ACTION RESEARCH OPINION: Panama Judgement ties 
are logical incapability’s, option are faith means; 
‘Istakhara’/ ‘Sermons’/ ‘might is right’/ head & tail, or 
as resolved ties in golden days as proclaimed during 
the DAWN OF FAITH.


**** 

Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39653854

PANAMA CASE: NOTES OF DESCENT

پاناما کیس: اختلافی نوٹوں میں کیا کہا گیا ہے؟


justice asif khosaتصویر کے کاپی رائٹSUPREME COURT OF PAKISTAN
Image captionجسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلے میں نیب کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ میاں نواز شریف کے بچوں کے نام پر قائم کردہ تمام جائیدادوں اور کاروبار کا جائزہ لے

پاناما مقدمے میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے عدالت عظمیٰ کے دو جج صاحبان نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو بد دیانتی اور خیانت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انھیں وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نااہل قرار دیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ میاں نواز شریف اپنے مالی معاملات اور لندن کی جائیداد کے بارے میں اس عدالت کے سامنے غلط بیانی کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔
دونوں جج صاحبان نے الگ الگ فیصلوں میں اسی بنا پر نواز شریف کو وزیراعظم کی حیثیت سے کام کرنے سے روکنے کا حکم جاری کیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے نواز شریف اپنی ملکیتوں اور لندن کی جائیدادوں کی وضاحت کرتے ہوئے اس قوم، پارلیمنٹ اور عدالت کے سامنے دیانت دار نہیں رہے۔
’اس بد دیانتی کی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف آئین کی شق 62 اور عوامی نمائندگان کے قانون 1976 کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن رہنے کے اہل نہیں رہے۔‘
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے نوٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ میاں نواز شریف کو رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے نااہل قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے جس کے نتیجے میں وہ وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار پائیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صدر پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔
جسٹس کھوسہ نے انسداد بدعنوانی کے ادارے نیب کو بھی حکم جاری کیا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے خلاف بدعنوانی میں ملوث ہونے کے قوانین کے تحت کارروائی کرے۔
اس کے علاوہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ نواز شریف کے خلاف اپنے سابق ڈائریکٹر جنرل رحمٰن ملک (جو اب پیپلز پارٹی کے سینٹیر ہیں) کی جانب سے 1994 میں درج کیے گئے مقدمات کی تفتیش، شواہد اور تفصیل بھی ضرورت پڑنے پر نیب کو فراہم کرے۔
جسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلے میں نیب کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ میاں نواز شریف کے بچوں کے نام پر قائم کردہ تمام جائیدادوں اور کاروبار کا بھی جائزہ لے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ بچے اپنے والد کے لیے یہ جائیدادیں اور کاربار تو نہیں چلا رہے؟

جسٹس گلزارتصویر کے کاپی رائٹSUPREME COURT OF PAKISTAN
Image captionجسٹس گلزار نے کہا ہے کہ اس صورتحال میں عدالت عظمیٰ محض تماشائی کا کردار ادار نہیں کر سکتی

جسٹس کھوسہ نے نیب کے سربراہ کے بارے میں کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے معامہ میں قمر زمان چوہدری کا کردار مشکوک ہے اس لیے وہ ان فریقین کے سلسلے میں ہونے والی کسی تفتیش میں کسی قسم کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔
جسٹس کھوسہ نے نیب کو وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کی بریت کے فیصلے کو ختم کرتے ہوئے منی لانڈرنگ معاملے میں کارروائی کا حکم دیا ہے۔

جسٹس گلزار احمد

پاناما مقدمے میں اختلافی نوٹ لکھنے والے دوسرے جج جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ عوامی عہدیدار کی حیثیت سے یہ میاں محمد نواز شریف کی ذمہ داری تھی کہ وہ لندن فلیٹس کے بارے میں صحیح حقائق سے قوم اور اس عدالت کو آگاہ کرتے۔ ’لیکن وہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام رہے اس لیے وہ آئین کی شق 62 کے تحت صادق اور امین نہیں رہے۔‘
جسٹس گلزار نے کہا ہے کہ اس صورتحال میں عدالت عظمیٰ محض تماشائی کا کردار ادار نہیں کر سکتی بلکہ اسے تکنیکی نکتوں سے بالاتر ہو کر انصاف کی فراہمی کے لیے ایک مثبت فیصلہ دینا ہو گا۔
’اس لیے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف صادق اور امین نہیں ہیں اور اسی بنا پر وہ رکن قومی اسمبلی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو چکے ہیں اور وزیراعظم کی حیثیت سے کام جاری نہیں رکھ سکتے۔‘
**** 
Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39652896

’پاناما ون ختم، پاناما ٹو شروع ہو گیا ہے‘

دانیال عزیز، خواجہ سعد رفیقتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionمسلم لیگ نواز کے رہنما عدالتی فیصلے کے بعد فتح کا نشان بناتے نظر آئے تھے
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما دستاویزات کے معاملے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کے حکم کے باوجود حکومت کا موقف یہی ہے کہ یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی ہار ہے تاہم تجزیہ نگار اس خیال سے متفق دکھائی نہیں دیتے۔
نامہ نگار شمائلہ خان کے مطابق ایاز امیر کہتے ہیں کہ اس فیصلے میں وزیرِ اعظم کو کوئی کلین چٹ نہیں ملی۔
'درحقیقت صورتحال یہ ہے کہ دو ججوں نے کہا ہے کہ نواز شریف کو نااہل قرار دینا چاہیے کیونکہ وہ صادق و امین نہیں رہے۔ عدالت نے پٹیشن کو مسترد نہیں کیا بلکہ کہا ہے کہ مزید تحقیقات ہونی چاہییں۔ تو اس لحاظ سے وزیرِاعظم کو کلین چِٹ نہیں ملی۔'
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'سیاسی طور پر جو توقعات تھیں کہ یہ بینچ وزیرِ اعظم کو گھر بھیج دے گا وہ چونکہ پوری نہیں ہوئیں تو جو تاثر ہوگا وہ یہی ہو گا کہ نواز لیگ، ان کے حمایتی یا وزیرِاعظم بچ گئے ہیں۔ وہ اسے اپنی قانونی فتح قرار دے رہے ہیں لیکن آئینی طور پر انھیں کلین چِٹ نہیں دی گئی ہے۔'
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے قیام پر ان کا کہنا تھا 'جے آئی ٹی اور کمشنز نے 70 سال میں تو پاکستان میں کوئی معجزات نہیں دکھائے اور اسی لیے جن لوگوں کو توقع تھی کہ وزیرِ اعظم کی گردن خطرے میں ہے وہ اسی جے آئی ٹی کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ اس ایشو کو دفنا دیاگیا ہے اور اس سے کچھ نہیں نکلےگا۔ ابھی تک ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی کا کچھ نہیں نکلا ہے۔'
نواز شریفتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionایاز امیر کے مطابق عدالت نے پٹیشن کو مسترد نہیں کیا بلکہ کہا ہے کہ مزید تحقیقات ہونی چاہییں۔ تو اس لحاظ سے وزیرِاعظم کو کلین چِٹ نہیں ملی
ان خیالات کے برعکس تجزیہ نگار طلعت حسین کہتے ہیں کہ سیاسی طور پر یہ بظاہر نواز لیگ کی جیت ہے۔
'یہ کوئی قانونی کیس تو تھا نہیں، پی ٹی آئی بنیادی طور پر ایک سیاسی کیس لڑ رہی تھی۔ انھیں یہ توقع تھی کہ عدالت کے فیصلے کے بعد وزیرِ اعظم نہیں رہیں گے لیکن اب عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف وزیرِ اعظم کے طور پر موجود ہیں اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نواز لیگ سیاسی طور پر جیتی ہوئی نظر آتی ہے۔'
انھوں نے یہ بھی کہا کہ 'قانونی طور پر عدالت نے انویسٹیگیشن کا دائرہ کار طے کیا ہے جس کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ نواز شریف کے خاندان نے باہر پیسے کیسے بھیجے اور جائیدادیں کیسے بنائیں؟ یہ ایک لمبا عمل ہے اور اُس میں سے کیا نکلے گا یہ تو بعد کی بات ہے۔ فی الحال اگر نواز لیگ خوشیاں منا رہی ہے تو حق بجانب ہے۔'
سینیئر صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ جب تک کہ جے آئی ٹی اپنی انکوائری مکمل نہیں کرتی، اگر نواز شریف استعفے کا اعلان کر دیں تو اخلاقی طور پر ان کو برتری حاصل ہو جائےگی۔
'نواز شریف کی حکومت فی الحال بچ تو گئی ہے لیکن ان کی ساکھ اور عزت نہیں بچی۔ بظاہر تو حکومت کے وزرا فتح کےنعرے لگا رہے ہیں لیکن حکومت کی قانونی ٹیم مشورہ دے رہی ہے کہ اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواست جمع کرنی چاہیے۔'
حامد میر کا کہنا ہے کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ وزیرِ اعظم کی نااہلی کا معاملہ دوبارہ زیرِ بحث آ سکتا ہے۔ یہ پاناما ون ختم ہوا ہے، پاناما ٹو شروع ہو گیا ہے۔ اگر نواز شریف کہتے ہیں کہ ان کی فتح ہوگئی ہے تو ایسا کچھ نہیں ہے۔'