Thursday 20 April 2017

PANAMA CASE; JUDGEMENT CHARGES AND ANSWERS

ACTION RESEARCH OPINION: Logically; Split Decision: Two SC judges deducted PM guilty by Math. induction, while rest 3 need probing to discretely vote for culprit.   


Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39050041 


MORE ON : http://b4gen.blogspot.com/2017/04/panama-case-verdict-on-april-20.html

پاناما کیس: الزامات اور ان کے جوابات


نواز شریف اور عمران خان

گذشتہ سال پاناما پیپرز کے نام سے شائع ہونے والی دستاویز میں پاکستانی وزیراعظم کے اہل خانہ کا نام سامنے آتے ہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے شریف خاندان پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے انھیں اقتدار سے الگ کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا۔
اسی سلسلے میں انھوں نے سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے لیے درخواست دائر کر دی۔ 26 صفحات پر مشتمل اس درخواست میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے تینوں بچوں سمیت کل دس لوگوں کو مدعاعلیہان قرار دیا گیا تھا۔
یہ درخواست 29 پیراگرافس پر مشتمل تھی جن میں مدعی نے معاملے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مدعاعلیہان پر الزامات عائد کیے اور عدالت سے التجا کی کہ میاں نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور رکن قومی اسمبلی اور مریم نواز شریف کے شوہر کیپٹن صفدر کو آئین کی شق 62 کی خلاف ورزی کرنے پر اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیا جائے۔
عمران خان کے الزامات پر وزیراعظم نواز شریف نے تو کوئی جواب داخل نہیں کرایا البتہ ان کے تینوں بچوں، مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز کے جوابات ان کے وکیل سید رفاقت حسین شاہ کے توسط سے عدالت میں جمع کرائے گئے۔
چھ پیراگرافس اور کئی ذیلی شقوں پر محیط ان جوابات میں سب سے پہلے یہ بات دہرائی گئی کہ ان تینوں مدعاعلیہان کا نواز شریف پر کوئی انحصار نہیں ہے اور نہ ہی ان تینوں نے آج تک کسی سرکاری عہدے پر فرائض انجام دیے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نواز شریف کا اپنے تینوں بچوں کے کاروبار اور جائیداد سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

عمران خانتصویر کے کاپی رائٹAFP

الزامات اور ان کے جوابات

٭ درخواست کے دوسرے پیراگراف میں وزیر اعظم نواز شریف، ان کے خاندان اور اسحاق ڈار پر پاکستان عوام کی رقم لوٹنے کا الزام لگایا گیا ہے اور پاناما پیپرز میں نام آنے کے باعث ملک اور قوم کی عزت کی دھجیاں اڑانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ پانچویں پیراگراف میں وزیرِاعظم پر جھوٹ بولنے اور غلط بیانی کے الزام لگائے گئے ہیں اور عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ آرٹیکل 62 کے تحت ان کو نااہل قرار دیا جائے۔
جواب کے دوسرے پیراگراف میں مدعاعلیہان کی جانب سے درخواست گزار کے تمام بیانات، دعووں، الزامات، دلائل اور نکات کی غیر مشروط طور مکمل تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کو چاہیے کہ وہ ان تمام الزامات کے ثبوت پیش کریں۔
٭ پیراگراف 11 میں وزیراعظم نواز شریف کے قوم اور اسمبلی سے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ شریف خاندان کی لندن میں جائیداد جدہ میں بیچے جانے والی سٹیل ملز سے حاصل شدہ رقم سے خریدی گئی ہے جو کہ'بینک اور دوستوں کے دیے گئے پیسوں' سے بنائی گئی تھی۔11ویں پیراگراف میں ہی حسن نواز کے بی بی سی کے پروگرام کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حسین نواز نے لندن میں موجود جائیداد اپنے دور طالبعلمی میں کرائے پر لی تھی اور کرایہ ان کو پاکستان سے بھیجا جاتا تھا۔ اسی پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز نے سنہ 2000 میں کہا کہ یہ جائیداد انھوں نے اپنے بچوں کے لیے خریدی تھی لیکن مریم نواز نے سنہ 2012 میں کہا کہ ان کے خاندان کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں ہے۔
جواب:پیراگراف 11 کے جواب میں مدعاعلیہان نے کہا ہے کہ الزامات غلط ہیں۔ حسین نواز نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ وہ اپنے والد نواز شریف پر کسی طرح انحصار نہیں کرتے اور گذشتہ 16 برس سے پاکستان سے باہر اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے جواب میں کہا کہ درخواست گزار کی جانب سے نامزد جائیدادوں اور کمپنیوں کی ملکیت ان کے خاندان یا ان کے پاس جنوری 2006 سے قبل نہیں تھی۔ حسن نواز نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ اپنے والد نواز شریف کے کسی طرح محتاج نہیں ہیں اور پچھلے 22 سال سے پاکستان سے باہر اپنا کاروبار چلا رہے ہیں اور وہ مدعی کی درخواست میں درج جائیدادوں اور کمپنیوں کے کبھی بھی مالک نہیں رہے۔

مریم نوازتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

٭ درخواست کے 12ویں پیراگراف میں الزام لگایا گیا ہے کہ اس بات کے ناقابل تردید شواہد ہیں کہ لندن میں 1993 سے لے کر 1996 تک چار اپارٹمنٹ خریدے گئے تھے جبکہ پانچواں 2004 میں خریدا گیا۔ اس کے علاوہ ایک اور جائیداد جس کا پتہ 1 ہائیڈ پارک ہے، بعد میں خریدی گئی۔
پیراگراف 12 کے جواب میں مدعاعلیہان نے کہا کہ ان تینوں میں سے کسی نے بھی 1993 سے لے کر 1996 کے درمیان درخواست میں درج جائیدادیں اور کمپنیاں نہیں خریدیں۔
٭ پیراگراف 13 میں الزام لگایا گیا ہے کہ برٹش ورجن آئیلینڈ میں آف شور کمپنیاں نیسکول لمیٹڈ 1992 میں اور نیلسن لمیٹڈ 1994 میں 20 سالہ مریم نواز شریف کے نام پر قائم کی گئیں۔ نیلسن لمیٹڈ کا پتہ جدہ کے سرور محل کا دیا گیا تھا۔ اس پیراگراف میں مزید کہا گیا کہ مریم صفدر نواز 2006 میں نیسکول کی واحد شیئر ہولڈر اور ایک اور کمپنی کُمبر گروپ کی مالک بن گئیں۔
پیراگراف 13 کے بھی جواب میں مدعاعلیہان نے کہا کہ ان تینوں یا ان کے خاندان میں سے کسی کا نیسکول لمیٹڈ یا نیئلسن لمیٹڈ کمپنی کی 1992 یا 1994 میں تشکیل سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس پیراگراف میں مریم نواز کے خلاف لگائے جانے والے تمام الزاماتماسوائےان کےنیسکول کمپنی کی ٹرسٹی ہونے کیتردید کی گئی ہے۔

نواز شریفتصویر کے کاپی رائٹREUTERS

٭ پیراگراف 14 میں الزام لگایا گیا ہے کہ 2011 اور 2012 کے انکم ٹیکس ریٹرنز اور 2013 کے الیکشن میں نامزدگی کے کاغذات میں وزیر اعظم نواز شریف نے مریم نواز کو اپنے زیرِ کفالت قرار دیا ہے۔
جواب:پیراگراف 14 کے جواب میں مریم نواز کے دیے گئے پچھلے جوابات کا حوالہ دیا گیا اور کہا کہ تمام الزامات کی تردید کی جا چکی ہے۔ مریم نواز نے کہا ہے کہ وہ ایک ٹیکس ادا کرنے والی شہری ہیں اور عمران خان کے لگائے گئے الزامات کے برعکس وہ ان کی درخواست میں درج جائیدادوں اور کمپنیوں کی مالک نہیں ہیں۔ اپنے جواب میں انھوں نے درخواست گزار سے الزامات کے ثبوت پیش کرنے کا کہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ نامزد شدہ جائیدادیں ایک ٹرسٹ کے زیر انتظام ہیں اور وہ اس میں بحیثیت ٹرسٹی ہیں۔
٭ پیراگراف 18 میں نواز شریف اور ان کے خاندان پر ٹیکس چوری، اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی، منی لانڈرنگ، بیرون ملک رقوم کی منتقلی اور حکومتی واجبات کی عدم ادائیگی کے الزامات لگائے گئے ہیں جبکہ اسے پیراگراف کے سب سیکشنز میں ان الزامات کی تفصیلات دی گئی ہیں۔اسی پیراگراف کے سب سیکشن 26 میں وزیر خزانہ اسحاق ڈارپر الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے اپریل 2000 میں دیے جانے والے اعترافی بیان میں کہا کہ وہ 14.88 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کروانے میں مدد کا اعتراف کرتے ہیں اور انھیں یہ کرنے کا حکم میاں نواز شریف نے دیا تھا۔
جواب: وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عمران خان کی درخواست کے پیراگراف 18 کے سب سیکشن 26 میں لگائے گئے الزام کے بارے ان کے وکلا سید رفاقت حسین شاہ اور سلمان اسلم بٹ نے جع کرائے گئے جواب میں کہا کہ اپریل 2000 میں دیے گئے جس اعترافی بیان کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ 2011 میں ہی فیصلہ سنا چکی ہے کہ اس بیان کی عدالتی حیثیت نہیں ہے اور وہ ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ مزید یہ کہ اس فیصلے کے حق میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی حمایت آ چکی ہے۔ لہٰذا عدالت سے استدعا کی گئی کہ عمران خان کی درخواست خارج کی جائے۔

سراج الحقتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

سراج الحق کے الزامات اور نواز شریف کے جوابات

پاناما پیپرز سے متعلق کیس میں جہاں پاکستان تحریک انصاف اور ان کے چئیرمین عمران خان کی درخواست کا سب سے زیادہ چرچا تھا، وہاں دوسری جانب جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف درخواست دائر کی۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی جانب سے درخواست میں سات پیراگرافس پر مبنی الزامات لگائے اور سوالات کیے گئے تھے۔ وزیر اعظم نے جہاں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست کا تو کوئی جواب نہیں دیا وہیں سراج الحق کی درخواست میں اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی بھرپور تردید کی اور اٹھائے گئے سوالات کے جوابات دیے۔
٭ سراج الحق کے الزامات میں مرکزی نکتہ یہ تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے 2013 کے الیکشن سے قبل گوشواروں میں لندن فلیٹس کی ملکیت نہیں دکھائی لیکن قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران انھوں نے ان فلیٹس کی ملکیت تسلیم کر لی۔ اس صورت میں ان کو آرٹیکل 62 کے تحت جھوٹ بولنے کے سبب نااہل قرار دیا جائے۔
جواب: اپنے وکلا کی جانب سے جمع کرائے گئے جوابات میں وزیر اعظم نواز شریف نے نے خود پر لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت وہ نااہل نہیں ہیں۔انکا کہنا تھا کہ مئی 2016 میں اسمبلی سے خطاب کے دوران انھوں نے نہ تو کوئی غلط بیانی کی اور نہ ہی حقائق کو چھپایا۔ نواز شریف نے جواب میں کہا کہ لندن میں پارک لین اور مے فیئرمیں موجود چار فلیٹس ان کی ملکیت میں نہیں ہیں۔ اسے حوالے سے مزید کہا کہ کیونکہ یہ فلیٹس ان کی ملکیت میں نہیں ہیں اس لیے الیکشن 2013 کے گوشواروں میں بھی ان کا ذکر نہیں ہے۔ اس الزام پر کہ انھوں نے اسمبلی میں جھوٹ بولا تھا، وزیر اعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ قومی اسمبلی کے ہررکن کو حق رائے دہی حاصل ہے اور آرٹیکل 68 اور 248 کے تحت ان کے بیانات کسی عدالتی کاروائی کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اپنے جواب میں نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ درخواست گزاروں کے لگائے گئے الزامات سے لگتا ہے کہ وہ اس مقدمے کا حل نہیں چاہتے بلکہ صرف سیاسی مقاصد حاصل کرنا اور انتقام لینے چاہتے ہیں جو مفاد عامہ کے خلاف ہے۔

No comments:

Post a Comment