Source: http://www.bbc.com/urdu/science-38379995
پروسٹیٹ کینسر کا نیا علاج واقعی ’انقلابی‘ ہے
یورپ میں کئی ماہرین طِب کا کہنا ہے کہ پروسٹیٹ کینسر کا ایک نیا علاج اس مرض کو ابتدائی مراحل میں قابو کرنے کی جانب ایک ’انقلابی قدم‘ ثابت ہو سکتا ہے۔
جس نئے طریقہ علاج کو یورپ میں کئی جگہ تجرباتی بنیاد پر استعمال کیا گیا ہے اس میں مردوں میں مثانے کی غدود میں ٹیُومر کا علاج لیزر شعاعوں اور گہرے سمندروں میں پائے جائے والے ایک بیکٹیریا سے بنائی ہوئی ایک دوا کے امتزاج سے کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ علاج کی خوبی یہ ہے کہ اس کے کوئی مضر اضافی اثرات یا ’سائیڈ افیکٹ‘ نہیں دیکھے گئے ہیں۔
کینسر کے ایک جریدے میں شائع ہونی والی تحقیق کے مطابق اس نئے طریقے کو 413 مردوں پر آزمایا گیا جن میں سے تقریباً نصف میں کیسنر کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔
پروسٹیٹ یا مثانے کے کیسنر کا علاج عموماً آپریشن یا ریڈیو تھراپی سے کیا جاتا ہے، تاہم اکثر مریضوں کو اس کی قیمت نامردی اور پیشاب پر قابو نہ رکھ سکنے کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔
آپریشن یا ریڈیو تھراپی کرانے والے دس میں سے نو مریضوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے جبکہ دو کو پیشاب پر قابو نہیں رہتا۔
یہی وجہ ہے کہ پروسٹیٹ ٹیومر کے اکثر مریض ابتدائی مراحل میں ’ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے‘ کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہیں اور اس کا علاج اسی صورت میں شروع کراتے ہیں جب یہ مرض جارحانہ مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے۔
نئے طریقۂ علاج کو تجرباتی طور پر استعمال کرنے والے یونیورسٹی کالج لندن سے منسلک پروفیسر مارک ایمبرٹن کہتے ہیں کہ اس علاج نے ’سب کچھ بدل کے رکھا دیا ہے۔‘
نئے طریقۂ علاج میں جو دوا استعمال کی گئی ہے وہ ان بیکٹریا سے بنائی جاتی ہے جو سطح سمندر کی تاریکییوں میں پائے جاتے ہیں اور ان میں زہر جیسی خصوصیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب ان پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
نئے طریقۂ علاج میں دس عدد فائبر آپٹک تاروں کی مدد سے لیزر شعائیں کیسنر زدہ غدود پر ڈالی جاتی ہیں۔ جب سرخ لیزر کا بٹن دبایا جاتا ہے تو اس سے غدود کے اندر موجود دوا میں ہلچل پیدا ہوتی ہے اور وہ کینسر زدہ خلیوں کو مار دیتی ہے اور آپ کی غدود سے مرض ختم ہو جاتا ہے۔
اس طریقے کو یورپ کی کئی ممالک کے 47 ہسپتالوں میں تجرباتی بنیادوں پر استعمال کیا گیا جہاں 49 فیصد مریضوں میں کینسر بالکل ختم ہو گیا۔ اور ان میں سے صرف چھ فیصد ایسے تھے جنھیں آخر کار آپریشن کے ذریعے اپنی پروسٹیٹ نکلوانا پڑی، جبکہ جن مریضوں نے یہ علاج نہیں کراویا ان میں سے 30 فیصد کو پروٹسیٹ نکلوانا پڑی۔
ایک برطانوی امدادی تنظیم ’پروسٹیٹ کینسر یو کے‘ کے ڈاکٹر میتھیو ہوبز کہتے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی ان مردوں کو اس مخمصے سے نکلنے میں مدد دے گئ کہ آیا انھیں پروسٹیٹ کا علاج کروانا چاہیے یا اسے ویسے ہی چھوڑ دینا چاہیے۔۔
No comments:
Post a Comment