے پر وزیراعظم نریندر مودی سے پیر کو ملاقات کی۔
انھوں نے بار بار کہا کہ کشمیر پر اٹل بہاری واجپئی کی حکمت عملی کو اپنانے کی ضرورت ہے، کے دروازے سے سرے کو وہیں سے پکڑے جانا چاہیے جہاں واجپئی نے اسے چھوڑا تھا۔ کشمیر کے زیادہ تر سیاستدان ان دنوں واجپئی کی کشمیر پالیسی کا حوالہ دیتے ہیں اور اسے اپنانے پر زور دیتے ہیں.
احتجاج پر قابو پانے کے لیے پولیس نے کہیں کہیں آنسو گیس کے گولے بھی چھوڑے۔
ادھر، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے تمام اخبار، طالب علموں اور فوجی فورسز کے درمیان تازہ تصادم پر شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور مودی حکومت سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان سمیت 'تمام فریقوں' سے بات چیت کرے۔
پیر کو سری نگر کے لال چوک میں طالب علموں اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں ایک سینیئر افسر اور دو طالبات زخمی ہو گئی تھیں۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق گذشتہ جمعرات کو بھی سرینگر کے نوكڈل علاقے میں ایسی ہی ایک جھڑپ میں ایک لڑکی زخمی بھی ہو گئی تھی.
زخمی لڑکی کا سری نگر کے شیف ہری سنگھ ہسپتال میں علاج کرایا جا رہا ہے۔ ریاست بھر میں ہو رہے ان احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر ایک ہفتے کے لیے سکول اور کالج بند بھی کر دیے گئے تھے.
بہت کشمیری اخباروں نے لکھا کہ ’طالب علم کلاس میں جائیں اور پولیس ان سے دور رہے۔'
کئی اخباروں نے ریاست کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی کے اس بیان کو پہلے صفحے پر جگہ دی جس میں انھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا سیاسی حل ہی نکل سکتا ہے۔
کئی اخباروں نے پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت کو ریاست کے خراب حالات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے 'ناکام اتحاد' قرار دیا۔
گذشتہ برس جولائی میں بھارتی سکیورٹی فورسز سے ہوئی تصادم میں عسکریت پسند برہان وانی کی موت کے بعد شروع ہونے والے تشدد میں 100 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔
چار ماہ تک مسلم اکثریتی آبادی والی وادی سلگتی رہی، اس میں 55 دن تو کرفیو لگا رہا۔اس موسم گرما میں بھی صورت حال بہت بہتر نہیں نظر آرہی ہے۔
No comments:
Post a Comment