Sunday 4 February 2018

NUKE WEOPON WORLDWIDE DISTRIBUTION


source:http://www.bbc.com/urdu/world-42928755

دنیا کے جوہری ہتھیار کہاں کہاں ہیں؟

جوہریتصویر کے کاپی رائٹALAMY
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے روس کی جانب سے خطرات کے جواب میں امریکہ کے جوہری اسلحہ خانہ کی تجدید اور نئے کم خرچ بم تیار کرنے کا خاکہ پیش کیا ہے۔
بی بی سی نے ریئلٹی چیک میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کے جوہری ہتھیار کہاں کہاں موجود ہیں اور ان کا مالک کون ہے؟
اگرچہ سرد جنگ کے بعد دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے، تاہم دنیا میں اب بھی ایسے سینکڑوں جوہری ہتھیار موجود ہیں جنھیں مختصر نوٹس نوٹس پر چلایا جا سکتا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیار رکھنے والا ہر ملک انھیں جدت دے رہا ہے یا اس کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

مزید پڑھیے

دنیا کے مختلف ممالک اپنے جوہری ہھتیاروں کی تفصیلات کو مخفی رکھتے ہیں مگر نو ممالک کے تقریباً 9000 جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ یہ ہتھیار یا تو زمین پر یا پھر بحری اور فضائی اڈوں پر لگائے گئے ہیں اور ان میں سے تقریباً 1800 ایسے ہیں جو کہ چند لمحوں کے نوٹس پر لانچ کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) کے مطابق جن وار ہیڈز کو ختم کیا جانا ہے ان کی تعداد 15000 جو کہ سنہ 1980 کی دہائی میں 70000 کے قریب تھی۔
حالیہ کچھ ماہ میں شمالی کوریا نے جدید سے جدید تر میزائل تجربے کیے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
سنہ 1970 س سے لے کر اب تک امریکہ، روس، برطانیہ، چین، اور فرانس سمیت 190 ممالک نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے ہیں۔ انڈیا، اسرائیل اور پاکستان نے اس معاہدے پر کبھی دستخط نہیں کیے جبکہ شمالی کوریا نے سنہ 2003 میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
این پی ٹی امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ اور چین کو قانونی طور پر جوہری طاقت مانتا ہے کیونکہ ان ممالک نے اس معاہدے سے قبل جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے تھے۔
اس معاہدے کے تحت ان ممالک کو بھی جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
این پی ٹی معاہدے کے تحت ان ممالک کے علاوہ دیگر کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں۔ جنوبی افریقہ، بیلارس، قزاقستان اور یوکرین نے اپنے جوہری ہتھیار ختم کر دیے ہیں۔
فڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کا کہنا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور روس اپنے ہتھیاروں کی تعداد کم کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل اور فرانس کے پاس ہتھیاروں کی تعداد قدرے مستحکم رہی ہے جبکہ چین، پاکستان اور شمالی کوریا نئے ہتھیار بھی بنا رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیار رکھنے والا ہر ملک اپنے ہتھیاروں میں جدت ضرور لا رہا ہے۔
سپری کے سربراہ شینن کائل کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں میں جدت لانا این پی ٹی کی روح کے منافی ہے۔
برطانیہ کا منصوبہ ہے کہ جوہری میزائلوں سے لیس وین گارڈ جوہری آب دوزوں کو بدلا جائے۔ سنہ 2020 کی دہائی تک برطانیہ کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہو کر 180 یا اس سے کم رہ جائے گی۔
ادھر امریکہ نے اپنے ہتھیاروں میں جدت لانے کے لیے 2040 کی دہائی تک ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ امریکہ کے تقریباً 150 وار ہیڈز بلجیئم، جرمنی، اٹلی، ہالینڈ، اور ترکی میں نصب ہیں۔
شمالی کوریا نے گذشتہ سال ستمبر میں اپنا چھٹا جوہری تجربہ کیا تھا تاہم ماہرین ابھی تک اس پر اتفاق نہیں کر سکے کہ شمالی کوریا کا جوہری پروگرام ان وار ہیڈز کو اس کے لانگ رینج میزائلوں کو لے جانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔
شمالی کوریا نے حالیہ کچھ مہینوں میں جدید میزائل تجربات کیے ہیں جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment