کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو انڈیا کے دورے پر ہیں اور وہ یہاں اپنے خاندان کے ساتھ تقریباً ایک ہفتے قیام کر رہے ہیں۔
GETTY IMAGES/PRAKASH SINGH
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو انڈیا کے دورے پر ہیں اور وہ یہاں اپنے خاندان کے ساتھ تقریباً ایک ہفتے قیام کر رہے ہیں۔
GETTY IMAGES/PRAKASH SINGH
46 سالہ جسٹن ٹروڈو سنیچر کو اپنی اہلیہ سوفی ٹروڈو اور تین بچوں (زیویئر، ایلا گریس اور ہیڈریئن) کے ساتھ انڈیا آئے۔ یہاں انھیں دہلی کے پالم ایئرفورس ہوائی اڈاے پر جہاز سے اترتے اور انڈین انداز میں نمستے کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
GETTY IMAGES
اپنے انڈیا دورے کے آغاز پر انھوں نے پنجاب کا دورہ کیا جہاں انھوں نے امرتسر میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹمپل کا بھی دورہ کیا۔
GETTY IMAGES/MONEY SHARMA
پیر کو ٹروڈو گجرات پہنچے جہاں انھوں نے اکشر دھام مندر کا دورہ کیا اور پھر مہاتما گاندھی کے آشرم سابرمتی کے لیے روانہ ہو گئے۔
GETTY IMAGES/SAM PANTHAKY
وہ گذشتہ پانچ ماہ کے دوران گجرات کے شہر احمد آباد جانے والے تیسرے غیر ملکی قائد ہیں۔
GETTY IMAGES/SAM PANTHAKY
کینیڈا کے وزیر اعظم اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہندوستانی لباس میں نظر آئے جہاں انھوں نے گاندھی مارکہ چرخہ بھی چلایا۔
GETTY IMAGES/MONEY SHARMA
اس سے قبل اتوار کو انھوں نے محبت کی نشانی کہے جانے والے معروف یادگار تاج محل کا دورہ کیا اور اس مخصوص جگہ پر تصویر کھنچوائی جہاں تقریباً تمام لوگ تصویر لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔
GETTY IMAGES/MONEY SHARMA
دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کینیڈا کے وزیر اعظم کے ساتھ گجرات دورے پر کیوں نہیں گئے۔
GETTY IMAGES/MONEY SHARMA
سابر متی آشرم میں ٹروڈو نے وزیٹرس بک پر لکھا کہ یہ جگہ بہت ہی خوبصورت ہے جہاں سکون، سچائی اور ہم آہنگی ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو سات روزہ سرکاری دورے پر انڈیا گئے ہوئے ہیں لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی کی حکومت ان کے دورے کو اتنی اہمیت نہیں دے رہی جتنی دی جانی چاہیے تھی۔
تاثر یہ ہے کہ جسٹن ٹروڈو کے دورے کو حکومت کے اعلیٰ اہلکاروں نے اب تک نظر انداز کیا ہے اور قیاس آرائی یہ ہے کہ اس کی وجہ ان کی کابینہ میں شامل وہ چار سکھ وزرا ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں انڈیا میں بعض لوگوں کا الزام ہے کہ ان کی ہمدردی خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک کے ساتھ رہی ہے۔
جب مسٹر ٹروڈو اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ سنیچر کی رات دلی پہنچے تو ان کا استقبال کرنے کے لیے ہوائی اڈے پر وفاقی حکومت کے ایک جونیئر وزیر موجود تھے، لیکن گذشتہ ماہ جب اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور اس سے پہلے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور جاپان کے وزیر اعظم انڈیا آئے تھے تو نریندر مودی ان کا استقبال کرنے خود ائیر پورٹ پہنچے تھے اور نیتن یاہو اور شنزو آبے کو خود گجرات لے کر گئے تھے۔
بنیامین نیتن یاہو آگرہ میں تاج محل دیکھنے گئے تو خود اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کے ساتھ موجود رہے۔ جسٹس ٹروڈو گئے تو انہیں ضلع میجسٹریٹ سے ہی کام چلانا پڑا۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا حکومت واقعی مسٹر ٹروڈو کو دانستہ طور پر نظر انداز کر رہی ہے اور اگر ہاں، تو کیوں؟
کالم نگار وویک دہیجیا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلا شبہہ مسٹر ٹروڈو کو نظرانداز کیا جارہا ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ ایک جونیئر وزیر کو ان کے استقبال کے لیے بھیجا گیا۔
ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان کی کابینہ کے کئی سینیئر وزیر پنجاب میں علیحدگی کی تحریک سے مبینہ طور پر وابستہ رہے ہیں۔
اس سے پہلے گذشتہ برس کینیڈا کے وزیر دفاع ہرجیت سجن انڈیا آئے تھے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امرندر سنگھ نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔
لیکن کینیڈا میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر وشنو پرکاش کا کہنا ہے کہ مسٹر ٹروڈو کے استقبال میں پروٹوکال کی پاسداری کی گئی ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر غیرملکی رہنما کا استقبال وزیر اعظم خود کریں۔
دونوں وزرا اعظم کی ملاقات جمعہ کو ہونی ہے۔
سابق سفارتکار کنول سبل کا کہنا ہے کہ مسٹر ٹروڈو کے دورے کو خالصتان کی تحریک کے بارے میں انڈیا کے خدشات کینیڈا کی اعلیٰ قیادت تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور خالصتان کی تحریک کا سایہ اگر اس دورے پر شروع سے ہی اثر انداز ہوتا ہے تو سیاسی اعتبار سے یہ غلط ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس دورے کو جسٹن ٹروڈو سے یہ وعدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کہ کینیڈا میں سرگرم خالصتان کے ہمدردوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
مسٹر سبل کے خیال میں بھی یہ تاثر غلط ہے کہ جسٹن ٹروڈو کے دورے کو اتنی اہمیت نہیں دی جارہی جتنی کہ ملنی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سنہ 2015 میں جوہری معاہدہ طے پانے کے بعد باہمی رشتوں میں ڈرامائی انداز میں بہتری آئی ہے۔
کینیڈا کے ایک وزیر ہرجیت سوہی نے چند روز قبل کہا تھا کہ نہ تو وہ خالصتان کی تحریک کے حق میں ہیں اور نہ خلاف اور اگر کینیڈا میں ایک چھوٹا سا حلقہ پرامن انداز میں علیحدگی کی تحریک کی بات کرتا ہے، تو ایسا کرنا ان کا حق ہے۔
لیکن کینیڈا کے اخبار ٹورونٹو سن کی کالم نگار میلکم کینڈس کا کہنا ہے کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کینیڈا میں آکر بسنے والوں کو شدت پسند تنظیموں کی حمایت کرنے کا حق حاصل ہے؟
ان کے مطابق جسٹن ٹروڈو اور ان کے وزیر جگمیت سنگھ کو خالصتانی شدت پسندوں کی مذمت کرنی چاہیے۔
لیکن جسٹن ٹروڈو ابھی صرف سیاحت کر رہے ہیں، جب سیاست شروع ہوگی تو واضح ہوگا کہ انہیں نظرانداز کیا گیا ہے یا نہیں۔
No comments:
Post a Comment