Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-43039238
ڈھاکہ: ایسا شہر جہاں تدفین کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی
ڈھاکہ میں بیشتر قبریں عارضی ہیں کیونکہ بنگلہ دیشی دارالحکومت میں مُردوں کو دفنانے کی جگہ کم پڑ رہی ہے۔ لیکن آپ کیا کریں کہ اگر آپ کے کسی چاہنے والے کی قبر میں کسی اور کو دفن کر دیا جائے؟
ثریا پروین اپنے والد کی قبر پر نہیں جاسکتیں کیونکہ اس قبر میں اب کسی اجنبی کا جسم دفن ہے۔
ڈھاکہ کے نواح میں واقع اپنے چھوٹے سے گھر میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’سب سے بڑی بیٹی ہونے کے ناطے میں بہت سے چیزوں کا خیال رکھتی ہوں۔ ایک دن میں نے اپنے بھائی سے پوچھا کہ کیا وہ حالیہ دنوں قبر پر گیا تھا۔‘
کچھ ہچکچاتے ہوئے ان کے بھائی نے انھیں بتایا کہ ان کے والد کی قبر کے اوپر ایک نئی قبر بنی ہوئی تھی۔
ان کی انکھوں میں آنسو تھے جب انھوں نے کہا کہ ’اب وہ قبر ایک دوسرے خاندان کی ملکیت ہے اور انھوں نے اسے سیمنٹ سے پکا کر دیا ہے۔ یہ خبر میرے پر بجلی بن کر گری۔ میں کچھ دیر بول ہی نہ سکی۔‘
’اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں اسے بچانے کی کوشش کرتی۔ یہ قبر میرے والد کی آخری نشانی تھی اور اب میں نے اسے کھو دیا ہے۔‘
وہ اب بھی کالشی قبرستان جا سکتی ہیں لیکن ان کے والد کی قبر اب موجود نہیں ہے اور ان کی قبر کے اوپر کوئی اور دفن ہے۔
ثریا کے ساتھ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔
وہ اپنے پہلے نوزائیدہ بچے، اپنی والدہ اور چچا کی قبریں بھی اسی انداز میں کھو چکی ہیں۔ اس بحران کی وجہ سے ڈھاکہ میں بہت سے افراد اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لیے مستقل قبریں حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
تدفین کے لیے جگہ حاصل کرنا مشکل نہیں ہے، عارضی جگہیں بہت سستی ہیں، لیکن شہر کے قوانین کے مطابق ہر قبر میں دو سال کے بعد مزید ایک لاش دفن کی جاتی ہے۔
چنانچہ عارضی قبروں میں کئی کئی مردہ افراد کو دفن کیا جاتا ہے۔ ڈھاکہ میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔
لوگوں کے لیے یہ مشکل ضرور ہے لیکن ان کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔ بعض اوقات ایک ہی خاندان کے افراد کو ایک قبر میں دفن کیا جاتا ہے۔ مسلم اکثریتی ملک میں مردہ جسم کو نذر آتش بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔
سنہ 2008 سے شہری انتظامیہ نے مستقل قبریں الاٹ کرنا بند کر دیا ہے، جبکہ نیم مستقل قبروں پر 20 ہزار ڈالر خرچ آسکتا ہے، جبکہ بنگلہ دیش کی فی کس سالانہ آمدن صرف 1610 ڈالر ہے۔
ڈھاکہ میں عظیم پور قبرستان میں بھنگ کے پودوں کی صفائی کے لیے مزدور رکھے جاتے ہیں۔ یہ شہر کا سب سے بڑا اور مشہور قبرستان ہے اور یہاں ہر سمت ہزاروں کی تعداد میں قبریں ہیں، جن میں سے بیشتر بری حالت میں ہیں۔
قبروں میں دفن افراد کے بارے میں تفصیلات کتبوں پر لکھی ہوئی ہے۔ زمین کا ہر انچ استعمال کیا جا چکا ہے۔
صبیحہ بیگم کی بہن نے 12 سال قبل خودکشی کی تھی اور وہ یہاں دفن ہیں۔ گذشتہ دس سال سے وہ اس کی قبر کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے اور تسلیم کرتی ہیں کہ انھوں نے قبرستان کی دیکھ بھال کرنے والوں کو رشوتیں دی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں اس کی کمی ہر روز محسوس کرتی ہوں اور یقین کرتی ہوں کہ وہ واپس آجائے گی۔ میں کبھی کبھی اس کی قبر پر جاتی اور اس سے بات کرتی ہوں۔ نئی فلمیں جو میں دیکھیں یا گانے جو میں سن رہی ہوتی ہوں اس کے بارے میں باتیں کرتی ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس قبر میں موجود ہے۔ یہ جذبات بیان کرنا خاصا مشکل ہے۔‘
ہر سال جب ان کی بہن کی قبر خطرے کی زد میں آتی ہے تو انھیں رکھوالی کرنے والے کی کال آتی ہے، جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ان کی بہن کی قبر میں کسی اور کو دفن نہ کیا جائے۔
صبیحہ بیگم بتاتی ہیں: ’جب ہم نے اسے دفن کیا تو ہمیں معلوم تھا اب وہ مستقبل پلاٹس الاٹ نہیں کرتے۔ تدفین کے 18 یا 22 ماہ بعد، مجھے صحیح یاد نہیں۔۔۔ انھوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ اس قبر کو گرا دیا جائے گا۔ میں اس کو بچانے کے لیے راستے نکالنا شروع کر دیے۔‘
’قبر کی دیکھ بھال کے لیے جو بندہ میں نے رکھا تھا اس نے بتایا کہ اسے رقم سے بچایا جا سکتا ہے۔ میں ان تمام برسوں میں ایسے ہی نپٹا رہی ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں: ’ہر سال اگست یا فروری میں مجھے دیکھ بھال کرنے والے کی کال آتی ہے جب قبروں کو گرانے کا وقت قریب ہوتا ہے اور میں اس کی ماہانہ فیس کے علاوہ اضافی رقم بھی دیتی ہوں۔ اور اس طرح میں 12 سال سے قبر کی دیکھ بھال کر رہی ہوں۔‘
بنگلہ دیش میں مذہبی عالموں کے مطابق اسلام ایک قبر میں ایک سے زیادہ افراد کی تدفین کی اجازت دیتا ہے۔
تاہم بیشتر لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے انتقال کرجانے والے عزیز و اقارب کو اپنی الگ قبر ملے۔
لیکن ڈھاکہ میں اب ایسا ممکن نہیں رہا، خواہ آپ کا تعلق کسی بھی عقیدے سے ہے۔
ڈھاکہ کے سب سے بڑے کیتھولک چرچ سے منسلک ہولی روزری قبرستان شہر کے گنجان آباد کاروباری علاقے میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے جیسا ہے۔
فادر کومول کورایا کہتے ہیں کہ یہاں بھی تازہ ترشی ہوئی گھاس اور ہر قبر کے اوپر نفاست سے پینٹ کی ہوئیں صلیبں اکثر ایک افسردہ کہانی کو چھپاتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’بہت سے لوگوں کی ڈھاکہ نقل مکانی سے یہ بہت مشکل ہو رہا ہے۔ ہم قبرستان کی دیکھ بھال بہت عمدہ انداز میں کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ چرچ کے قبرستان میں دفن ہونا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اسے مقدس جگہ سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس محدود جگہ ہے چنانچہ ہر پانچ سال بعد ہمیں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ جب ہم کوئی قبر کھودتے ہیں تو ہمیں اکثر ایسی ہڈیاں ملتی ہیں جو ابھی گلی سڑی نہیں ہوتیں۔‘
یہ ڈھاکہ کی ایک کھلی حقیقت ہے۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ افراد تقریباً 300 مربع کلومیٹر میں رہ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ڈھاکہ کرۂ ارض پر سب سے زیادہ گنجان آباد شہر ہے جہاں ہر ایک موبع کلومیٹر میں 44 ہزار افراد رہ رہے ہیں۔
ڈھاکہ میں صرف آٹھ عوامی قبرستان ہیں جبکہ کچھ نجی ملکیت کے حامل ہیں۔
ڈھاکہ سٹی کارپوریشن سدرن ڈسٹرکٹ کے سی ای او خان محمد بلال کہتے ہیں کہ شہر کے حکام اب لوگوں کو اپنے آبائی دیہات میں تدفین کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور ایسا کرنے والوں کی مالی معاونت کا بھی منصوبہ بنا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’ڈھاکہ میں شاید ایسے خاندان ہیں جو اپنے گاؤں میں تدفین کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے لیے لاش لے کر جانا مہنگا ہے۔ ہم لاش کو پہنچانے کے لیے گاڑی مہیا کرنے کا انتظام کریں گے۔ ہم انھیں رسومات کی ادائیگی کے لیے رقم دیں گے۔ شاید اس طرح ڈھاکہ میں مُردوں کی تدفین کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔‘
اس اقدام سے ایک بگڑتے ہوئے مسئلے کو کسی حد تک کم کرنے میں مدد تو مل سکتی ہے لیکن ثریا پروین اور ان جیسے دوسرے افراد کو اپنے پیاروں کی آخری آرام گاہ کے چھن جانے کا دکھ کا مداوا کم ہی ہوگا۔
تصاویر: امیر الراجیو
No comments:
Post a Comment